ہوم << ماضی میں نہیں بلکہ حال میں جینا سیکھیں- عاصمہ حسن

ماضی میں نہیں بلکہ حال میں جینا سیکھیں- عاصمہ حسن

وقت کا کام ہے گزرنا پھر یہ اچھا ہو یا بُرا گزر ہی جاتا ہے. بظاہر ہمیں لگتا ہے کہ وقت چیونٹی کی رفتار سے گزر رہا ہے کیونکہ ہم مسائل کا شکار ہوتے ہیں، پریشان ہوتے ہیں اور جلد سے جلد اس صورتحال سے باہر نکلنا چاہتے ہیں. لیکن اس کے برعکس ہم یہ بھی لوگوں کو کہتے سنتے ہیں کہ پتہ ہی نہیں چلا اور وقت کتنی جلدی گزر گیا، حالانکہ وہ تو اپنی رفتار سے ہی گزرتا ہے لیکن جب گزر جاتا ہے تو پیچھے مڑ کر دیکھنے پر درپیش مسائل بہت معمولی محسوس ہوتے ہیں، کیونکہ ہم ان سے گزر چکے ہوتے ہیں. وقت جیسا بھی ہو گزر تو جاتا ہے لیکن اپنے اَن مِٹ نقوش چھوڑ جاتا ہے .

ہمارے ہر عمل کا دارومدار ہماری سوچ پر منحصر ہوتا ہے اور سوچ ہمارے تجربات و مشاہدات کی روشنی میں بنتی ہے. اگر ماضی میں ہمارا کوئی تجربہ برا رہا تو ہماری سوچ اس بارے میں ویسی ہی بن جائے گی. اس کے برعکس اگر کچھ اچھا ہوا ہے تو اس کا اثر بھی ہماری سوچ اور ہمارے عمل میں دکھائی دے گا. یہ بھی سچ ہے کہ ماضی کی ناکامیاں ہمیں بزدل بنا دیں گی جبکہ کامیابیاں ہمیں مزید محنت کرنے کا حوصلہ عطا کرتی ہیں.

یہ بھی حقیقت ہے کہ جو چیزیں ہمیں آج پریشان کر رہی ہیں یا جن مشکل حالات سے ہم آج گزر رہے ہیں، جب کل کو ان کے بارے میں سوچیں گے تو یہ واقعات ہمارے لیے اہمیت کے حامل نہیں رہیں گے، اور ہم اس بات پر حیران ہوں گے کہ کیوں ہم نے ان معمولی باتوں پر اپنی توانائیاں ضائع کیں یا خود کو ہلکان کیا. یہی ہم انسانوں کی عام روش ہے .

اکثر لوگ ماضی سے اپنی جان نہیں چھڑا پاتے ' کچھ تو اپنے اچھے وقت کو یاد کر کے روتے رہتے ہیں، اور اپنا زیادہ تر وقت یہ سوچ سوچ کر پریشان ہوتے رہتے ہیں کہ ایسا کیوں کیا، ویسا کیوں کیا یا پھر یہ کہ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا، کاش کہ ایسا نہ ہوا ہوتا، یا میں نے فلاں فیصلہ نہ لیا ہوتا، مجھ سے بہت بڑی غلطی ہو گئی. وہ اپنے ماضی سے جان نہیں چھڑا پاتے جس کا ان پر ، ان کی سوچ پر منفی اثر پڑتا ہے، کیونکہ ایسی سوچیں صرف دماغ کو تھکاتی ہیں جو چڑچڑا پن اور اکتاہٹ کا باعث بنتی ہے، اور جس سے مزید پریشانی جنم لیتی ہے، بے سکونی اور افسردہ پن پیدا ہوتا ہے جس کا فائدہ کوئی نہیں ہوتا بلکہ ہر طرح سے نقصان ہی نقصان ہوتا ہے.

ہمیشہ یاد رکھیں کہ جو وقت گزر گیا سو گزر گیا. کسی کے پاس اتنی طاقت نہیں کہ وہ گزرے ہوئے وقت کو واپس لا سکے یا کی گئی غلطی کو سدھار سکے. لہٰذا خود کو کوسنے کے بجائے خالقِ کائنات کا شکرگزار ہونا چاہیے کہ اس نے ہمیں یہ موقع فراہم کیا کہ ہمیں اپنی غلطیوں یا غلط فیصلوں کا علم ہوا اور ہمیں ان تجربات سے سیکھنے کو ملا . کوئی بھی شخص کامل نہیں ہوتا . ہم سب زندگی میں مختلف امتحانات یا مراحل سے گزرتے ہیں اور تجربات کرتے ہیں. ہم سب سےغلطیاں سرزد ہوتی ہیں لیکن کامیاب وہی ہوتے ہیں جو ان غلطیوں سے سیکھتے ہیں اور ان کو دوبارہ نہیں دہراتے کیونکہ اگر ایک غلطی بار بار کی جائے تو اس میں قصور ہمارا اپنا ہو گا .

قدرت نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا، سمجھ بوجھ عطا کی، اچھے بُرے کی تمیز سکھائی. پھر بنی نوعِ انسان کو اس دنیا میں آزمائش کے لیے بھیجا جہاں وہ عطا کی گئی صلاحیتوں اور قابلیت کو استعمال میں لا کر اپنی زندگی کو اپنے ہاتھوں سے آسان یا مشکل بناتا ہے.

ہمیشہ یاد رکھیں کہ یہ تکلیفیں، پریشانیاں، دکھ، مصائب سب وقتی ہوتے ہیں ان کو خود پر مسلط نہیں کرنا چاہیے بلکہ بہادری اور عقلمندی سے ان کا سامنا کرنا چاہیے. ٹھنڈے دماغ سے ان مسائل سے نکلنے کا سوچنا چاہیے اور اپنے تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے مناسب حکمتِ عملی تیار کرنی چاہیے. اپنی تمام تر صلاحیتیں اور توانائیاں مسائل کا حل تلاش کرنے میں لگانی چاہیے نہ کہ خود کو موردِ الزام ٹھہرانے اور کوسنے پر . پھر جو غلطیاں ماضی میں کر بیٹھے ہیں ان پر ماتم کرنے کی بجائے ، کف ِ افسوس ملنے یا ہر وقت ان کے بارے میں سوچ سوچ کر پریشان ہونے کا کوئی فائدہ نہیں ہے . آج کا سوچیں کیونکہ جو ہو گیا سو ہو گیا، گزرا وقت واپس نہیں آئے گا اور ہم اس کو ٹھیک بھی نہیں کر سکتے، ہاں البتہ ان غلطیوں سے سیکھتے ہوئے اپنا حال بہتر اور خوشگوار بنا سکتے ہیں، اور مستقبل کی مناسب منصوبہ بندی کر سکتے ہیں. اگر ہم ماضی اور اس میں کی گئی غلطیوں کا ہی سوچتے رہیں گے، ان کا ہی بوجھ اٹھا اٹھا کر پھرتے رہیں گے تو ہم آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کے متحمل نہیں ہو سکیں گے. وقت سے پہلے تھک جائیں گے اور مقصد حاصل کیے بغیر اس دنیا سے بہت دور چلے جائیں گے .

موجودہ لمحے کو بھرپور طور پر جینے کے لیے ضروری ہے کہ اپنی سوچ کو بدلیں، اس کو ہر ممکن طور پر مثبت رکھیں اپنا مائنڈ سیٹ یا نقطئہ نظر درست رکھیں. ماضی کے چنگل سے نکل کر حال کو بہتر بنائیں. نئے مقاصد یا منزل کا تعین کریں، پھر ان کو حاصل کرنے کے لیے چھوٹے چھوٹے اہداف میں تبدیل کریں، ان کو حاصل کرنے کے لیے حکمتِ عملی ترتیب دیں. زندگی چیلنجز سے بھری ہوئی ہے. بس اپنے سوچنے اور دیکھنے کا زاویہ بدل لیں. سب سے بڑھ کر یہ کہ مناسب وقت یا کسی کی مدد کا انتظار نہ کریں بلکہ خود مواقع پیدا کریں. گزرتے وقت کے ساتھ اپنے تجربات سے سیکھتے جائیں اور آگے بڑھتے جائیں. وسائل پر کام کریں، خود پر کام کریں، اپنے ہنر و مہارت کو بڑھائیں اور فخریہ انداز میں آنے والے وقت کو گلے لگائیں.

وسائل اور مسائل کی جنگ ہمیشہ رہتی ہے. ہر دور میں مشکلات کے ساتھ ساتھ کچھ آسانیاں بھی میسر ہوتی ہیں. انسان کو وقت کے ساتھ بدلنا پڑتا ہے. ماضی کی غلطیاں سبق سکھاتی ہیں اور ہمیں آنے والے امتحانات کے لیے بہتر انداز میں تیار کرتی ہیں. مثبت سوچ رکھ کر ہم آگے بڑھ سکتے ہیں اور آنے والے کل میں بہتر زندگی گزار سکتے ہیں. خوش رہی، خوشیاں اور آسانیاں بانٹنے والے بنیں ـ

Comments

Avatar photo

عاصمہ حسن

عاصمہ حسن کا تعلق باغوں کے شہر لاہور سے ہے۔ شعبہ تدریس سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ لکھنے' پڑھنے کا بھی شوق رکھتی ہیں۔ معیار زندگی نامی کتاب کی مصنفہ ہیں۔ کئی قومی اخبارات میں کالم لکھتی ہیں. اپنی تحریروں سے ہر عمر کے لوگوں بالخصوص نوجوان نسل کو مثبت پیغام دیتی ہیں۔ آسان اور عام فہم لفظوں کا چناؤ ہی ان کا خاصا ہے۔ ان کا قلم ایک دہائی سے اپنے مقصد پر ڈٹا ہوا ہے۔ منزل کی کس کو فکر ہے، دلکش نظارے ہی دل لبھانے کو کافی ہیں۔

Click here to post a comment