ہوم << علامہ محمد اقبال کی دو قبریں؟ ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ

علامہ محمد اقبال کی دو قبریں؟ ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ

یہ بات تو بچہ بچہ جانتا ہے کہ مفکرِ پاکستان، شاعرِ مشرق، علامہ محمد اقبال (رح) سیالکوٹ میں پیدا ہوئے اور اُن کی آخری آرام گاہ لاہور میں ہے۔ اُن کا مزار بادشاہی مسجد اور قلعہ لاہور کے درمیان حضوری باغ میں واقع ہے لیکن کتنے لوگ جانتے ہیں کہ علامہ صاحب کی ایک قبر ترکی میں بھی واقع ہے؟

علامہ محمد اقبال کا جسد خاکی تو لاہور ہی میں دفن ہے، لیکن ترکی کے شہر قونیہ میں بھی اُن کی ایک علامتی قبر موجود ہے۔ مولانا رومی کے مزار کے نواح میں ایک علامتی قبر پر علامہ صاحب کے نام کی تختی لگی ہے. قونیہ مولانا رومی کی وجہ سے ترکیہ کا بہت اہم شہر سمجھا جاتا ہے اور اسی نسبت سے اسے ترکیہ میں ”اسلام کا قلعہ“ کہا جاتا ہے۔

مولانا رومی 13 ویں صدی کے ایک عظیم صوفی بزرگ اور شاعر تھے۔ آپ کا پورا نام جلال الدین محمد رومی تھا۔ آپ موجودہ افغانستان کے علاقے بلخ میں پیدا ہوئے لیکن منگولوں کے بڑھتے ہوئے حملوں کی وجہ سے اُن کے والد نے مغرب کی طرف ہجرت کی جہاں مولانا نے بالآخر قونیہ شہر کو اپنا ٹھکانا بنایا۔ آج اسی شہر میں مولانا رومی کا مزار مرکزِ نگاہ ہے۔ مولانا کا شعری مجموعہ "مثنوی" اِس وقت مقدس آسمانی کتابوں کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتابوں میں سے ایک ہے۔ دنیا بھر سے لوگ ان کے مزار پر حاضری دیتے ہیں ۔ مزار کے اردگرد اُن کے شاگردوں اور خلفاء کی قبریں ہیں۔ انہی قبروں میں سے ایک قبراقبال کے نام ہے۔ اس قبر کی تختی پر لکھا ہے کہ ”یہ مقام پاکستان کے قومی شاعر اور دانشور محمد اقبال کو دیا گیا ہے۔“

یہ علامتی قبر دراصل علامہ محمد اقبال اور مولانا جلال الدین رومی کے رُوحانی تعلق کو بیان کرتی ہے۔ رومی اقبال کے استاد تھے ۔ اور استاد شاگرد کا یہ تعلق کتنا گہرا تھا؟ اس کا اندازہ اقبال کی شاعری میں ہر قدم پر ہوتا ہے۔ "بالِ جبریل" کی نظم ہے، ”پیر و مُرید“ جس میں مولانا کو ”پپررومی“ کہا گیا ہے اور اقبال نے خود کو ”مریدِ ہندی“ قرار دیا ہے۔ شاید یہ علم ہی ہے جو زمان و مکان کی پابندیاں توڑ دیتا ہے، ورنہ کہاں تیرہویں صدی کے اوائل میں پیدا ہونے والے رومی اور کہاں انیسویں صدی کا اقبال ۔ دونوں کے درمیان 670 سال کا عرصہ حائل تھا لیکن علم و معرفت کی دنیا میں صدیوں کا یہ فاصلہ کوئی معنی نہیں رکھتا اور زمان ومکان کی ان حدود کو اتنا محدود کر دیتا ہے کہ آج ہمیں اقبال رومی کے مزار کے سائے تلے بھی نظر آتے ہیں۔ مصر کے مشہور عالم عبدالوہاب عزام کہا تھاکہ ” اگر جلال الدین رومی اِس زمانے میں جی اٹھیں تو وہ محمد اقبال ہی ہوں گے۔ ساتویں صدی کے جلال اور انیسویں صدی کے اقبال کو ایک ہی سمجھنا چاہیے۔“

بالِ جبریل کی ایک نظم میں علامہ اقبال مولانا رومی کے حوالے سے کہتے ہیں:

ہم خوگرِ محسوس ہیں ساحل کے خریدار
اک بحرِ پر آشوب و پر اسرار ہے رومی
تُو بھی ہے اسی قافلۂ شوق میں اقبال
جس قافلۂ شوق کا سالار ہے رومی
اس عصر کو بھی اس نے دیا ہے کوئی پیغام؟
کہتے ہیں چراغِ رہِ احرار ہے رومی

جاوید نامہ میں علامہ اقبال نے مولانا روم کے اوصاف و خصائل کی مدح سرائی کی اور پیر رومی کی رہبری میں عالم افلاک کی سیر کی، اسی روحانی سیر میں پیر رومی نے ان پر زندگی کے مختلف اسرار و رموز کی عقدہ کشائی کی ہے اور علامہ کے مختلف سوالات کے جواب دیئے ہیں۔ علامہ پر مولانا روم کے روحانی فیوض و برکات کا اثر سب سے زیادہ نمایاں اثر جاوید نامے میں ہی نظر آتا ہے۔

اقبال اور رومی کے کلام کی مماثلت ہو یا ان کے درمیان موجود پیری مریدی کا رشتہ ۔ لیکن جس طرح ان کے کلام کی ہم آہنگی اور ان کے رشتے نے زمان ومکان کی دوریاں ختم کی تھیں اسی طرح ان کی قبروں نے فاصلوں کی دوریاں بھی ختم کر دی ہیں ۔ دونوں آج شہر خموشاں میں ایک دوسرے کے ہمسائے ہیں ۔
ان کے جسموں کے درمیان ہزاروں میل کا فاصلہ ضرور ہے لیکن آج ان کی روحیں ایک دوسرے کے پہلو میں ہم نشین ہیں ۔ پاکستان سے بہت سے سیاح اور عقیدت مند ترکی کے شہر قونیہ جاتے ہیں اور مولانا رومی کے مزار کے بعد علامہ اقبال کی اس علامتی قبر پر بھی حاضری دیتے ہیں۔ اللّہ تعالی ان کے درجات مزید بلند فرمائے اور ہمیں ان کی تعلیمات سے استفادہ حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

(قونیہ والی قبال کی قبر پر پیدائش کا سال غلط درج ہے. آپ کی پیدائش نومبر 1877ہے، جبکہ قونیہ کی قبر کے اس کتبے پر 1873 درج ہے)