جس سال بڑے بھائی کی شادی ہوئی، اس سال میں آٹھویں جماعت میں تھا اور میری عمر پندرہ سولہ برس ہوگی۔ اس وقت تک میں بھی ایک کراچی برانڈ دبلا پتلا سانولا سلونا نوجوان بن چکا تھا اور بھائی کی شادی کے بعد اب نمبر بھی میرا ہی تھا۔ (حالانکہ ابھی خاصا دور تھا)
شادی پر گاؤں سے آنے والے رشتے داروں کے ساتھ ساتھ کراچی کے مہمانوں کا بھی گھر میں کئی دن تک خوب آنا جانا رہا۔ ان مہمانوں میں ایک گڑیا سی لڑکی بھی تھی، جو میری بڑی بہن کی سہیلی کی چھوٹی بہن تھی۔ وہ مجھ سے ایک دو سال چھوٹی ہوگی۔ شادی کے ہلے گلے میں ہم دونوں کی فوراً دوستی ہوگئی۔
ایک دن شام کو ہم دونوں دوکان سے کچھ سودا لے کر آ رہے تھے۔ گلی میں سناٹا تھا۔ اچانک اس نے رک کر مجھ سے پوچھا :
”کیا تم کسی لڑکی کو پسند کرتے ہو؟“
میں ٹھٹک کر کھڑا ہو گیا اور بغیر کچھ کہے اس کا چہرہ دیکھنے لگا۔
”بولو نا بھئی ... کیا تم کسی لڑکی کو پسند کرتے ہو؟“وہ پھر گویا ہوئی۔ اس کی روشن آنکھوں میں شریر ستارے چمک رہے تھے۔ میں گڑبڑا سا گیا۔
”نن نہیں ... نہیں تو“ میرے منہ سے بس یہی نکلا۔
اس نے ایک ہلکا سا قہقہہ لگایا اور پھر میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی :
”تو پھر میرے بارے میں کیا خیال ہے؟“
ملیر کی ایک سنسان گلی میں، شام کے دھندلکے میں، مجھ سولہ سالہ لڑکے کو اُس پندرہ سالہ لڑکی کی محبت کی پیشکش نے ایک عجیب سنسنی میں مبتلا کر دیا۔ پاکیزہ ڈائجسٹ، خواتین ڈائجسٹ، سسپنس ڈائجسٹ اور سب رنگ ڈائجسٹ کی کہانیوں میں عشق و محبت کی داستانیں پڑھنا ایک الگ بات تھی، لیکن ایسی صورت حال کا یوں حقیقت میں سامنے آجانا بڑا ہیجان خیز تھا۔
میں اس کی یہ انوکھی بات سن کر سٹپٹا گیا اور اسے کوئی جواب دیے بغیر تیزی سے گھر کی طرف چلنے لگا۔ اس نے بھی پھر کچھ نہ بولا اور خاموشی سے میرے پیچھے چلی آئی۔ یہ راز ہم نے سب سے، بلکہ ایک دوسرے سے بھی چھپا کر رکھا۔
اس رات تو مجھے نیند ہی نہیں آئی۔ اگلے دن سارے مہمان تو چلے گئے، لیکن میرے دل کے نہاں خانے میں ایک ایسا مہمان آ گیا جو جانے کا نام ہی نہیں لیتا تھا۔ چند ہی دن میں مجھے اندازہ ہو گیا کہ جواں عمری کی جو واردات ہم سمجھے بغیر دوسروں سے سنتے آئے ہیں، وہ آج مجھ پر بھی گزر گئی ہے۔
میں شاید کچھ عرصہ اور اسی ہیجان کے زیرِ اثر رہتا، لیکن چونکہ میں ایک سخت پڑھاکو اور کتابی کیڑا قسم کا لڑکا تھا، اس لئے جلد ہی اس واردات کے اثر سے باہر تو نکل آیا، البتہ دل کے جو تار چھیڑے جا چکے تھے، ان کے ارتعاش سے ابھرنے والی ہلکی ہلکی لہریں اب اکثر مجھے اپنے کانوں میں سنائی دینے لگیں۔
میری گلی میں میری ہم عمر کئی لڑکیاں تھیں۔ کالی پیلی بھی اور گوری چٹی بھی، قبول صورت بھی اور حسین و جمیل بھی۔ لیکن مجھے اس بات کا بھی اچھی طرح اندازہ تھا کہ جب تک ہم اپنی تعلیمی مصروفیات سے فارغ ہو کر برسرِ روزگار ہوں گے اور شادی کے قابل ہو پائیں گے، تب تک ہماری ان ہم سِن پڑوسی دوشیزاؤں کی نہ صرف شادی ہو چکی ہوگی، بلکہ ان کے بچے بھی ہمیں ماموں ماموں کہنے کے قابل ہو چکے ہوں۔
لیکن ان سب خدشات کے باوجود، کچھ لڑکیاں ایسی ضرور تھیں جنہیں دیکھ کر دل آہ بھر ہی لیتا تھا۔ خصوصاً ہماری پچھلی گلی کی ایک شربتی آنکھوں اور سرخ و سفید رنگت والی لڑکی تو ہوش و حواس ہی اڑا دیتی تھی۔ لیکن مجھے معلوم تھا کہ اس کی منگنی ہو چکی ہے اور وہ جلد یا بدیر اپنے پیا گھر سدھار جائے گی۔ چنانچہ میں نے اپنے دل کی تپش کو ابھرنے نہ دیا اور اپنی پڑھائی کو اپنے اوپر حاوی کرلیا۔ میرا یہ بھی یقین تھا کہ وہ میری اس یک طرفہ کشش سے واقف ہی نہ ہوگی، اس لئے صبر ہی بہتر تھا۔
بالآخر وہ دن بھی آ گئے کہ جب اس کی شادی ہونے لگی۔ شادی سے چند دن پہلے میں اپنے گھر آتے ہوئے گلی میں داخل ہوا تو اچانک دیکھا کہ وہی شربتی آنکھوں والی لڑکی ہمارے گھر سے باہر نکل رہی ہے۔ میں یہی سمجھا کہ وہ شادی سے پہلے میری بہنوں سے الوداعی ملاقات کیلئے آئی ہے۔ وہ میرے برابر سے میری طرف دیکھے بغیر تیزی سے گزر گئی۔ چند دن بعد اس کی شادی بھی ہو گئی اور ہم نے اس کے شامیانے میں کرسیاں بھی بچھائیں۔ اس کی شادی کے کچھ دن بعد میری بڑی بہن نے میرے پاس آ کرمجھ سے سرگوشی میں پوچھا کہ کیا مجھے معلوم ہے وہ لڑکی اُس دن ہمارے گھر کیوں آئی تھی؟
”مجھے کیا پتہ … آپ سے ملنے آئی ہوگی بیچاری شادی سے پہلے.“ میں سادگی سے بولا۔
”بڑے معصوم ہو … اُس کے آنسو نہیں تھمتے تھے تمہارے نام پر … اور تم ہو کہ تمہیں کچھ پتہ ہی نہیں.“
بہن نے مجھے گھور کر دیکھا اور مزید کچھ بولے بغیر اٹھ کر چلی گئی۔
جب میں کراچی کی معروف انجینئرنگ یونیورسٹی این ای ڈی میں آ گیا تو مجھے خوب ٹیوشن ملنے لگے، کیونکہ این ای ڈی کے طالب علموں کو بہت قابل سمجھا جاتا تھا۔ ان دنوں مجھے بھی ایک لڑکی کو ٹیوشن پڑھانے کا موقع ملا۔ وہ بیچاری ایک سیدھی سی گھریلو لڑکی تھی، میں خواہ مخواہ اس پر عاشق ہو گیا۔ اپنی شاگرد پر عاشق ہوجانا بڑی بیہودہ بات تھی، لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ میں ایک احمق سا نوجوان تھا۔ اس زمانے میں کسی ٹیوٹر کا اپنی اسٹوڈنٹ پر عاشق ہوجانا کوئی انوکھی بات بھی نہیں تھی، بلکہ ایسے عشق کے نتیجے میں ہم نے کئی کامیاب شادیاں بھی ہوتے دیکھیں۔ کراچی میں ٹیوٹر کے ساتھ شادی کے واقعات اتنے عام ہو گئے تھے کہ ان دنوں عمر شریف کے ایک مشہور اسٹیج ڈرامے میں ایک کردار دوسرے سے کہتا ہے :
”ایک لڑکی کو ٹیوشن پڑھانا ہے … پڑھاؤ گے؟“
”نہیں … میں تو پہلے ہی چار لڑکیوں کو ٹیوشن پڑھا رہا ہوں“
”چار لڑکیوں کو پڑھا رہے ہو تو کیا ہوا، پانچویں کو بھی پڑھاؤ“
”نہیں بھیا … اسلام میں صرف چار ٹیوشن کی اجازت ہے“
اس لڑکی کو میں نے جی جان سے پڑھایا اور وہ اچھے نمبروں سے پاس بھی ہوگئی۔ لیکن جتنا عرصہ میں نے اسے پڑھایا، اتنا عرصہ وہ امتحانات کے خیال سے اتنی سراسیمہ نہیں ہوئی ہوگی جتنا میں اس ٹیوشن کے چھوٹ جانے کے خیال سے دل گرفتہ رہا۔ اسے پڑھانے کے دنوں میں مجھے اپنی پڑھائی کے بعد جو وقت ملتا وہ اُسی کے خیالوں میں گزرتا۔ عجیب مصیبت ہو گئی تھی۔ حالت یہ تھی کہ مجھے کہیں کچھ بچے نظر آتے تو میں چونک کر ان کی طرف دیکھتا کہ یہ اُس کے بہن بھائی تو نہیں … کوئی عورت گزرتی نظر آتی تو یوں لگتا جیسے اُس کی والدہ جا رہی ہو … اور کوئی مرد راہگیر دکھائی دیتا تو میں سوچتا کہ ہو نہ ہو یہ اُس کا ابّا ہے۔
ایک دن تنگ آ کر میں نے ایک سادہ کاغذ لیا اور اس کے بالکل بیچ میں مہدی حسن کے ایک مقبول فلمی گانے کے بول لکھ دیے :
کبھی میں سوچتا ہوں ، کچھ نہ کچھ کہوں
پھر یہ سوچتا ہوں ، کیوں نا چپ رہوں
زندگی میں ایسے بھی لوگ ملتے ہیں
دیکھتے ہی آنکھوں کو اچھے لگتے ہیں
آرزو یہ ہوتی ہے ، اپنا کہہ سکوں
یہ کاغذ لپیٹ کر میں اپنے ساتھ لے گیا اور ٹیوشن پڑھانے کے دوران اس کے ہاتھ میں دے دیا۔ وہ بیچاری سمجھی کہ یہ پیپر میں آنے والے کچھ اہم سوال ہیں، چنانچہ اس نے اشتیاق سے جلدی جلدی کاغذ کی تہیں کھولیں اور جب اس پر سوالات کی بجائے ایک فلمی گانے کے بول لکھے دیکھے، تو اس کا منہ لٹک گیا۔
بولی : ”یہ کیا ہے سر؟“
میں بڑا سٹپٹایا۔ میں نے غور سے اس کی الجھی ہوئی آنکھوں کو دیکھا … اور پھر جھلا کر بس یہی بول سکا :
”یہ کچھ نہیں ہے … اسے پھینک دو اور میتھمیٹکس کا رجسٹر نکال لو.“
بس یہ معاملات اسی طرح گھسٹتے رہے۔ حتیٰ کہ وہ دن بھی آ گیا جس دن اُس کا آخری پرچہ تھا۔ اُس دن وہ ٹیوشن ختم ہو جانا تھا۔ میری بے قراری اس روز عروج پر تھی۔ مجھے معلوم تھا کہ اس کا ایگزامنیشن سینٹر کہاں ہے اور پرچہ کتنے بجے ختم ہوگا۔ وہ سینٹر اس کے گھر سے بہت دور تھا اور وہ بس میں بیٹھ کر پیپر دینے جاتی تھی۔ میں اس دن صبح سے اپنے گھر میں بے چین بیٹھا تھا۔ مجھے دنیا میں کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ جیسے جیسے پرچہ ختم ہونے کا وقت قریب آتا جا رہا تھا ویسے ویسے میری بے چینی بڑھتی جا رہی تھی۔ آج میں اسے آخری بار دیکھ سکتا تھا اور مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اسے آخری بار دیکھنے کے اس دورانیے کو میں کس طرح طویل کر سکتا ہوں؟
بالآخر میں اٹھا، اپنی سائیکل نکالی اور تیز تیز پیڈل مارتا ہوا دس پندرہ کلومیٹر دور اس کے ایگزامنیشن سینٹر پہنچ گیا۔ وہاں بس اسٹاپ سے کچھ فاصلے پر میں احتیاطاً ایک ایسی جگہ سائیکل تھام کر کھڑا ہو گیا جہاں اس کی مجھ پر نظر نہ پڑ سکے۔ پیپر کا وقت جیسے ہی ختم ہوا، لڑکیوں کا ایک غول شور مچاتا، روتا گاتا، باہر نکلا۔ ان میں سے دور جانے والی لڑکیاں بس سٹاپ پر آ کر کھڑی ہو گئیں۔ میں نے دیکھ لیا کہ وہ بھی ان میں شامل ہے، البتہ وہ مجھے دیکھ نہ پائی۔
تھوڑی دیر میں بس آ گئی۔ لڑکیاں بس میں سوار ہوئیں اور بس چل پڑی۔ اسی وقت میں نے بھی بس کے ساتھ ساتھ اپنی سائیکل دوڑانی شروع کر دی۔ بس بھی مر مر کے چل رہی تھی اس لئے مجھے اس کے ساتھ ساتھ چلنے میں کوئی دشواری نہ ہوئی۔ وہ اسی طرف کی کھڑکی والی سیٹ پر بیٹھی تھی جدھر میں پسینہ بہاتا بس کے ساتھ ساتھ سائیکل دوڑا رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد اچانک اس نے مجھے دیکھ لیا اور اپنی سیٹ پر تقریباً اچھل پڑی۔
پہلے تو اس کی آنکھیں مسکرائیں، اور پھر ان میں تشویش پھیل گئی۔ وہ سراسیمہ ہو گئی کہ یہ میں کیا کر رہا ہوں؟ … بہرحال بس اسٹاپ در اسٹاپ رکتی اور رینگتی رہی اور میں ساتھ ساتھ سائیکل دوڑاتا رہا۔ بالآخر اس کا اسٹاپ آ گیا۔ وہ بس سے اتری اور میری طرف دیکھے بغیر تیزی سے وہاں سےچلی گئی۔ میں نے کچھ دیر اِدھر اُدھر وقت ضائع کیا اور پھر جی کڑا کر کے اپنے چہرے پر ”پیپر کیسا ہوا؟“ ٹائپ کے تاثرات سجائے آخری بار اس کے گھر جا پہنچا۔ ڈرائنگ روم میں داخل ہوا تو وہ پرچہ ہاتھ میں لئے ناراض ناراض سی بیٹھی تھی۔
”پرچہ کیسا ہوا؟…“ میں نے یہ پوچھ تو لیا، لیکن مجھے خود اپنے ہی الفاظ نہیں سنائی دیے۔
”چھوڑیں پرچے کو سر …“ وہ ایک بے چین سرگوشی میں بولی۔ ”یہ آج آپ نے حرکت کیا کی ہے؟… میری بس کے ساتھ ساتھ سائیکل دوڑاتے آئے ہیں آپ … کیوں؟…“
وہ خاموش ہو کر میری طرف دیکھنے لگی۔ میں کچھ نہ بولا تو اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔ میں ہڑبڑا کر کھڑا ہو گیا۔
”اچھا میں چلتا ہوں … امید ہے آخری پرچہ اچھا ہوا ہو گا.“
لیکن وہ میری طرف دیکھے بغیر اسی طرح سر جھکائے آنسو ٹپکاتی رہی اور میں اٹھ کر اس کے گھر سے نکل آیا … دوبارہ کبھی یہاں نہ آنے کےلیے۔
کچھ دن تو میں ایک اداس اور خیالوں میں کھوئے نوجوان جیسا کردار ادا کرتا آوارہ گھومتا رہا، پھر حالات معمول پر آ گئے۔
اس کے بعد میں نے کئی اور ٹیوشن بھی پڑھائے، لیکن معاملات کنٹرول میں رہے۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ کراچی میں انفرادی ٹیوشن سے زیادہ کوچنگ سینٹرز نے زور پکڑ لیا۔ کچھ عرصے بعد میں نے بھی ایک کوچنگ سینٹر میں پڑھانا شروع کیا۔ وہاں میٹرک انٹر کے کئی لڑکے اور لڑکیاں میرے شاگرد بنے۔ ان میں ایک تیکھے نقوش والی سانولی سی لڑکی بھی شامل تھی، جس کے بھائی دودھ دہی کا کاروبار کرتے تھے۔ میں اکثر نوٹ کرتا تھا کہ وہ پڑھائی میں کچھ خاص دلچسپی نہیں لے رہی۔ وہ بس یونہی بیٹھی خلاؤں میں گھورتی رہتی یا اپنی نظریں تیر کی طرح سیدھی مجھ پر رکھتی، اور جیسے ہی نگاہیں ملتیں تو فوراً مسکرانے لگتی۔
خیر میں نے اس پر کوئی خاص غور نہیں کیا اور کوچنگ کلاسیں چلتی رہیں ۔ امتحانوں کے دن قریب آئے تو وہ کچھ پریشان پریشان نظر آنے لگی۔ میں نے ایک دن اس سے پوچھ ہی لیا کہ کیا بات ہے، کیا تمہاری تیاری ٹھیک نہیں؟… تو وہ بولی :
”جی سر آپ بالکل ٹھیک سمجھے، میری تیاری صحیح نہیں ہو سکی ہے۔ کیا آپ مجھے کچھ الگ سے ٹائم دے سکتے ہیں؟“
”مشکل ہے“ میں بولا۔ ”یہاں کوچنگ سینٹر میں تو سب کا مشترک ٹائم ہوتا ہے.“
”تو سر کیا آپ کچھ دن مجھے گھر آ کر نہیں پڑھا سکتے الگ سے؟“ وہ بولی۔ ”میں اپنی کچھ اور سہیلیوں کو بھی وہاں بلا لوں گی … ہم سب مل کر آپ کو ایکسٹرا فیس بھی دے دیں گے.“ وہ ملتجیانہ سی ہو کر بولی۔
”چلو ٹھیک ہے“ میں بولا۔”کہاں ہے گھر تمہارا؟“
اس نے مجھے اپنے گھر کا ایڈریس دے دیا۔
اگلے دن شام کو میں اس کے گھر پہنچا تو اس کے لمبی مونچھوں اور سرخ آنکھوں والے بھائی نے دروازہ کھولا اور مجھے غصے سے دیکھنے لگا۔ میں نے اپنا تعارف کروایا تو اس نے مجھے اپنے ڈرائنگ روم میں پہنچا دیا، جہاں وہ اپنی دو سہیلیوں کے ساتھ میرا انتظار کر رہی تھی۔
میں نے اس دن تینوں لڑکیوں کو کچھ مشکل سبجیکٹ سمجھائے اور کلاس ختم ہو گئی۔
اگلے دن جب میں اس کے گھر پہنچا تو دروازہ خوفناک بھائی کے بجائے خود اس لڑکی نے کھولا اور مجھے سیدھا اپنے ڈرائنگ روم میں لے گئی۔ لیکن آج وہ اکیلی ہی تھی۔ اس کی سہیلیاں غائب تھیں۔ میں نے ان کا پوچھا تو بولی کہ آج وہ نہیں آئیں گی، آپ اکیلے مجھے ہی پڑھا دیں۔ میں کچھ حیران ہوا۔
”اچھا تو ٹھیک ہے پھر فزکس کی بک اور رجسٹر نکالو“ میں بولا۔
لیکن وہ ویسے ہی لاپرواہی سے اپنی جگہ بیٹھی مسکراتی ہوئی مجھے دیکھتی رہی۔
”کتاب نکالو“ میں حیران ہو کر بولا۔
”چھوڑیں سر کتاب کو“ وہ مجھے غور سے دیکھتی ہوئی عجب پراسرار لہجے میں بولی۔
”کیا مطلب ؟“ میں چونکا۔
”رہنے دیں سر پڑھائی وڑھائی کو“ وہ اِٹھلا کر بولی۔ ”مجھے کوئی نہیں پڑھنا وڑھنا“
”پھر؟… پھر کیا کرنا چاہتی ہو تم“ میں حیرت زدہ تھا۔
”میں تو سر بس آپ کو اپنے قریب رکھنا چاہتی ہوں“ وہ پھر کھلکھلائی۔
اب تو میں سناٹے میں ہی آ گیا۔
”کیوں“
”بس سر … آپ میرے قریب رہیں … مجھ سے کبھی دور نہ ہوں … آپ کسی اور کے نہیں، آپ صرف میرے ہیں، صرف میرے … میں نے تو یہ بس آپ کو یہاں اپنے قریب بلانے کا بہانہ بنایا ہے۔“
یہ کہہ کر وہ کچھ روہانسی ہوئی اور پھر سر جھکا کر بیٹھ گئی۔
”وعدہ کریں سر … آپ مجھ سے کبھی دور نہیں جائیں گے.“
یہ کہہ کر وہ کچھ آگے بڑھی۔ مجھے یوں لگا کہ وہ میرے مزید قریب آنا چاہتی ہے۔ میرے تو چودہ طبق روشن ہو گئے۔ فوری طور پر تو میرے ذہن میں اس کے خوفناک مونچھوں والے بھائی کا چہرہ آیا، پھر کچھ اور باتیں بھی ذہن میں آئیں، اور میں اچھل کر کھڑا ہو گیا۔
”کیا ہوا سر؟“ اس نے اپنا بھیگا چہرہ اوپراٹھایا اور معصومیت سے مجھے دیکھنے لگی۔ مجھے اس پر ترس تو بہت آیا، لیکن یہ صورتحال بہت خطرناک تھی۔
”اچھا میں کل آؤں گا“ یہ کہہ کر میں فوراً دروازے کی طرف بڑھا اور اس کے گھر سے نکل آیا۔
اس دن کے بعد میں دوبارہ کبھی اس کے گھر نہیں گیا۔ وہ بھی کچھ کہے بغیر کچھ دن تک خاموشی سے کوچنگ سینٹر آتی رہی، پھر ہمیشہ کےلیے غائب ہو گئی۔
یونیورسٹی سے فارغ ہوتے ہوتے میری شادی کے معاملے نے زور پکڑا۔ گھر والے میری شادی کسی سندھی گھرانے میں کروانا چاہتے تھے، جبکہ میں اردو بولنے والوں میں شادی کرنے پر بضد تھا، کیونکہ اس وقت تک میری اردو زبان و ادب سے وابستگی اتنی گہری ہو چکی تھی کہ میں اب خواب بھی اردو میں دیکھنے لگا تھا۔ اس لئے اس بات کا شدید خدشہ تھا کہ میں اردو کے علاہ کسی اور زبان میں اظہارِ محبت تو بالکل بھی نہیں کر پاؤں گا۔ چنانچہ گھر والوں نے میری خواہش کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور میرے لئے ایک اردو بولنے والی دلہن کی تلاش شروع کر دی گئی۔
یہ ذمہ داری میری بڑی بہن کو سونپی گئی تھی۔ انہیں جو گھر سب سے زیادہ پسند آیا، وہ ایک یوپی کا مہاجر گھرانہ تھا۔ اس رشتے کے سلسلے میں تشویشناک بات یہ تھی کہ ہم سندھی تھے اور ان دنوں کراچی میں سندھی مہاجر لسانی فساد عروج پر تھا۔ ان حالات میں کسی سندھی کا رشتہ ایک مہاجر گھر میں ہونا ایک انوکھی بات ہی تھی۔ بہر حال امی اور بہنیں ڈرتے ڈرتے میرا رشتہ لے کر وہاں چلی گئیں۔ حیرت انگیز طور پر رشتہ منظور ہو گیا۔
ستمبر 1990ء میں میرا نکاح تو ہو گیا، البتہ رخصتی کچھ عرصے بعد طے پائی۔ اتنی مہربانی البتہ ضرور ہوئی کہ رخصتی تک کے صبر آزما دور میں مجھے اپنی منکوحہ کے ساتھ خط و کتابت کی اجازت دے دی گئی۔ چنانچہ اب ہم تھے اور ہمارا قلم تھا۔
ادبی ذوق و مطالعہ چونکہ وافر تھا، اس لئے ہم نے اپنی تحریری صلاحیت کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے اگلے آٹھ ماہ میں بیگم صاحبہ کو کئی کئی صفحات پر مشتمل بے شمار خط لکھ ڈالے۔ ہر خط لکھنے کے بعد میں شرمندہ بھی ہوتا کہ یہ کیا بچکانہ باتیں کر رہا ہوں۔ میری ہونے والی بیوی میری ان جذباتی تحریروں کو پڑھ کر جانے کیا سوچتی ہوگی۔ یقیناً وہ ان خطوط کو پڑھ کر پھاڑ دیتی ہوگی۔
بالآخر 26 اپریل 1991ء کے دن ہماری شادی ہو گئی۔ بیگم صاحبہ اپنے ساتھ جو ذاتی سامان لے کر آئیں، اس میں ایک کاغذات کی فائل بھی تھی۔ میں سمجھا کہ ان کی تعلیمی اسناد ہوں گی، لیکن ایک دن وہ فائل کھول کر دیکھا تو پتہ چلا کہ اس میں میرے وہ سارے خطوط انتہائی سلیقے اور تاریخی ترتیب کے ساتھ محفوظ کئے گئے ہیں۔ اپنا لایا ہوا یہ ”جہیز“ بیگم کو اپنے سامان میں سب سے زیادہ عزیز تھا۔
لیکن پھر ہوا یہ کہ اگلے چند سال الماری کے نچلے خانے میں احتیاط کے ساتھ رکھے گئے ان خطوط کو خدا جانے کب ظالم دیمک نے اپنا نشانہ بنایا۔ جب تک ہمیں اس اندوہناک بات کا پتہ چلتا، اس وقت تک وہ خطوط تاریخِ گم گشتہ کا حصہ بن چکے تھے۔
اب آپ لوگ شاید یہ پوچھنا چاہیں گے کہ اس معصوم گڑیا کا کیا ہوا جس نے سالہاسال قبل پہلی پہلی بار میرے دل کے تار چھیڑے تھے؟... تو بھائی وہ شادی سے پہلے گزری ایک درد انگیز داستان ہے، کوئی نہ پوچھے تو اچھا ہے۔
پہلی بار اس کے اظہارِ محبت کے بعد میں کئی بار بہانے بہانے اس کے گھر جاتا تو رہا، لیکن رفتہ رفتہ میری توجہ اس طرف کم ہوتی گئی اور میں اپنی تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ اسلامی جمعیت طلبہ کے کاموں میں بھی مصروف ہوتا چلا گیا۔ اس پر وہ بڑی سٹپٹائی۔ جب میں ایک طویل عرصہ اس کے گھر نہیں گیا، تو ایک دن وہ اپنی والدہ کے ساتھ ہمارے گھر آ گئی۔
میں باہر کہیں سے واپس آیا تو اسے اچانک گھر میں دیکھ کر اچھل پڑا۔ میں نے اس کی والدہ کو سلام کیا اور کچھ دیر وہیں بیٹھا رہا، لیکن اس سے آنکھ نہ ملائی۔ تھوڑی دیر بعد میں وہاں سے اٹھا اور اپنے کمرے میں ریڈنگ ٹیبل پرآ کر پڑھنے میں مصروف ہو گیا۔
کچھ ہی دیر میں مجھے اپنے پیچھے آہٹ محسوس ہوئی۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ کمرے میں داخل ہو رہی تھی۔ وہ آہستگی سے چلتی ہوئی میرے قریب آ کر کھڑی ہو گئی۔ میں گھبرا یا کہ خدا جانے کیا کہے گی۔
”آپ مجھ سے ناراض ہیں؟“ وہ آہستگی سے بولی۔
”نہیں تو … میں بھلا تم سے کیوں ناراض ہوں گا“ میں جلدی سے بولا۔
”تو پھر آپ نے ہمارے گھر آنا کیوں چھوڑ دیا؟“ وہ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی۔
”ویسے ہی … بس پڑھائی کی مصروفیت ہے، اور تو کوئی مسئلہ نہیں“ میں نے مسکرا کر کہا۔
”نہیں نہیں … مجھ سے ضرور کوئی غلطی ہوئی ہے، آپ بتا نہیں رہے“ وہ کچھ روہانسی ہو کر بولی۔ پھر اچانک ہی اس کی بڑی بڑی آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے۔ میں تو بڑا گھبرایا۔ سمجھ نہیں آتا تھا کہ کیا کہوں۔ وہ سر جھکائے ہلکی ہلکی سسکیاں لے کر رو رہی تھی۔
تھوڑی دیر بعد میں وہاں سے اٹھا اور اپنے کمرے میں ریڈنگ ٹیبل پرآ کر پڑھنے میں مصروف ہو گیا۔ کچھ ہی دیر میں مجھے اپنے پیچھے آہٹ سنائی دی۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ کمرے میں داخل ہو رہی تھی۔ وہ آہستگی سے چلتی ہوئی میرے قریب آ کر کھڑی ہو گئی ۔ میں گھبرایا کہ خدا جانے کیا کہے گی۔
”آپ مجھ سے ناراض ہیں؟“وہ آہستگی سے بولی۔
”نہیں تو … میں بھلا تم سے کیوں ناراض ہوں گا“ میں جلدی سے بولا۔
”تو پھر آپ نے ہمارے گھر آنا کیوں چھوڑ دیا؟“ وہ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی۔
”ویسے ہی … بس پڑھائی کی مصروفیت ہے، اور تو کوئی مسئلہ نہیں“ میں نے مسکرا کر کہا۔
”نہیں نہیں … مجھ سے ضرور کوئی غلطی ہوئی ہے، آپ بتا نہیں رہے“ وہ کچھ روہانسی ہو کر بولی۔ پھر اچانک ہی اس کی بڑی بڑی آنکھوں سے آنسو ٹپکنا شروع ہو گئے۔ میں گھبرا گیا۔ سمجھ نہیں آتا تھا کہ اسے کیا کہوں۔ وہ سر جھکائے ہلکی ہلکی سسکیاں لے کر رو رہی تھی۔
اچانک اسی وقت مغرب کی اذان بلند ہوئی۔ میں نے موقع غنیمت جانا اور فوراً اٹھ کھڑا ہوا۔
”اچھا بس چپ ہو جاؤ … باہر جا کر بیٹھو، چائے پیؤ … میں نماز پڑھ کے واپس آتا ہوں۔ پھر بات کرتے ہیں“
میں یہ بول کر اٹھا اور جلدی سے باہر نکل آیا۔
نماز پڑھ کر مسجد سے باہر تو آ گیا، مگر گھر نہیں گیا ۔ بس یہی سوچ سوچ کر گھبراہٹ ہو رہی تھی کہ خدا جانے وہ کیا کرے گی … کہیں دھاڑیں مار مار کر رونا شروع ہو گئی تو گھر والے کیا کہیں گے؟ … چنانچہ میں ویسے ہی آوارہ گلیوں میں گھومتا رہا۔
عشاء کی نماز پڑھنے کے کافی دیر بعد گھر واپس آیا تو وہ لوگ جا چکے تھے۔ میں نے ٹھنڈا سانس لیا اور اپنی پڑھائی میں مصروف ہو گیا۔
پھر اس کے بعد وہ کبھی ہمارے گھر نہیں آئی۔ اس بات کو کئی سال گزر گئے ۔
ایک دن اس کے گھر سے ایک دعوت نامہ آیا ۔ اگلے ہفتے اس کی بڑی بہن کی شادی کی تقریبات شروع ہو رہی تھیں۔ اماں نے مجھ سے کہا کہ ہم ضرور جائیں گے۔
مہندی والے دن ہم ان کے گھر پہنچے اور باہر شامیانے میں بیٹھ کر دولہا والوں کی آمد کا انتظار کرنے لگے۔ جب ان کے آنے کا شور ہوا تو گھر میں سے پیلے لباس پہنے کچھ لڑکیاں ہاتھوں میں گلاب کی پتیوں سے بھرے تھال لے کر باہر آئیں اور راستے میں قطار بنا کر کھڑی ہو گئیں، تاکہ دولہا والوں پر نچھاور کریں۔ ان لڑکیوں میں وہ بھی شامل تھی۔
جس وقت دولہا والے قریب پہنچے، اسی وقت اچانک اس کی نظر سامنے کرسیوں پر بیٹھے لوگوں میں مجھ پر پڑی۔ وہ یک دم سناٹے میں آئی، پھر اس کا چہرہ روہانسا ہوا اور پھر وہ یکایک زور زور سے رونا شروع ہو گئی۔ پھولوں سے بھرا تھال اس کے ہاتھ سے زمین پر گر پڑا، تھال گرنے کی زوردار آواز آئی اور فرش پر ہر طرف پھول ہی پھول بکھر گئے۔ پھر وہ زور زور سے روتی ہوئی اندر گھر کی طرف دوڑی۔ یہ سب کچھ لمحوں میں ہو گیا۔ کچھ دیر تو سب سناٹے میں رہے۔ اسی وقت دولہا والے بھی آ پہنچے اور سب کی توجہ ادھر ہو گئی۔
لیکن گھر کی کچھ خواتین ناراض ہو کر بڑبڑانے لگیں :
”اب اس کو اچانک کیا ہو گیا؟ … اتنے دن سے بہن کی شادی کی تیاریاں چل رہی ہیں۔ اب تک تو بڑی خوش تھی۔ پیاری بہن کی جدائی کا غم بس اسے آج ہی یاد آنا تھا؟“
میں پہلے تو ہکا بکا یہ تماشا دیکھتا رہا۔ پھر اپنی جگہ سے اٹھ کر کہیں اور بیٹھ گیا۔ گھر کے اندر جانے کی تو ہمت بھی نہیں ہوئی۔ جب تقریب ختم ہوئی تو اماں اور بہنیں باہر آ گئیں اور میں ان کو لے کر خاموشی سے گھر واپس چلا آیا۔
اتفاق سے اگلے ہی دن وہ مجھے پھر صدر میں نظر آئی۔ وہ اپنی دو سہیلیوں کے ساتھ فٹ پاتھ پر جا رہی تھی۔ سہیلیاں تو خوب چہک رہی تھیں، مگر وہ چپ چاپ اور بے حد اداس چہرہ لئے خاموشی سے ان کے ساتھ چل رہی تھی۔ میں کچھ دور ہی تھا اس لئے مجھ پر اس کی نظر نہ پڑی۔ یہ میں نے اسے زندگی میں آخری بار دیکھا۔ پھر وہ مجھے کبھی نظر نہیں آئی۔ اگلے چند سالوں میں تو میں اسے بھول ہی گیا۔ اس کے خاندان سے ہم لوگوں کا رابطہ بھی رفتہ رفتہ کم ہو گیا۔
میری شادی قریب تھی کہ ایک دن کہیں سے اڑتی اڑتی خبر ملی کہ اُس بیچاری کا اچانک انتقال ہو گیا ... کیوں ؟... کیسے؟... یہ فوری طور پر تو معلوم نہ ہو سکا۔ کچھ روز بعد بس یہ پتہ چلا کہ ایک دن وہ صبح اٹھ کر واش بیسن کے سامنے کھڑے کھڑے اچانک چکرا کر گری اور بیہوش ہو گئی۔ اسے اٹھا کر ہسپتال لے جایا گیا، لیکن اس کی روح اس وقت تک اس کا ساتھ چھوڑ چکی تھی۔
یہ کیوں ہوا؟ ... اسے کیا صدمہ تھا؟ ... کچھ پتہ نہ چل سکا۔ لیکن میں کبھی کبھی اس کے بارے میں سوچتا ہوں تو دل کو ایک ناقابلِ بیان دکھ اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔
تبصرہ لکھیے