ہوم << سرمائے کی منصفانہ تقسیم - کامران امین

سرمائے کی منصفانہ تقسیم - کامران امین

کامران امین اس وقت دنیا کے معاشی نظام پر سرمایہ داری کی حکومت ہے۔ اگر چہ سرمایہ داری کے بہت سارے فائدے ہیں اور بظاہراس کے زیراثر عالمی معیشت نے گراں قدر ترقی کی ہے لیکن کیا یہ ترقی واقعی ترقی ہے؟ اس سوال کو آج کے لیے ایک طرف رکھ کر سرمایہ دارانہ نظام کے کچھ نقصانات پر توجہ کرتے ہیں:
سرمایہ دارانہ نظام میں خدمات اور اشیاء کے بدلے فرد کو اس کی مرضی کے مطابق رقم کی شکل میں منافع دیا جاتا ہے۔ جس شخص کے پاس زیادہ سرمایہ ہوگا وہ زیادہ اشیاء خرید کر مارکیٹ میں لا سکے گا اور من مرضی کا منافع وصول کر سکےگا۔ یہ سرمایہ دار کی مرضی ہے کہ وہ چاہے تو منافع کو دوبارہ مارکیٹ میں لے کر آئے یا پھر اسے اپنے پاس محفوظ کر لے۔ جس کے پاس مارکیٹ میں لگانے کے لیے سرمایہ نہیں وہ اپنی خدمات سرمایہ دار کو فروخت کر کے اس سے منافع لے سکتا ہے لیکن اس صورت میں بھی خدمات کی قیمت اکثر سرمایہ دار ہی طے کرتا ہے۔ حکومت اپنی ضروریات پوری کرنے اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے سرمایہ دار پر ٹیکس لگاتی ہے۔ اس سے حاصل ہونے والی آمدنی غریبوں پر خرچ ہوتی ہے لیکن حکومت میں آنے کے لیے بھی سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے جو اکثر سرمایہ دار ہی فراہم کرتے ہیں اس لیے یہ ٹیکس کی شرح بھی سرمایہ دار کی مرضی کی ہی ہوتی ہے اور حکومت محض سرمایہ دار کی غلام بن کر رہ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ چونکہ سرمایہ دار کو اپنی مرضی کا منافع وصول کرنے کی آزادی ہوتی ہے اس لیے سرمایہ دار امیر سے امیر تر اور غریب، اور بھی زیادہ غریب ہوتا جاتا ہے۔ سرمایہ دار اپنے سرمائے کی بنیاد پر معاشرے میں باقی تمام طبقات کا استحصال کرنے کے لیے مکمل طور پر آزاد ہوتا ہے۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ سرمایہ صرف چند ہاتھوں میں کھیل رہا ہوتا ہے جنہیں ہم سرمایہ دار کہتے ہیں اور باقی سب لوگ سرمایہ دار کے غلام.
صنعتی انقلاب کے بعد یورپ میں سرمایہ دارانہ نظام نے جڑیں پکڑیں جس کے ردعمل میں کچھ اور نظریے بھی سامنے آئے۔ ان میں سے مشہور ترین کارل مارکس کا پیش کردہ کمیونزم ہے۔ مارکس کے پیش کردہ نظریے کے مطابق تاریخ کی ابتدا میں انسانی معاشرہ سوشلسٹ تھا، پھر انسانی ہوس نے دوسروں کے مال ہتھیانے شروع کیے تو سرمایہ دارانہ نظام نے اپنی جگہ بنا لی۔ لیکن اگر انسانی معاشرے کو تباہی سے بچنا ہے تو اسے دوبارہ سوشلزم کی طرف لوٹنا پڑے گا۔ نہیں بلکہ سوشلزم کی ایک ترقی یافتہ شکل کمیونزم کی طرف۔ (چونکہ کمیونزم سے زیادہ سوشلزم نے دنیا میں جگہ بنائی اس لیے اگے والی ساری گفتگو کی بنیاد سوشلزم پر ہی ہوگی اگر چہ دونوں میں کافی سارا فرق بھی ہے )
اس نظریے کے مطابق اگردنیا سے نا انصافی ختم کرنی ہے تو سرمائے کے ارتکاز کے بجائے منصفانہ تقسیم ضروری ہے اور سرمایہ کسی بھی صورت میں فرد کی ملکیت میں نہیں ہونا چاہیے۔ چنانچہ سوشلزم میں تمام پیداواری ذرائع حکومت کی ملکیت ہوتے ہیں۔ ہر فرد اور ادارہ اپنی صلاحیتوں کے مطابق کام کرتا ہے، طے شدہ معاوضہ اور مراعات وصول کرتا ہے۔ لیکن معاوضہ اور منافع کی شرح سوشلسٹ حکومت طے کرتی ہے نہ کہ سرمایہ دار۔ سرمایہ داری کے برعکس، سوشلزم فرد سے سارے اختیارات لے کر حکومت کے نام پر ایک اور فرد کو منتقل کر دیتا ہے اور پھر وہ خدا بن جاتا ہے۔ چونکہ پیداواری ذرائع فرد کی اپنی ملکیت نہیں ہوتے اس لیے فرد سرمایہ لگانے میں بھی ہچکچاتا ہے اور زیادہ منافع حاصل کرنے کی صورت میں حکومت کے پاس جمع کروانا پڑتا ہے اس لیے وہ مناسب دل لگا کر محنت بھی نہیں کرتا بلکہ ایک جبر کی فضا میں کام کرتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں جتنے اختیارات سرمایہ دار کے پاس ہوتے ہیں اس سے کئی گناہ زیادہ اختیارات سوشلسٹ حکومت کے پاس ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ تو حکومت کے ٹیکس ظالمانہ حد تک پہنچ جاتے ہیں اور پھیر یہ ٹیکس وصول کرنے کے لیے حکومت ظالمانہ ہتھکنڈے اختیار کرتی ہے۔ شخصی آزادی کا دم گھٹ جاتا ہے اسی لیے سوشلسٹ ممالک میں عوام موقع ملتے ہی فوراً سرمایہ دارانہ ممالک میں ہجرت کو اپنے لیے نجات سمجھتے ہیں۔
سوشلزم کی طرح اسلام بھی کسی صورت سرمائے کا ارتکاز نہیں چاہتا۔ قران کی تعلیمات کے مطابق سرمایہ ہر صورت میں مارکیٹ میں گردش کرتے رہنا چاہیے لیکن اسلام ہرگز کسی فرد یا حکومت کو لامحدود آزادی نہیں دیتا کہ وہ اپنی مرضی سے ظالمانہ قسم کے ٹیکس لگائیں اور پھر ظالمانہ ہتھکنڈوں سے اسے وصول کریں۔ اسی طرح اسلام فرد کو اپنی صلاحیت کے مطابق معاوضہ حاصل کرنے اور اس کی ملکیت کا پورا پورا حق دیتا ہے جس سے انسانی جبلت کی تسکین ہوتی ہے۔ لیجیے جناب سرمایہ اگر سرمایہ دار کی ملکیت ٹھہرا تو بات وہیں پر آ پہنچی. اسلام بھی تو سرمایہ داری کا ہی ایک ورژن نکلا ؟ سرمائے کا ارتکاز پھر کیسے ہو؟
سرمائے کے ارتکاز کے لیے اسلام سوشلزم کے بر عکس انتہائی خوبصورت نظام پیش کرتا ہے جس سے فرد کی آزادی بھی متاثر نہیں ہوتی، اس کی جبلت کی بھی تسکین ہو جاتی ہے اور سرمائے کا ارتکاز بھی جاری رہتا ہے۔ سب سے پہلے تو سرمائے کی ایک مخصوص حد چھونے پر سرمایہ دار کو ایک مخصوص ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے جسے زکوۃ کہتے ہیں۔ یہ لازمی جز ہے جو حکومت وقت زبردستی بھی وصول کر سکتی ہے، اگر کوئی فرد نہ دے تو لیکن اس کی ایک مقدار اللہ کی طرف سے مقرر ہے جس میں کمی بیشی کا کسی فرد کو کوئی اختیار نہیں۔ اس کے علاوہ قرآن انسان کو ترغیب دیتا ہے کہ اللہ کی رضا، خوشنودی اور قرب کے حصول کے لیے امرا کو چاہیے کہ وہ صدقات کریں اور فقرا اور غربا میں بخششیں بانٹیں۔ درا صل یہ لوگوں کو بھیک پر پلنا نہیں سکھاتا بلکہ ایک طرف تو اس سے سرمایہ دار سے سرمایہ نکلوانا مقصود ہوتا ہے اور دوسری طرف ان صدقات کی صورت میں وصول ہونے والے سرمائے سے غریب بھی کوئی کام کاروبار شروع کر سکتے ہیں۔ ان نفلی صدقات کے علاوہ گناہ کے سرزد ہونے کی صورت میں کفارے کی مختلف صورتوں میں سے ایک صورت یہ بھی ہے کہ کچھ رقم یا کھانا غربا میں بانٹا جائے۔ جیسے غلامی کے دور میں مسلمان فقہا نے کفارے کے لیے غلام کو آزاد کرنے کے عمل کی حوصلہ افزائی کی، اسی طرح غربت اور تنگ دستی کے دور میں مسلمان علما کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سرمایہ داروں کے لیے کفارے کی اس صورت پر زیادہ زور دیں تاکہ غریبوں کا بھلا ہو۔ لیکن سرمائے کے ارتکاز کی یہ ساری صورتیں ترغیبی ہیں نہ کہ جبراً۔ چونکہ ایک مسلمان کی زندگی کا مقصد اللہ کی رضا اور خوشنودی کا حصول ہے اسی لیے یہ کہا گیا کہ تم نیکی کے اعلی درجے پر اس وقت تک نہیں پہنچ سکتے جب تک اپنی محبوب چیزوں سے اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو ۔ لہذا ایک سوشلسٹ معاشرے کے برعکس جہاں ٹیکس جبراً وصول کیا جاتا ہے، ایک اچھے اسلامی معاشرے میں لوگ اپنی مرضی سے اپنی زائد دولت دوسروں پر خرچ کر رہے ہوتے ہیں. مقصد دونوں کا ایک ہی ہے سرمائے کے ارتکاز کے بجائے سرمائے کی منصفانہ تقسیم

Comments

Click here to post a comment