ہوم << محبت کا آخری ورق - حافظ احمد اقبال

محبت کا آخری ورق - حافظ احمد اقبال

"کچھ کہانیاں ختم ہو کر بھی کبھی ختم نہیں ہوتیں… کچھ محبتیں بچھڑنے کے بعد بھی زندہ رہتی ہیں… اور کچھ قلم ہمیشہ کسی ایک ہی نام پر ٹھہر جاتے ہیں۔"

زریاب کا قلم بھی ایسا ہی تھا—ہمیشہ حیا کے گرد گھومتا، ہمیشہ اس کے ذکر میں الجھا ہوا۔

زندگی کی کچھ کہانیاں مکمل ہونے کے باوجود ہمیشہ ادھوری محسوس ہوتی ہیں۔ کچھ رشتے وقت کے ساتھ مٹ نہیں سکتے، چاہے فاصلے جتنے بھی بڑھ جائیں۔ زریاب اور حیا کی کہانی بھی ایسی ہی تھی—محبت، رفاقت، جدائی کے کرب اور نہ ختم ہونے والی امید کی کہانی۔

یونیورسٹی کے ابتدائی دن کسی خواب کی مانند تھے۔ ہر چیز نئی، ہر لمحہ تازہ، ہر احساس خوشبوؤں میں بسا ہوا۔ انہی دنوں میں زریاب اور حیا کی دوستی ہوئی۔ مگر یہ کوئی معمولی دوستی نہ تھی، بلکہ وہ ایک دوسرے کی زندگی کا ایسا حصہ بن گئے جیسے بدن کے لیے سانس ضروری ہو۔

دن بھر ساتھ رہنا، کلاسز میں ایک ساتھ بیٹھنا، کھانے کے وقفے میں چپکے سے باہر جا کر باتیں کرنا، لائبریری میں بیٹھ کر نصاب کے بجائے زندگی کے فلسفے پر گفتگو کرنا—یہ سب ان کے درمیان عام تھا۔

راتیں تو جیسے صرف ان کی اپنی ہوتی تھیں۔ خاموشی میں ڈھلتی راتوں میں، موبائل کی روشنی میں بھیجے گئے طویل پیغامات، محبت بھری باتیں، ایک دوسرے کی شخصیت میں چھپے رازوں کو سمجھنے کی جستجو۔ زریاب اکثر حیا سے کہتا:
"تم جانتی ہو نا؟ میرا دل، میری تحریر، سب تم سے شروع ہو کر تم پر ختم ہوتے ہیں!"

حیا ہنس کر جواب دیتی:
"زریاب، کبھی تو کچھ اور بھی لکھ لیا کرو! ہر بار میری تعریفیں کرتے رہو گے تو شاعری بےجان ہو جائے گی!"

مگر زریاب کے لیے شاعری کی جان ہی حیا تھی۔ وہی اس کا قلم، وہی اس کی سوچ، وہی اس کی کہانی۔
کبھی حیا زریاب کے لیے اپنے ہاتھوں سے بنے ہوئے میٹھے چاول بھیجتی، اور زریاب اس پر مکمل ایک نظم لکھ دیتا۔

مگر وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا…

سمسٹر یونہی بہتے رہے، اور پھر وہ دن آیا جب ان کی دوستی میں دراڑ پڑ گئی۔ ایسا کیا ہوا تھا، یہ زریاب آج تک نہیں جان سکا… یا شاید جاننے کے باوجود خود کو جھوٹی تسلیاں دیتا رہا۔

حیا نے پہلے آہستہ آہستہ فاصلہ بڑھایا۔ پہلے جواب دینے میں دیر کرنے لگی، پھر آنکھیں چرانے لگی، اور پھر وہ دن بھی آیا جب اس نے واضح کہہ دیا:
"زریاب، ہم پہلے جیسے نہیں رہ سکتے، میں ویسی نہیں رہی اب!"

یہ ایک جملہ نہیں تھا، یہ زریاب کے وجود پر چلنے والی ایک ایسی تلوار تھی جس نے اسے اندر سے چیر کر رکھ دیا۔ وہ لڑکا، جو اپنی کہانیوں میں خوشیوں کے رنگ بھرتا تھا، خود ایک اداس کہانی بن گیا۔

زریاب نے اپنی اداسی کو اپنی طاقت بنا لیا۔ وہ کہانیاں لکھنے لگا—درد سے لبریز کہانیاں۔ ایک دن، اس نے ایک بین الاقوامی افسانہ نگاری کے مقابلے میں حصہ لیا، اور حیران کن طور پر، وہ جیت گیا۔

اس کی تحریر میں وہ درد، وہ سچائی تھی، جو ہر قاری کے دل میں اتر گئی تھی۔ جب اسے ایوارڈ کے لیے اسٹیج پر بلایا گیا، تو کسی نے اس سے پوچھا:
"زریاب، آپ اتنے اچھے افسانہ نگار کیسے بنے؟"

زریاب کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی، آنکھیں نم ہو گئیں، اور اس نے بڑے اعتماد سے جواب دیا:
"میری محرمِ یاراں کی بدولت… وہی میری کہانی ہے، وہی میرا قلم ہے، اور ان شاء اللہ، اگلے سال وہ میرے ساتھ یہاں ہوگی!"

مگر کیا ایسا ہوا؟

زریاب نے اپنی پہلی کتاب لکھنے کا فیصلہ کیا۔ وہ چاہتا تھا کہ اس کا دیباچہ حیا لکھے، کیونکہ وہی تو اس کے قلم کی پہلی روشنائی تھی۔

"حیا، تمہیں دیباچہ لکھنا ہوگا، تم ہی میری تحریر کا آغاز ہو!"

"ابھی وقت نہیں، زریاب!" حیا اسے ٹالتی رہی۔

مگر زریاب ضدی تھا۔ آخر ایک رات اس نے تھک ہار کر کہا:
"چلو، یہ سوچ لینا کہ یہ میری آخری تحریر ہوگی… اب جب چاہو، دیباچہ لکھ دینا!"

چند دن بعد، ایک رات حیا نے آخر کار دیباچہ لکھ کر بھیج دیا۔ مگر یہ کوئی محبت بھرا دیباچہ نہیں تھا، بلکہ اس میں زریاب کے ایک افسانے پر تنقید تھی۔ آخر میں، وہ لکھتی:
"اس سے بہتر ہوتا، زریاب! آپ خود ہی لکھ لیتے!"

زریاب نے جواب میں صرف اتنا کہا:
"جتنا لکھا ہے، میں خود ہی ٹھیک کر لوں گا!"

مگر یہ واضح تھا کہ حیا اب اس سے دور جا چکی تھی۔

وقت گزرتا رہا، مگر زریاب وہ نہ رہا جو پہلے تھا۔ وہ کلاس میں تو آتا، مگر جیسے وہاں موجود ہی نہ ہو۔
جب حیا کسی اور کلاس فیلو سے بات کرتی تو زریاب کو چڑ سی ہوتی، مگر وہ چپ رہتا۔

ایک دن، زریاب نے اسے میسج کیا:
"حیا، کلاس کے بعد مجھ سے ملو… یا پھر کلاس کے اندر، لیکچر کے بعد!"

"نہیں، زریاب!"

زریاب چاہتا تھا کہ وہ اکیلی ملے، اور وہ اس کے پاؤں میں اپنا سر رکھ کر اسے منا لے۔

"ایسا کیوں کرنا ہے؟" حیا نے پوچھا۔

"مجھے نہیں پتا!" زریاب نے جواب دیا۔

مگر حیا جانتی تھی… سب جانتی تھی۔ مگر پھر بھی، وہ زریاب کو مکمل طور پر نظر انداز کر رہی تھی۔

زریاب نے دوبارہ کہا…
حیا نے خاموشی سے جواب دیا:
"جواب مل چکا ہے!"

اس کے دوستوں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی:
"زریاب، وہ جا چکی ہے! اب تم خود ایک کامیاب افسانہ نگار ہو، اپنی زندگی پر دھیان دو!"

مگر زریاب ہمیشہ ایک ہی جواب دیتا:
"وہ نہیں گئی! میں اسے منا لوں گا… وہی تو میرے لفظوں کی جان ہے!"

یہ جنون تھا، یہ محبت تھی…
یہ ایک ایسے رائٹر کی کہانی تھی، جس کا قلم ہمیشہ ایک چہرے کے گرد گھومتا تھا۔

زندگی میں بہت سے لوگ آئے، بہت سے چہرے نظر سے گزرے…
مگر زریاب کے لیے دنیا وہی تھی، جہاں کبھی حیا ہنستی تھی…
جہاں وہ کہتی تھی:
"تمہیں شاعری میں کچھ اور بھی لکھنا چاہیے، زریاب! ہر بار میری تعریفیں کرتے رہو گے تو شاعری بےجان ہو جائے گی!"

اور وہ سوچتا تھا،
"نہیں، حیا! تم ہی تو میری شاعری کی جان ہو… تمہارے بغیر یہ لفظ محض بےجان حروف کی صورت بکھر جائیں گے!"

کہانی ختم ہو چکی تھی…
مگر زریاب کے دل میں اب بھی ایک سوال تھا:

کیا حیا کبھی لوٹ کر آئے گی؟

یا شاید…
یہ کہانی ہمیشہ ادھوری ہی رہے گی…

Comments

Avatar photo

حافظ احمد اقبال

حافظ احمد اقبال حساس و باصلاحیت افسانہ نگار اور جذباتی رنگ میں ڈوبے ہوئے اشعار کہنے والے غزل گو شاعر ہیں۔ نثر و نظم، دونوں اصناف میں مہارت حاصل ہے۔ افسانہ نگاری میں وہ زندگی کے پیچیدہ جذبات اور انسانی رشتوں کی نزاکتوں کو نہایت خوبصورتی سے پیش کرتے ہیں، جبکہ شاعری میں ان کا رجحان بالخصوص غزل کی طرف ہے، جس میں ان کا کلام محبت، جدائی اور زندگی کے نشیب و فراز کی عکاسی کرتا ہے

Click here to post a comment