“روشن خیالی” کے پردے میں چھپا تعصب:
پاکستانی معاشرے میں سیکولر طبقہ بظاہر “انسان دوستی”، “آزادی اظہار” اور “روشن خیالی” کے علمبردار کے طور پر خود کو پیش کرتا ہے، لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ ان کے نعروں اور دعووں کے پیچھے جو چہرہ چھپا ہے، وہ دراصل مذہب بیزاری، اسلامی شعائر سے نفرت، اور فکری شدت پسندی کا آئینہ دار ہے۔ یہ طبقہ اسلامی اقدار، دینی شخصیات، اور شعائر کا مذاق اڑانے کو فکری آزادی کا نام دیتا ہے، جبکہ مذہبی افراد کی مظلومیت کو طنز اور تمسخر کا نشانہ بناتا ہے۔
فلسطین، مظلومیت اور منافقت:
گزشتہ برسوں میں فلسطین پر جو قیامت گزری ہے، وہ انسانیت کا امتحان تھا۔ بچوں کے جسم ٹکڑوں میں بٹے، خواتین کا قتلِ عام ہوا، اسپتال تباہ کیے گئے، عبادت گاہیں ملبے کا ڈھیر بن گئیں۔ لیکن یہاں پاکستانی سیکولر طبقہ اس خونی المیے پر یا تو خاموش رہا، یا جگت بازی، طنز اور خلط مبحث کے ذریعے اصل مسئلے سے توجہ ہٹانے کی کوشش کرتا رہا۔ کوئی پوچھ رہا تھا کہ مولوی خود جہاد کے لیے کیوں نہیں جا رہے؟ کوئی مفتی تقی عثمانی کی گاڑی کی قیمت کو مسئلہ بنا رہا تھا۔ گویا نسل کشی کی مذمت سے پہلے “اخلاص” کا ثبوت دینا ضروری ہو، اور وہ بھی اس معیار پر جو یہ طبقہ خود طے کرتا ہے۔
مذہب سے جڑی مظلومیت: قابلِ نفرت؟
ان کے ہاں مظلوم صرف وہی ہے جو مذہب سے لا تعلق ہو۔ اگر کوئی مظلوم اسلام، فلسطین یا کشمیر جیسے شعوری مزاحمتی استعاروں سے وابستہ ہو، تو وہ مظلوم نہیں بلکہ تنقید کا ہدف بن جاتا ہے۔ حتیٰ کہ اگر کبھی اس طبقے کو مجبوری میں کچھ دکھ بھی ہو، تو اس کا رخ بھی فوراً مظلوم مسلمانوں کی اپنی “غلطیوں” کی طرف موڑ دیا جاتا ہے۔ ان کی “انسانیت” مذہب کے لفظ سے مشروط ہے۔ جیسے ہی کوئی مظلوم اللہ، رسول یا جہاد کا ذکر کرے، یہ طبقہ فوراً اس پر دہشت گردی، انتہا پسندی یا منافقت کا لیبل چسپاں کر دیتا ہے۔
یورپ کی مذمت، مشرق کی خاموشی؟
یہ المیہ بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے کہ امریکہ، یورپ، اور دنیا بھر میں سیکولر اور لبرل دانشور اسرائیلی بربریت پر آواز اٹھاتے ہیں، لیکن ہمارے ہاں نام نہاد روشن خیال طبقہ مکمل طور پر بے حس دکھائی دیتا ہے۔ وہ اسرائیل کی حمایت تو نہیں کرتا، لیکن مظلوموں کی حمایت بھی نہیں کرتابلکہ ان پر تنقید کرتا ہے۔ یہ فکری دیوالیہ پن نہیں تو اور کیا ہے؟
مقامی تنازعات اور فکری دوغلاپن:
جیسے ہی کسی اقلیت سے متعلق کوئی مقامی تنازعہ اٹھتا ہے، یا توہینِ مذہب کے کسی واقعے پر عوامی ردعمل سامنے آتا ہے، یہ طبقہ “انسانی حقوق” کے دیپ جلانے لگتا ہے۔ سوشل میڈیا پر مہم، بلاگز، بیانات، سب کچھ متحرک ہو جاتا ہے۔ لیکن ان کا اصل ہدف مظلوم اقلیت کا تحفظ نہیں ہوتا اصل مقصد اسلام، اسلامی ریاست، اور جہاد جیسے نظریاتی ستونوں کو بدنام کرنا ہوتا ہے۔
یہ وہی طبقہ ہے جو مغرب میں حجاب پر پابندی کو “ریاستی فیصلہ” کہہ کر قبول کرتا ہے، لیکن یہاں کسی دینی مدرسے کے طلبا کی عبادت یا کسی دیندار کی داڑھی کو “شدت پسندی” کی علامت بنا دیتا ہے۔
فکری انتہا پسندی کا جواب
ہماری رائے میں یہ طبقہ اپنی سرشت میں فکری انتہا پسند ہے۔ یہ روشن خیالی کے پردے میں فکری دہشت گردی پھیلا رہا ہے، اور مسلمانوں کے شعورِ اجتماعی کو تضحیک کا نشانہ بنا رہا ہے۔ اس کا علاج صرف دلیل، استقامت اور فکری بیداری سے ممکن ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ان کے “مخصوص انسان دوستی” کے معیار کو بے نقاب کریں، اور حقیقی انسانی ہمدردی کے پیمانے طے کریں جو مظلوم کی شناخت نہیں دیکھتی، صرف اس کے درد کو پہچانتی ہے۔
تبصرہ لکھیے