ہمیں دیار حرم میں پہنچے غالباً یہ تیسرا دن تھا اور ہم اپنی جنت مکانی ماں سے مسلسل ایک ہی بات سن رہے تھے جس کے جواب میں والد صاحب فرماتے تھے " کرتے ہیں انتظام " لیکن امی تھوڑی دیر بعد ہی پھر وہی بات کہہ ڈالتیں اور وہ بات ہماری رگ رگ میں جوش بھر دیتی ۔بالآخر اگلے روز زیارات کےسفر کا آغاز نماز فجر کے فوراً بعد ہوا، افق پر ابھی ملگجا سا اندھیرا چھایا تھا ۔ ہم بذریعہ سیارہ یعنی ٹیکسی اپنے مقام پر پہنچے تو پو پھٹ چکی تھی۔ وہ جو کلام ربی میں کہا گیا ہے نا " قسم ہے صبح کی جب وہ سانس لے "
بخدا ہم اپنی ساکن سانسوں کے ساتھ اس عظیم الشان مقام پر جو حرمین شریف کے بعد دنیا کا مقدس ترین مقام ہے ، وہاں کی صبح کو سانس لیتا محسوس کر رہے تھے۔ رعب و دبدبہ سے بھر پور فضا جہاں پتھر بھی باادب پڑے تھے ۔ وہ مقام جہاں سے علم کے سوتے پھوٹے ، چشمہ نور ہدایت پھوٹا، وہ مقام جس نے بار نبوت اٹھایا ۔ جہاں ہمارے دل صدا دے رہے تھے کہ
"کبھی تم جو سوئے حرم چلو ، تو بناکر سر کو قدم چلوکہ یہ راستہ کوئی اور ہے "
جی ہاں ہم جبل النور کےقدموں میں تھے جس کی چوٹی پر وہ غار حرا ہے جہاں خدا کا ناموس کلام پاک کی پہلی آیت لے کر اترا ۔ یہی وہ کوہ فاران ہے ، یہی وہ جبل الحیرہ ہے ۔ یہ کوئی ایک پہاڑ نہ تھا بلکہ چند پہاڑیوں کا سلسلہ تھا جس میں بلند ترین جبل النور تھا ۔ اب چڑھائی کا لمحہ عین سامنے تھا تب مجھ پر منکشف ہوا کہ یہ تو سوچا ہی نہ تھا کہ غار حرا تک پہنچنےکے لیے پہاڑ پر چڑھنا ہے ۔ یہ خیال وارد ہوتے ہی سب سے پہلے میں نے اپنے اور پھر دیگر اہل خانہ کے پیروں کی طرف دیکھا اور دل چاہا سر پیٹ لوں ۔ہم نے عام سے کینوس شوز ، امی اور ابو جی نے فلیٹ سول کے سینڈل ٹائپ جوتے پہن رکھے تھے ۔ اوپر نظر دوڑائی تو خشک ترین پتھروں کے بیچ کہیں کہیں کچھ سفید سا متحرک نظر آیا ، یہ زائرین تھے ۔ ہم نے ایک ایک پانی کی اضافی بوتل خرید کر بیگ میں رکھی اور اللہ کا نام لے کر چڑھنا شروع کر دیا ۔ پتھر کچھ اس انداز میں پڑے ہوئے تھے گویا قدرتی طور پر زینہ بنا ہو۔ لیکن کوئی پتھر چھوٹا اور کوئی ڈیڑھ دو فٹ کے قریب اونچا۔ ایک میٹر اوپر چڑھنے کے لیے کبھی چار فٹ دائیں جانا پڑتا کبھی دو فٹ بائیں۔ والد صاحب کے ایک دوست نے بتایا تھا کہ اب سیڑھیاں بن چکی ہیں ، راستہ اتنا مشکل نہیں رہا لیکن آدھا سفر طے کرنے کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ انہوں نے بھی یہ بات بس صرف سنی ہی ہے ۔ سیڑھیاں بنی ضرور ہیں ۔ لیکن یہ ذرا بھکاری انداز کے لوگ ہیں جو مختلف فاصلے پر چار چار سیڑھیاں بنا کر بیٹھے ہیں اور ہر آتے جاتے سے ایک سیڑھی کا چندہ مانگتے ہیں، پاکستانی کافی خیرات کرتے ہیں تاکہ جنت کے راستے میں سیڑھی بن سکے البتہ جبل النور کی یہ سیڑھی برسوں سے مکمل نہیں ہوئی۔ چڑھائی چڑھتے میں رک رک کر چاروں طرف نظریں گھما گھما کر دیکھتی رہی کیا خبر محبوب خدا کس راستے سے آتے ہوں گے ، کیا خبر یہی راستہ ہو ۔ کبھی یوں محسوس ہوتا پتھر سر گوشیاں کر رہے ہیں۔ ایک لمحہ کو دل اچھل کر حلق میں آ گیا ہو جیسے۔
راستے میں ہم کبھی ابو جی کے ساتھ ہو لیتے تو وہ کہتے اپنی امی کول جاؤ ۔ امی سب سے آگے تھیں ، ہانپتے ہانپتے امی کے پاس پہنچتے تو وہ گھوری ڈال کر کہتی اپنے ابو دے کول جاؤ۔ امی جوڑوں کے درد کی مریض اور والد صاحب ذیابیطس کا شکار لیکن دونوں کو اس وقت کسی چیز کی پرواہ نہ تھی ۔ آخر ہم چوٹی تک جا پہنچے لیکن وہ مقدس غار چوٹی پر نہیں ہے بلکہ ایک پہلو میں ہے۔ چوٹی سے نشیب میں اتر کر پھر بڑے بڑے پتھروں کے اندر سے گزر کر دوبارہ بلندی پر جاتے ہیں ۔جب پتھروں پر سفید رنگ سے جبل النور اور غار حرا لکھا نظر آنے لگے تو سمجھ جائیں کہ منزل دو چار ہاتھ لب بام ہے ۔وہاں زیادہ تر زائرین پاکستانی ، ایرانی اور انڈونیشین تھے ۔ جب پتھروں کی سرنگ سے نکل کر ایک چھوٹے سے صحن میں پہنچے تو آنکھوں کے سامنے وہ مقام تھا جہاں جبریل الآمین اترے ،جہاں رحمت العالمین کو کلام پاک عطا گیا۔ روح لرز اٹھی، آنکھوں سمیت بدن کا پور پور سجدے میں اتر گیا ۔ اللہ اللہ ۔۔۔۔سبحان اللہ ۔ کہاں ہم گناہ گار کہاں یہ مقام؟
زائرین تڑپ تڑپ کر رو رہے تھے ۔ ایرانی تو گویا ذرہ ذرہ چومنے کے درپے تھے ۔ اب اصل غار کو بند کر دیا گیا ہے جو کہ کچھ ایسا ہے جیسے تین یا چار میٹر لمبے سنگی تختے جوڑ کر خیمہ سا بنایا ہو۔ صرف دہانہ ہی کھلا ہے جہاں تقریباً چار افراد بیک وقت سما سکتے ہیں وہاں زائرین نوافل ادا کرتے ہیں۔ غار حرا کی مشرقی سمت میں میدان عرفات کا جبل رحمت واقع ہے جبکہ مغربی پہلو میں بحیرہ عرب استراحت فرما ہے. ہم اس متبرک مقام سے اپنی جبینوں کو مس کرنے کی سعادت حاصل کر کے پلٹے تو ایسے خمار میں تھے گویا رحیق المختوم چکھ آئے ہوں ۔ ایک پاکستانی بابا جی بانہیں پھیلائے جھوم جھوم کر چلا رہے تھے
خدا کی قسم ہم کامیاب ہو گئے
خدا کی قسم ہم کامیاب ہو گئے
تبصرہ لکھیے