*پہلا باب: ایتھنز کی گلیوں میں*
ایتھنز کی تنگ گلیوں میں دھوپ کی کرنیں پتھریلی زمین پر پھیلی ہوئی تھیں۔ بازار میں خریداروں کی گہماگہمی تھی، لیکن ایک بوڑھا شخص، جس کے گھنے بال اور بڑھی ہوئی داڑھی اس کی دانش کی علامت لگتے تھے، خاموشی سے ایک کونے میں بیٹھا تھا۔ وہ سقراط تھاوہ فلسفی جس کے سوالوں نے ایتھنز کی عوام اور خواص دونوں کو بے چین کر رکھا تھا۔
اس دن بھی کچھ نوجوان اس کے گرد جمع تھے۔ ان میں ایک لڑکا، جس کا نام الیگزینڈر تھا، بے صبری سے بولا:
"استاد، آپ ہمیشہ سوال ہی سوال کرتے ہیں۔ کیا آج آپ ہمیں کوئی جواب دیں گے؟"
سقراط نے مسکراتے ہوئے اس کی طرف دیکھا۔ "بیٹا، جواب تو ہر کوئی دے سکتا ہے۔ اصل علم تو سوال کرنے میں ہے۔"
الیگزینڈر نے جھلا کر کہا، "لیکن آپ تو خود کہتے ہیں کہ آپ کو کچھ نہیں معلوم!"
سقراط نے آہستہ سے سر ہلایا۔ "ہاں، میں یہی کہتا ہوں۔ اور یہی میرا علم ہےکہ میں جانتا ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا۔"
نوجوانوں میں سے ایک لڑکی، جس کا نام تھیلس تھا، نے پوچھا، "پھر آپ دوسروں کو کیوں تعلیم دیتے ہیں؟"
سقراط نے اپنی نیلی آنکھوں میں چمک پیدا کرتے ہوئے جواب دیا، "میں کسی کو تعلیم نہیں دیتا۔ میں صرف ان کے اندر موجود سچ کو بیدار کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔"
*دوسرا باب: عدالت کا طوفان*
کچھ ہی دنوں بعد، ایتھنز کی عدالت میں سقراط پر مقدمہ چلایا گیا۔ اس پر الزام تھا کہ وہ نوجوانوں کو بگاڑ رہا ہے اور دیوتاؤں کو نہیں مانتا۔ عدالت میں اس کے مخالفین نے زوردار تقریریں کیں، لیکن جب سقراط کی باری آئی تو وہ پرسکون کھڑا رہا۔
"تم مجھے سزا دے سکتے ہو، لیکن تم سچ کو نہیں مار سکتے،" اس نے کہا۔ "میں نے کبھی کسی کو برا راستہ نہیں دکھایا۔ میں نے صرف ان سے کہا ہے کہ وہ اپنے ضمیر سے سوال کریں۔"
قاضی نے غصے سے گرج کر کہا، "تمھارے خیالات شہر کے لیے خطرناک ہیں!"
سقراط نے مسکرا کر جواب دیا، "حقیقت کبھی خطرناک نہیں ہوتی۔ صرف جھوٹے عقیدے خطرناک ہوتے ہیں۔"
آخرکار، اسے زہر کا پیالہ پینے کی سزا سنائی گئی۔
*تیسرا باب: زہر کا پیالہ*
سقراط کو جیل میں بند کر دیا گیا۔ اس کے شاگرد رو رہے تھے، لیکن وہ خود پرسکون تھا۔ جب زہر لے کر آیا گیا، تو اس نے پیالہ اٹھایا اور بغیر کسی ہچکچاہٹ کے پی لیا۔
الیگزینڈر روتے ہوئے بولا، "استاد، آپ مر کیوں رہے ہیں؟ ہم آپ کو بچا سکتے ہیں!"
سقراط نے نرمی سے کہا، "بیٹا، موت سے ڈرنا جہالت ہے۔ ہمیں صرف اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ ہم غلط راستے پر نہ چلیں۔"
تھیلس نے پوچھا، "لیکن آپ کے بعد ہم کیا کریں گے؟"
سقراط کی آواز مدھم ہو گئی۔ "تم اپنے اندر کی آواز سنو۔ وہی تمھاری رہنمائی کرے گی۔"
زہر نے اس کے جسم کو سست کر دیا۔ آخری لمحات میں اس کے ہونٹوں پر ایک سوال تھا:
*"کیا تمھیں یقین ہے کہ تم جانتے ہو؟"*
*چوتھا باب: ورثہ*
سقراط کی موت کے بعد، اس کے شاگردوں نے اس کے خیالات کو پھیلانا شروع کیا۔ الیگزینڈر اور تھیلس نے ایتھنز کی گلیوں میں لوگوں سے سوال پوچھنے شروع کیے۔ کچھ لوگ انھیں پاگل کہتے، لیکن کچھ سوچنے پر مجبور ہو جاتے۔
ایک دن، تھیلس نے الیگزینڈر سے پوچھا، "کیا ہم سقراط کا کام جاری رکھ پائیں گے؟"
الیگزینڈر نے جواب دیا، "ہاں، کیوں کہ سچ کبھی نہیں مرتا۔"
*اختتامیہ*
سقراط کا جسم تو ختم ہو گیا، لیکن اس کے خیالات آج بھی زندہ ہیں۔ وہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ سوال کرنا ہی علم کی بنیاد ہے۔ اور شاید، یہی اس کا آخری سبق تھا۔
*"خود کو جانو، اور دنیا کو سمجھو۔"*
تبصرہ لکھیے