یہ کوئی تاج محل، برج خلیفہ، اہرام مصر یا دیوار چین دیکھنے کے خواہش تو نہیں۔
ایک مسلمان ساری زندگی یہ شدید خواہش رکھتا ہے کہ اسے اللہ کے گھر حاضری دینا ہے۔ اسلام کا اہم ترین فریضہ حج ادا کرنا ہے۔۔
لوگ عمر بھر اس کے لیے مال پس انداز کرتے ہیں۔ اللہ کا مہمان بننے کی آرزو میں جیتے ہیں۔۔
جب یہ مبارک موقع آتا ہے تو مہینوں پہلے اس کی تیاری شروع کر دی جاتی ہے۔
پچھلے چھ ماہ سے یہی ایک فکر۔۔۔یہی باتیں۔۔یہی تیاری۔۔ یہ سوچنا بھی کتنا پیارا کہ
رمضان سے جڑا شوال اور اس کے بعد حج کے لیے روانگی۔۔۔
لیکن ایک دم آپ کو پتہ چلے کہ آپ ان بانصیبوں میں شامل نہیں۔۔۔۔
پہلے تو خود کو یہ سمجھانا بہت مشکل کہ ہم اس در پر نہیں بلائے گئے۔۔۔ایک دو نہیں 67 ہزار لوگ۔۔۔
اس کا اصل ذمہ دار کون ہے۔۔
سعودی گورنمنٹ, پاکستانی وزارت مذہبی امور یا پرائیویٹ سیکٹر ۔
دنیا بھر میں چھوٹی چھوٹی یاتراؤں کے لیے اتنے غیر معمولی انتظامات کیے جاتے ہیں یہ تو مسلمانوں کا سب سے بڑا عالمگیر اجتماع ہے۔۔۔
ایسا کیا اپ سیٹ ہوا۔۔منیٰ کا میدان خدانخواستہ سمٹ گیا یا عرفات کا۔۔۔اتنے لوگوں کی محرومی۔۔۔
سچ تو یہ ہے کہ اب حج کامیاب بزنس ہو گیا ہے۔
اتنی پرائیویٹ کمپنیاں اور حج کی اتنی قسمیں۔
حج بھی اسٹیٹس سمبل۔
پلاٹینیم حج,گولڈن حج,اے کیٹیگری,بی کیٹیگری۔۔
مہنگے سے مہنگا حج ۔۔۔وی آئی پی سہولتیں۔۔۔
سینکڑوں ٹریول ایجنسیاں ۔۔۔
جو پہلے سے مارکیٹنگ کرتی ہیں۔۔۔گھیرتی ہیں کہ ہمارا پیکیج سب سے باسہولت ہے۔
ہم سہولتوں کے مارے کم دن ,کم مشقت, اچھا کھانا عمدہ رہائش۔۔۔کوئی مشقت نہ اٹھانا پڑے ہر معاوضہ دینے کو تیار۔
حج کو بزنس بنایا گیا کہ سعودی گورنمنٹ کو یہ کہنا پڑا کہ کلسٹر بنائیں ۔۔گروپس کو ضم کریں۔
وزارت مذہبی امور کے تحت جب گورنمنٹ اسکیم کے تحت جانے والے سارے امیدوار یہ سعادت حاصل کریں گے تو پرائیویٹ سیکٹرکو کیوں محروم رکھا گیا؟؟؟؟
ان کو اتنا محدود وقت کیوں دیا گیا کہ وہ انتظامات نہ کرسکے۔۔۔
بہت سارے سوال وقت جن کا جواب دے گا۔۔
لیکن یہ پاکستان کے 67 ہزار افراد نہیں جو حج سے محروم ہوئے ہیں یہ 67 ہزار خاندان اور ان سے جڑے ہوئے سینکڑوں خاندان جہاں صف ماتم بچھی ہوئی ہے۔
جن کے خواب بکھرے ہیں ان سے پوچھا جائے۔۔
یا تو پہلے ہی پتہ ہوتا کہ معاملہ 50 فیصد ہے تو ذہن کچھ اور بھی سوچتا۔۔ لیکن جب 67 ہزار لوگ ذہنی, روحانی طور پر اس سفر کے لیے تیار ہیں مکمل ادائیگیاں کر چکے ہیں اور اچانک۔
کسی ایک کو بھی پتہ چلے وہ نہیں جاسکے گا تو جانے والے اپنی خوشی بھول کر اس کے غم میں شریک ہو جائیں گے
کہاں 67 ہزار گھرانوں میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے۔
اربوں روپے ڈوبنے کا خطرہ الگ۔
اگر ان بنکوں میں رکھے ہوئے پیسوں سے کسی کی چاندی ہو رہی ہے اس کا حصہ اللہ ہی کے ذمہ ہے۔
اللہ کی رحمت سے کوئی بھی ناامیدی نہیں لیکن۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم ایسا ریوڑ ہیں جس کا کوئی بھی رہبر نہیں۔
تبصرہ لکھیے