سات اکتوبر کے بعد فوری طور پر جس کام کی ہمارے یہاں سب سے زیادہ ضرورت محسوس ہوئی، وہ شہر عزیمت کے حوالے سے تاریخی حقائق کا بیان، درست معلومات کی فراہمی، اور درست تجزیوں کی اشاعت تھی۔
سات اکتوبر سے ہی مختلف عناصر اپنے اپنے کام پر لگ گئے تھے؛
- کچھ لوگ اس قضیے سے متعلق غلط تاریخی معلومات اور غلط سیاسی تجزیوں کی اشاعت پر لگ گئے تھے۔
- کچھ لوگ وہاں موجود جیالوں سے متعلق جھوٹے پروپیگنڈوں اور غلط بیانیوں میں مصروف ہوگئے تھے۔
- کچھ لوگ شہر عزیمت سے متعلق مایوسی اور ناامیدی پھیلانے کا کام کررہے تھے۔
- کچھ لوگ سات اکتوبر کے اس اقدام کو ہر طرح سے غیر حکیمانہ اور نامناسب اقدام ثابت کرنے پر سارا زور صرف کررہے تھے۔
- اور کچھ لوگ چار قدم آگے بڑھ کر اپنوں ہی کو غلط ثابت کرنے پر لگ گئے تھے۔
ایسے میں ضروری ہوگیا تھا کہ ان تمام پہلوؤں سے درست اور حقیقی معلومات لوگوں کے درمیان عام کی جائیں۔
شہر عزیمت کے جیالوں کی طرف سے بھی بار بار اس طرف توجہ دلائی جارہی تھی کہ قضیے سے متعلق درست معلومات کی نشرواشاعت، عالمی سطح پر رائے عامہ کی ہمواری، اور عوامی ذہن سازی کے محاذ پر خاص طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
اس موقع پر ہم نے فوری طور پر علامہ یوسف القرضاوی مرحوم کی کتاب ”بیت المقدس: مسلمانان عالم کا مسئلہ“ کے اردو ترجمہ کی اشاعت کا انتظام کیا، یہ کتاب قضیے سے متعلق ضروری شرعی رہنمائی فراہم کرتی ہے۔
اس کے بعد ڈاکٹر محمد مشتاق کی کتاب ”مسئلہ فلسطین“ کی اشاعت کا پروگرام بنایا گیا، یہ کتاب قضیے سے متعلق قانونی پہلوؤں پر اچھی رہنمائی فراہم کرتی ہے۔
اسی دوران ہمارے عزیز اور محترم دوست ڈاکٹر طارق ایوبی ندوی کی کتاب ”فلسطین: قرض اور فرض“ تیار ہوکر آگئی، یہ کتاب پورے قضیے کی تاریخ بیان کرنے کے ساتھ ساتھ جدید صورت حال سے متعلق بہترین رہنمائی فراہم کرتی ہے۔
اور پھر اس سلسلے کی ایک اہم رہنما کتاب مرشدی ومربی سید سعادت اللہ حسینی امیر جماعت اسلامی نے تصنیف فرمائی، ”فلسطینی جدوجہد: نقاب کشا فرقان“، یہ کتاب فلسطینی جدوجہد، خاص طور پر موجودہ صورت حال کا بہترین تجزیہ کرتی ہے۔
یہ چاروں کتابیں اگرچہ بہت اہم ہیں اور ہر کتاب اپنے اندر انفرادیت رکھتی ہے، اور یہ چاروں کتابیں اس دوران کافی مقبول بھی ہوئیں، اور بہت کم وقت میں ان کے کئی کئی ایڈیشن بھی منظرعام پر آگئے، لیکن ایک ایسی کتاب کی شدید ضرورت محسوس ہورہی تھی، جو:
- تمام پہلوؤں سے جامع ہو۔
- جس میں قضیے کا تاریخی تجزیہ بھی ہو۔
- وہاں پر موجود اسلامی تحریکات اور اسلامی جدوجہد کا تعارف بھی ہو۔
- مزاحمت کا بھرپور تذکرہ بھی ہو۔
- غاصب دشمن کے جرائم کا بیان بھی ہو۔
- قضیے سے متعلق اہم مسائل پر بحث بھی ہو۔
- مسلمانوں کے درمیان قضیے سے متعلق پھیلی اور پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں کا ازالہ بھی ہو۔
- عالمی حمایت، خاص طور سے عالم اسلام اور عالم مغرب کے ممالک میں موجود حمایتی آوازوں اور تحریکوں پر تبصرہ بھی ہو۔
- اور سات اکتوبر کے اثرات اور نتائج پر گفتگو بھی ہو۔
اس حوالے سے ڈاکٹر طارق ایوبی ندوی کا پروگرام تھا کہ ایک سیمینار کا انعقاد ہو، اس میں الگ الگ پہلوؤں سے احباب تیاری کرکے آئیں، اور پھر منتخب مقالات کے مجموعہ کی اشاعت کا انتظام کردیا جائے۔ اس طرح ایک جامع چیز منظرعام پر آجائے گی، لیکن احباب کی عدم توجہی کے سبب یہ منصوبہ تشنہ تکمیل رہ گیا۔
برادر عبدالعظیم الاعظمی کی کتاب ”حماس اسرائیل جنگ: حقائق وشواہد “ دیکھ کر بے انتہا خوشی ہوئی۔ اس کتاب میں مذکورہ بالا تمام پہلوؤں کا احاطہ کرنے کی اچھی کوشش کی گئی ہے۔ اس میں قضیے کی تاریخ بھی ہے، وہاں کی اسلامی تحریکات کا تعارف بھی ہے، مزاحمت کا تفصیلی تذکرہ بھی ہے، دشمن کے جرائم کا بیان بھی ہے، سات اکتوبر کے اثرات اور نتائج، نیز دیگر پہلوؤں پر بھی اچھی گفتگو ہے۔
یہ کتاب قضیے سے متعلق ایک بہترین رپورتاژ کی حیثیت رکھتی ہے، اس کتاب میں مصنف موصوف نے بہت ہی اہتمام کے ساتھ اہمیت کے حامل ایک ایک واقعہ کو قلم بند کیا ہے، اور پھر اس واقعے کے نتائج اور اثرات پر بھی اچھی اور تفصیلی گفتگو کی ہے۔ کتاب میں اگرچہ مختلف مقامات پر مزاحمت اور مزاحمتی تحریکوں سے متعلق مسلمانوں کے درمیان پھیلی یا پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں پر اچھی گفتگو ہے، لیکن ناچیز کا خیال ہے کہ اگر ان غلط فہمیوں کے ازالے پر ایک مستقل باب ہوتا تو افادیت کے پہلو سے زیادہ بہتر ہوتا۔
کتاب بحیثیت مجموعی لائق مطالعہ ہے، اور ایک بڑی ضرورت کی تکمیل کرتی ہے۔ اگرچہ کتاب کے تمام مباحث اور تمام نتائج سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا۔ خاص طور سے ایران، ترکی، حزب اللہ اور مشرق وسطیٰ سے متعلق بہت سے تجزیے اور بہت سے بیان کردہ نتائج محل نظر ہیں، جگہ جگہ عجلت پسندی کا احساس ہوتا ہے، مختصر یہ کہ مشرق وسطیٰ کی سیاست اور اس سیاست میں مغربی کردار پر مزید غوروفکر اور مطالعہ کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
بہرحال، برادر عبدالعظیم کو ایک بار پھر مبارکباد۔ اللہ رب العزت نے موصوف سے ایک بڑا کام لیا ہے، یہ کام شہر عزیمت کی حالیہ جدوجہد کے تناظر میں اہم بھی ہے اور ضروری بھی۔ اللہ رب العزت اس کوشش کو شرف قبولیت عطا فرمائے، اور اس کی افادیت خوب خوب عام ہو۔ آمین یا رب العالمین
تبصرہ لکھیے