دنیا میں جنگیں صرف بندوقوں ہی سے نہیں لڑی جاتیں بلکہ مختلف حکمت عملیوں کا امتزاج ہوتی ہے جس میں معاشی برتری یا کمزور کرنا بھی شامل ہے, بالفاظ دیگر معیشت سے بھی غالبیت اور مغلوبیت کے فیصلے ہوتے ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب اسلام کو غلبہ ملا، اس کے پیچھے معاشی شعور اور بائیکاٹ کی حکمتِ عملی کئی جگہ موجود تھی۔ آج فلسطین کے مظلوم مسلمانوں پر اسرائیلی ظلم کے سائے گہرے ہو چکے ہیں۔ ایسے میں یہ سوال شدت سے اٹھتا ہے کہ کیا اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ مؤثر عمل ہے؟ اور کیا سیرتِ نبوی اس کی تائید کرتی ہے؟ اسلامی تاریخ کا پہلا بڑا معاشی واقعہ قریش کے بائیکاٹ کا جواب تھا۔ شعبِ ابی طالب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل ایمان نے جو صبر و استقامت دکھایا، وہ تاریخ انسانی کی بے مثال مثال ہے۔ قریش نے تین سال تک تمام معاشی و سماجی راستے بند کیے، مگر ایمان نہ جھکا۔ یہ پہلا موقع تھا جب اسلام نے سیکھا کہ معیشت، کسی قوم کے خلاف ایک ہتھیار بھی ہو سکتی ہے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ ہجرت فرمائی، اور پہلا عملی اقدام قریش کے تجارتی قافلے کو روکنے کی صورت میں سامنے آیا۔ یہ اعلان تھا کہ تم نے مسلمانوں کو مغلوب رکھنا چاہتے ہو ، اب ہم تمہاری تجارتی رگ پر ضرب لگائیں گے۔ یہی وہ لمحہ تھا جب دشمن کی معیشت کو نشانہ بنانا اسلامی دفاع کا جزو بنا۔
مدینہ پہنچ کر مسلمانوں نے جہاں سیاسی نظام قائم کیا، وہیں یہودی قبائل کے ساتھ تجارتی روابط کو بھی نظم دیا۔ مگر جب یہودی سازشوں پر اتر آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو معاشی کمزوری کےلیے کے لیے انہیں مدینہ اور خیبر سے نکال کر زراعت، تجارت اور وسائل کا کنٹرول مسلمانوں کے ہاتھ میں دے دیا۔ یہ وہ داخلی بائیکاٹ تھا جس نے مدینہ کی معیشت کو غیر مسلم اثر سے پاک کر دیا۔ یہی اصول سفارتی محاذ پر بھی اپنایا گیا۔ نجران کے عیسائیوں نے اسلام قبول نہ کیا تو انہیں جزیہ دینا پڑا، جو دراصل معاشی دباؤ کی شرعی صورت تھی۔ قرآن نے صاف فرمایا: "یہاں تک کہ وہ ذلت کے ساتھ جزیہ دیں"۔ یہ اقدام دشمن کو معاشی مات دینے کے مترادف تھا۔ اسی طرح فتح مکہ صرف عسکری فتح نہ تھی بلکہ تجارتی مرکز پر کنٹرول تھا۔ خانہ کعبہ کی مرکزیت نے تجارت کو مسلمانوں کے ہاتھ میں دے دیا۔ قریش کی معاشی بالا دستی اب ختم ہو چکی تھی۔
یہ تمام اقدامات اس بات کا ثبوت ہے کہ سیرتِ نبوی صرف روحانی یا عسکری نہیں بلکہ معاشی رہنمائی بھی فراہم کرتی ہے۔ آج فلسطین کی حالت کو اسی روشنی میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر شعبِ ابی طالب کا دور پھر آ چکا ہے تو جواب بھی سیرت سے لینا ہو گا۔ اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ صرف ایک جذباتی نعرہ نہیں بلکہ ایک مؤثر حکمتِ عملی ہے۔ اسرائیل کی معیشت میں ایک بڑا حصہ ان کمپنیوں کا ہے جن کی مصنوعات مسلم دنیا میں کھپتی ہیں۔ Coca Cola ، Nestlé ، McDonald’s، HP ، Puma اور Starbucks جیسے برانڈز اسرائیلی معیشت کو نہ صرف سہارا دیتے ہیں بلکہ کئی براہ راست صہیونی مقاصد کے لیے فنڈنگ کرتے ہیں۔ جب کوئی مسلمان یہ چیز خریدتا ہے تو وہ انجانے میں ایک گولی کا خرچ فراہم کرتا ہے جو کسی نہ کسی فلسطینی پر استعمال ہو سکتی ہے۔
کیا یہ بائیکاٹ مؤثر ہے؟ معاشی اصولوں کے مطابق جب کسی پروڈکٹ کی خریداری کم ہو جائے تو اس کی قیمت، پیداوار اور کمپنی کی طاقت کمزور ہو جاتی ہے۔ بائیکاٹ سے صرف منافع نہیں گرتا بلکہ برانڈ کی عزت بھی مجروح ہوتی ہے، جس کے اثرات عالمی سطح پر محسوس ہوتے ہیں۔ جب صارفین کی اکثریت کسی برانڈ سے منہ موڑ لیتی ہے تو وہ کمپنیاں پالیسی بدلنے نے کیا۔ Ben & Jerry’s مجبو ہو جاتی ہے۔ مزید یہ کہ بائیکاٹ کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہےکہ یہ دشمن کو عالمی سطح پر ظالم کے طور پر متعارف کرواتا ہے۔ معاشی بائیکاٹ ایک خاموش مگر گونج دار احتجاج ہوتا ہے، جو دلائل سے لبریز اور اخلاقی اعتبار سے اعلیٰ ترین ہتھیار ہے۔
قرآن و سنت بھی اس طرز عمل کی تائید کرتے ہیں۔ قرآن کہتا ہےاور تیاری کرو ان کے لیے جو کچھ تم سے ممکن ہو قوت سے، قوت صرف اسلحہ نہیں بلکہ معیشت، علم، اتحاد، بائیکاٹ سب کچھ اس میں شامل ہے۔ قرآن مزید کہتا ہے: "اور ظالموں کی طرف جھکاؤ نہ رکھو ورنہ تمہیں بھی آگ پکڑ لے گی"۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو ظالم کی مدد کرے گا، اللہ اسے اسی پر مسلط کرے گا"۔ جب ہم ان مصنوعات کو خریدتے ہیں جو ظالم کی پشت پناہی کرتی ہیں تو یہ خاموش تعاون بنتا ہے۔اور یہ تعاون درحقیقت خیانت ہے۔
آج کا بائیکاٹ صرف علامتی عمل نہیں بلکہ ایمان، شعور، غیرت اور حکمت کا تقاضا ہے۔ اگر ایک ارب مسلمان صرف شعور سے خریداری کرنے لگیں تو اسرائیل جیسی ریاست کی معیشت دنوں میں گھٹنے ٹیک دے۔ سیرت ہمیں سکھاتی ہے کہ جب دشمن ظلم کرے تو تلوار اور تجارت دونوں سے مقابلہ کیا جائے۔ معیشت کو صرف گزارے کا ذریعہ نہیں بلکہ ہتھیار بنا کر استعمال کیا جائے۔ یہی پیغام سیرت کا بھی ہے، قرآن کا بھی اور آج کے مظلوم فلسطین کی پکار کا بھی۔ دنیا میں جنگیں صرف بندوقوں ہی سے نہیں لڑی جاتیں بلکہ مختلف حکمت عملیوں کا امتزاج ہوتی ہے جس میں معاشی برتری یا کمزور کرنا بھی شامل ہے, بالفاظ دیگر معیشت سے بھی غالبیت اور مغلوبیت کے فیصلے ہوتے ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب اسلام کو غلبہ ملا، اس کے پیچھے معاشی شعور اور بائیکاٹ کی حکمتِ عملی کئی جگہ موجود تھی۔
آج فلسطین کے مظلوم مسلمانوں پر اسرائیلی ظلم کے سائے گہرے ہو چکے ہیں۔ ایسے میں یہ سوال شدت سے اٹھتا ہے کہ کیا اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ مؤثر عمل ہے؟ اور کیا سیرتِ نبوی اس کی تائید کرتی ہے؟ اسلامی تاریخ کا پہلا بڑا معاشی واقعہ قریش کے بائیکاٹ کا جواب تھا۔ شعبِ ابی طالب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل ایمان نے جو صبر و استقامت دکھایا، وہ تاریخ انسانی کی بے مثال مثال ہے۔ قریش نے تین سال تک تمام معاشی و سماجی راستے بند کیے، مگر ایمان نہ جھکا۔ یہ پہلا موقع تھا جب اسلام نے سیکھا کہ معیشت، ایمان کے خلاف ایک ہتھیار بھی ہو سکتی ہے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ ہجرت فرمائی، اور پہلا عملی اقدام قریش کے تجارتی قافلے کو روکنے کی صورت میں سامنے آیا۔ یہ اعلان تھا کہ تم نے مسلمانوں کو مغلوب رکھنا چاہتے ہو ، اب ہم تمہیں تمہاری تجارتی رگ پر ضرب لگائیں گے۔ یہی وہ لمحہ تھا جب دشمن کی معیشت کو نشانہ بنانا اسلامی دفاع کا جزو بنا۔
تبصرہ لکھیے