عدالت میں وہ عورت داخل ہوئی تو جیسے وقت تھم سا گیا۔ سفید دوپٹہ سر پر، قدموں میں تھکن اور چہرے پر برسوں کی اداسی۔ وہ ایک خالی خالی سی آنکھیں لیے عدالت کے روبرو خلع کا دعویٰ لے کر آئی تھی۔
"میرا شوہر مجھ سے محبت نہیں کرتا، مجھے وقت نہیں دیتا، میرے جذبات کی قدر نہیں کرتا۔"
یہی وہ جملہ تھا جو اس نے اپنی اس درخواست پر لکھا تھا جو میرے کلائنٹ کے توسط سے مجھ تک پہنچا اور وہی جملہ اس کے چہرے پر بھی نقش تھا۔
میں اس دن عدالت میں بطور وکیل موجود تھا اور مقدر نے مجھے اس مرد کا وکیل بنا دیا جسے وہ عورت بےوفا، سرد اور بےحس کہہ رہی تھی۔
"کیا آپ عدالت کے سامنے بیان دینا چاہیں گی؟" جج نے سوال کیا۔
"جی ہاں۔" وہ بولی، اور اس کی آواز میں خالی پن تھا۔
"یہ مرد کئی کئی دن گھر سے باہر رہتا ہے، جب گھر آتا ہے الگ کمرے میں سوتا ہے، کبھی بات نہیں کرتا، نہ پوچھتا ہے، نہ سمجھتا ہے۔ خاموش رہتا ہے، جیسے میں کوئی انسان نہیں صرف ایک سایہ ہوں۔"
عدالت میں سناٹا چھا گیا۔ جج نے میری طرف دیکھا۔ میں نے فائل بند کی اور جیب سے ایک کاغذ نکالا۔ وہ ایک میڈیکل رپورٹ تھی۔
"جنابِ والا، میرے مؤکل کو چار ماہ قبل ٹی بی مرض تشخیص ہوا تھا وہ جس جگہ سٹور پر ملازمت کرتا تھا، انھوں نے بہت غیرمحسوس طریقے سے اسے نکال دیا."
ڈر کے مارے اس نے بیوی کو بھی یہ بات نہ بتائی کہ کہیں اس کا گھر نہ ٹوٹے. "وہ دن بھر سبزی منڈی میں پلے داری کا کام کرتا اور شام کو ایک جگہ چوکیداری کرکے تنخواہ جتنے پیسے پورے کرتا. چھٹی کے دن جب گھر آ کر سوتا تو شاید اسی لیے اس کے پاس لفظ نہیں ہوتے ، اس نے اپنی بیوی کو اس غم سے دور رکھنے کے لیے چھپایا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کی بیوی بھی اسے بالکل اسی طرح چھوڑ دے جس طرح سٹور والوں نے چھوڑا۔"
عورت کے چہرے پر حیرت، پچھتاوا اور ایک درد ایسا ابھرا، جو کسی بھی عدالتی فیصلے سے بڑا تھا۔ وہ خود پر کنٹرول نہ رکھ سکی۔ وہ آنکھیں جو عدالتی انصاف مانگنے آئی تھیں، اب توبہ کے آنسو بہا رہی تھیں۔
"مجھے نہیں معلوم تھا…" اس کی آواز کپکپائی۔
"وہ چاہتا تھا کہ آپ سکون سے جیئیں، اس کی بیماری کا بوجھ آپ پر نہ پڑے اور آپ نے اس خاموشی کو بےوفائی سمجھا۔"
اس کے بعد میں خاموش ہو گیا۔ شاید پہلی بار، بطور وکیل، میرے پاس دلائل ختم ہو گئے تھے.
عدالت نے عورت سے پوچھا آپ کو کوئی دیگر شکایت ہے؟
خاتون نے نفی میں سر ہلا دیا.
اس پر عدالت نے خلع کی درخواست مسترد کر دی اور جج نے عورت سے کہا کہ جائیے اور اپنے شوہر کی خدمت کیجیے. اس کا علاج جاری ہے اس کے دوا دارو کا خیال رکھیں وہ آپ سے پیار کرتا ہے. اس کے شوہر سے کہا آپ کو بھی چاہیے تھا کہ اپنی بیوی کو بیماری کے متعلق بتاتے. (یہی بات میں نے اپنے کلائنٹ کو پیشی سے تین دن پہلے اپنے آفس میں سرزنش کے انداز میں بتائی تھی، جب وہ میرے پاس خلع کی درخواست کی نقل لے کر آیا تھا ، جو اسے عدالتی پیشی کے حکم نامہ کے ساتھ موصول ہوئی تھی کہ تمھیں بیماری کے متعلق اپنی بیوی کو بتانا چاہیے تھا، جو پہاڑ گرتا میں دیکھ لوں گا".)
مگر شوہر نے اس دن عدالت کے باہر کہا:
"اگر وہ چاہے تو میں طلاق دے دوں گا، محبت زبردستی کی نہیں ہوتی۔"
اس کی بیوی نے صرف اتنا کہا:
"اب مجھے اس کی خاموشی سے محبت ہو گئی ہے۔"
اور اس دن پہلی بار وہ دونوں عدالت سے ساتھ ساتھ نکلے۔
تبصرہ لکھیے