خلافت امت مسلمہ کا سیاسی مرکز (Political center) ہے۔خلیفہ کا کام سرزمین پر اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کو نافذ کرنا ہے۔تمام لوگوں کوکتاب و سنت کی تعلیمات کے مطابق دنیا و آخرت کی کامیابی کا راستہ دکھانا خلافت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔دین اسلام کو نازل ہوئے تقریبا ساڑھے چوودہ سو سال گزر چکے ہیں، ان چودہ صدیوں میں مسلمانوں پانچ بڑی مشہور اور مضبوط خلافتیں گزریں ہیں؛ جو کہ خلافت راشدہ، خلافت بنو امیہ، خلافت عباسیہ ، خلافت بنوامیہ دوم(اندلس میں عبد الرحمٰن الداخل نے قائم کی)اور خلافت عثمانیہ (Ottoman Caliphate)پر مشتمل ہیں۔ اس کے علاوہ بھی چھوٹی خلافتیں وجود میں آئی ہیں جیسے خلافت فاطمیہ وغیرہ۔
وقت گزرنے کے ساتھ مسلمانوں میں کتاب و سنت سے دوری بڑھتی گئی تو یہ خلافتیں بھی زوال پزیر ہوگئی۔ خلافت عثمانیہ کے آخری خلیفہ کو 1923ء میں معزول کر دیا گیا اور مسلمانوں کی عظیم الشان خلافت کو چالیس ملکوں میں تقسیم کر دیا گیا۔یورپ کی نشاۃ ثانیہ(Renaissance) میں مغربی فکر و فلسفہ کو پروان پروان چڑھایا گیا۔ وہی دنیا جس کی قیادت پہلے مسلمان کرتے تھے اب اس دنیا کی بھاگ دوڑ اقوام مغرب کے ہاتھ میں ہے۔چناں چہ سیاسی طور پر خلافت کی جگہ جمہوریت (Democracy)کو متعارف کروایا گیا اور اس جمہوری نظام کی سرپرستی سرمایہ دارانہ نظام(Capitalism) کے ذریعے کی گئی۔
اس ساری صورت حال میں احیائے اسلام اور اسلامی نظام کا قیام مسلمانوں کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔بات یہی تک نہیں بلکہ مسلمانوں سے حکومت چھیننے کے ساتھ اسلامی علوم اور اصطلاحات کو بھی مشکوک اور ناقابل عمل قرار دے دیا گیا۔ کئی اسلامی اصطلاحات و تصورات کے متعلق پورے منصوبے او رحکمت عملی کے تحت مسلمانوں کے ذہن کو پراگندہ کر دیا گیا ۔ان اصطلاحات میں سے ایک اصطلاح ”خلیفہ اور خلافت “ہے۔خلافت کے متعلق مسلمانوں کے ذہن میں سب سے بڑا اعتراض یہ پیدا کیا گیا کہ خلافت در اصل پاپائیت کا دوسرا نام ہے۔
اس اعتراض کا جواب دینے سے پہلے پاپائیت اور اس کے تاریخی پس منظر کو سمجھنا ضروری ہے۔پاپائیت در اصل رومن کیتھولک چرچ کا وہ نظام ہے ، جس کا سربراہ پاپائے اعظم ہوتا تھا۔یہ عیسائی مذہب کا سربراہ مانا جاتا تھا۔اس کا تسلط صرف مذہبی زندگی تک ہی نہیں تھا بلکہ سیاست، معیشت اور ثقافت سمیت زندگی کے تمام پہلوؤں میں کلیساء کی اجارہ داری تھی۔
تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو یورپ میں ازمنہ وسطیٰ کا دورپاپائیت کا ہی دور تھا، جب پورا یورپ کلیساء کے ظلم کے نرغے میں تھا۔ اس دور میں یورپ پر قانون بنانے(Legislation)، قانون نافذکرنے (Administration) اور قانون کی وضاحت کرنے کا سارا اختیار کلیساء کے پاس تھا۔کلیساء اپنے آپ کو ظل الہی سمجھتا، اپنے پیغا م کو وہ اللہ کا پیغام کہہ کر عملدرآمد کرواتا۔ کلیساء اور اس کے ماتحت پادری خود کو قانون سے بالا تر سمجھتے ، لوگوں سے مال بٹورتے، مغفرت کے سرٹیفکیٹ بانٹتے اور اپنی جائیدادیں بناتے۔حتی کہ اٹھارویں صدی میں کلیساء بذات خود یورپ کاسب سے بڑا زمیندار بن گیا۔ بالآخر جب بادشاہ اور جاگیر دار کلیساء کے مخالف ہوئے تو کلیساء نے انہیں بھی اپنے ساتھ اقتدار میں شریک کر لیا۔
خلافت اور پاپائیت میں کئی پہلوؤں سے فرق ہے۔پہلی بات یہ کہ پاپائیت میں قانون بنانے ، قانون نافذ کرنے اور قانون کی وضاحت کرنے کا اختیار صرف کلیساء کے پاس تھا۔ جب کہ اسلام میں خلیفہ کو قانون بنانے کا کوئی اختیار نہیں ہے، قانون صرف اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا ہے۔خلیفہ اپنی طرف سے قانون بنانےکاکوئی اختیار نہیں رکھتا۔
جہاں تک قانون نافذ کرنے کی بات ہے تو یورپ میں کلیساء قانون نافذکرتے وقت عدل و انصاف کے تقاضوں کا پامال کرتا تھا جب کہ اسلام میں خلیفہ کے لیے لازم ہے کہ وہ قانون نافذ کرتے وقت عدل کے تقاضے پورے کرے اور اگر خلیفہ ایسا نہیں کرے گا تو عوام الناس اور شوریٰ اس کا مواخذہ کر سکتے ہیں اور وہ اللہ کی بارگاہ میں بھی جواب دہ ہو گا۔اسلام میں قانون کی وضاحت کرنا علماء کا کام ہے۔ جو قرآن و حدیث کی وضاحت علوم اسلامیہ کے اصولوں کو مدنظر رکھ کر کرتے ہیں۔
کلیساء اور اس کے پادری خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے تھے ، جب کہ خلافت میں خلیفہ یا خلافت کے اراکین خود کو اللہ اور عوام کے سامنے جوابدہ سمجھتے ہیں۔اسلامی خلفاء کی کئی ایسی مثالیں موجود ہیں جن سے یہ بات واضح ہوتی ہیں کہ خلیفہ، اس کی اولاداور اس کے اراکین کبھی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہوئے۔قاضی شریح رحمہ اللہ کا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف فیصلہ دینا اس کی عمدہ ترین مثال ہے۔کلیساء لوگوں کو مغفرت نامے دیتا تھا جب کہ اسلام میں گناہ معاف کرنے کا اختیار صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کو حاصل ہے۔
کلیساء دنیا پرست اور مال و دولت کا حریص تھا، وہ مختلف طریقوں اور حیلے بہانوں کے ذریعے لوگوں سے مال جمع کرتاتھا کہ جب کہ اسلام میں خلیفہ کے پاس کوئی ایسا اختیار نہیں ہے۔ بلکہ خلفاء کی زندگی باقی مسلمانوں سے زیادہ سادگی ، قناعت اور عاجزی پر مشتمل ہوتی تھی۔ یہ بات صرف کہنے کی حد تک ہی نہیں بلکہ تاریخ میں ایسی مثالیں موجود ہیں جو خلفاء کی سادگی اور قناعت پسندی کا اظہار کرتی ہیں۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے خلیفہ بننے کے بعد اپنی تنخواہ ایک مزدور کے برابر مقرر کی اور ساتھ یہ بھی کہا کہ اگر میری کی تنخواہ بڑھانے کی ضرورت پڑے تو ساتھ مزدور کی تنخواہ بھی بڑھا دی جائے۔روایات میں ملتا ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے بیت المال سے لی گئی تنخواہ وفات کے وقت اپنی جائیداد سے واپس کر دی تھی۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب بیت المقدس کی چابیاں لینے گئے تو ان کے لباس پر سترہ پیوند لگے ہوئے تھے۔
مندرجہ بالا تصریحات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ خلافت اور پاپائیت میں کئی پہلوؤں سے فرق ہے۔ خلافت دنیا میں اللہ تعالیٰ کا نظام نافذ کرنے کا ایک ذریعہ تھی جب کہ پاپائیت میں عیسائی پادری خودساختہ عقائد اور نظام کو نافذ کرتے تھے۔
تبصرہ لکھیے