ہوم << مالیاتی تعطل کی دہائی، آئینی کشمکش اور مستقبل کی راہیں - نجیب خان

مالیاتی تعطل کی دہائی، آئینی کشمکش اور مستقبل کی راہیں - نجیب خان

پاکستان میں قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ کو مالیاتی وفاقیت کی بنیاد تصور کیا جاتا ہے۔ یہ ایوارڈ وفاقی حکومت اور صوبوں کے درمیان مالی وسائل کی تقسیم کا تعین کرتا ہے، جسے 1973 کے آئین کے آرٹیکل 160 کے تحت ہر پانچ سال بعد نظرثانی کے لیے لازم قرار دیا گیا ہے۔ تاہم، 2010 میں ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے بعد سے اب تک کوئی نیا ایوارڈ جاری نہیں کیا گیا۔ اب جبکہ 2025 میں ملک شدید معاشی دباؤ، بڑھتے قرضوں، مالی خسارے، اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی اصلاحات کی تجاویز کی زد میں ہے، اس پر نظرثانی کی ضرورت ایک مرتبہ پھر توجہ کا مرکز بن چکی ہے۔

این ایف سی ایوارڈ کی ساخت میں عمودی (وفاق-صوبے) اور افقی (بین الصوبہ) تقسیم شامل ہے۔ ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو 57.5 فیصد اور مرکز کو 42.5 فیصد حصہ دیا گیا۔ اس تقسیم کے لیے آبادی (82 فیصد)، غربت و پسماندگی (10.3 فیصد)، محصولات کی وصولی (5 فیصد)، اور الٹی آبادی کی کثافت (2.7 فیصد) پر مشتمل کثیر عنصری فارمولا اپنایا گیا۔ یہ فارمولہ ان علاقوں کو فائدہ پہنچانے کی کوشش تھی جو دہائیوں سے مالیاتی نظراندازی کا شکار رہے۔

تاہم، اب معاشی صورتحال میں بدلاؤ آ چکا ہے۔ بڑھتی ہوئی افراطِ زر، قرضوں کا بوجھ، اور مالیاتی خسارہ وفاق کو شدید دباؤ میں لے آیا ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے بھی اس مالیاتی توازن کو بہتر بنانے کے لیے این ایف سی ایوارڈ پر نظرثانی کی تجویز دی ہے۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے حالیہ دنوں میں سینیٹ کی فنانس کمیٹی کو بتایا کہ موجودہ این ایف سی ڈھانچہ "مسخ شدہ" ہو چکا ہے اور اس کا از سر نو جائزہ ناگزیر ہو چکا ہے۔

مرکزی حکومت کے مطابق، موجودہ فارمولا قومی منصوبوں، قرضوں کی ادائیگی، اور دفاع جیسے اہم شعبہ جات کے لیے درکار فنڈز فراہم نہیں کرتا۔ وفاقی اخراجات میں گزشتہ دہائی میں 104 فیصد اضافہ ہو چکا ہے، جبکہ آمدن میں اتنا اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ مرکز اس نکتہ پر بھی زور دیتا ہے کہ صوبوں کو ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لیے خاص طور پر زراعت اور جائیداد جیسے کم محصولاتی شعبوں پر توجہ دینی چاہیے تاکہ وفاقی بوجھ کم ہو۔

دوسری طرف، صوبے اس معاملے میں اپنے آئینی حق پر زور دیتے ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے واضح کیا کہ آئین کا آرٹیکل 160 صوبوں کے حصے میں کسی بھی کمی کی اجازت نہیں دیتا، جب تک تمام صوبے اس پر رضامند نہ ہوں۔ خیبرپختونخوا بھی اس وقت تک موجودہ ایوارڈ کی توسیع کو تسلیم نہیں کر رہا، جب تک سابق قبائلی علاقوں کے لیے الگ پسماندگی فنڈ مختص نہ کیا جائے۔ پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتیں بھی مسلسل اس کوشش کو صوبائی خودمختاری کے منافی قرار دے رہی ہیں، خصوصاً 18ویں آئینی ترمیم کے تناظر میں۔

ماہرین کی آراء بھی مختلف زاویے پیش کرتی ہیں۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (PIDE) نے موجودہ ایوارڈ میں کارکردگی کے اصول کی کمی اور مالیاتی حقیقتوں سے عدم ہم آہنگی کی نشاندہی کی ہے۔ ان کے مطابق، فنڈز کی کارکردگی پر مبنی تقسیم نہ صرف شفافیت بڑھا سکتی ہے بلکہ صوبوں کو بہتر حکمرانی پر بھی مجبور کرے گی۔ تاہم، مبصرین جیسے ریحان احمد کا کہنا ہے کہ این ایف سی ایوارڈ کو تمام مسائل کی جڑ سمجھنا مناسب نہیں، بلکہ اصل چیلنج وفاقی سطح پر مالی بدانتظامی، غیر ضروری قرضے، اور بے جا اخراجات ہیں۔

سوشل میڈیا پر بھی یہ موضوع بحث کا محور بنا ہوا ہے۔ عوامی حلقوں میں بے چینی اور لاعلمی کی حالت کو اے این پی کے رہنما سردار حسین بابک کے طنزیہ بیان نے خوب عیاں کیا: "لوگ کے ایف سی جانتے ہیں، این ایف سی نہیں!"۔ متعدد صارفین این ایف سی ایوارڈ میں تاخیر کو آئینی خلاف ورزی اور وفاقی ڈھانچے کے لیے خطرہ قرار دیتے ہیں۔ کچھ صارفین قدرتی وسائل کی ملکیت اور اخراجات کی شفافیت پر سوالات اٹھاتے ہیں، خاص طور پر بلوچستان اور کے پی جیسے پسماندہ علاقوں کے تناظر میں۔

بین الاقوامی تقابل کی بات کی جائے تو بھارت نے اپنے مالیاتی کمیشن میں آبادی کے وزن کو صرف 25 فیصد کر کے ایک متوازن تقسیم کی طرف قدم بڑھایا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان بھی ایسے ماڈل سے سیکھ کر آبادی پر حد سے زیادہ انحصار کو کم کر سکتا ہے، تاکہ دیگر صوبے بھی منصفانہ طور پر مستفید ہو سکیں۔

اگرچہ آئین کے مطابق ہر پانچ سال بعد این ایف سی ایوارڈ پر نظرثانی لازمی ہے، مگر 2010 کے بعد سے اب تک کوئی نیا ایوارڈ پیش نہیں کیا گیا۔ 10 واں این ایف سی کمیشن 2020 میں تو تشکیل پا چکا تھا، لیکن تاحال کوئی عملی پیش رفت سامنے نہیں آئی۔ 2024 میں بھی مختلف خبری اداروں نے آئی ایم ایف کی تجاویز اور وفاقی بیانات کو اجاگر کیا، مگر 2025 کے آغاز تک معاملہ بدستور جمود کا شکار ہے۔

مجموعی طور پر، این ایف سی ایوارڈ کی حالیہ بحث پاکستان کے وفاقی نظام کے اس نازک توازن کو اجاگر کرتی ہے جہاں مرکز اور صوبوں کے درمیان آئینی حق، مالیاتی حقیقت، اور سیاسی مفادات کی رسہ کشی جاری ہے۔ ایک طرف وفاق کو اپنے مالی وسائل بڑھانے ہیں، تو دوسری جانب صوبے اپنے آئینی اختیارات پر سمجھوتہ نہیں کرنا چاہتے۔ اس مسئلے کا حل صرف ایک شفاف، مشاورت پر مبنی اور ڈیٹا سے ہم آہنگ پالیسی سے ہی ممکن ہے۔

اب وقت آ چکا ہے کہ این ایف سی ایوارڈ کو محض ایک آئینی تقاضہ سمجھنے کے بجائے، اسے ایک عملی، قابلِ نفاذ اور عوامی مفاد پر مبنی پالیسی میں ڈھالا جائے۔ عوامی شعور بیدار کرنا، شہری مصروفیت کو بڑھانا، اور اس نظام میں شفافیت لانا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ اس کی بروقت نظرثانی۔ اس سے نہ صرف وفاقی ڈھانچے کو تقویت ملے گی بلکہ صوبوں میں مالیاتی خودمختاری اور ذمہ داری کا توازن بھی بہتر ہو گا۔ ہو سکتا ہے کہ بابک کے طنز کے بعد آنے والے وقت میں شہری صرف "کے ایف سی" نہیں بلکہ "این ایف سی" کو بھی حقیقی معنوں میں جاننے لگیں۔