تصور کریں کہ آپ اپنے خیالوں میں مگن ایک راستے پر چلے جارہے ہوں، اچانک پیر پھسلے، اور آپ راستے کے نشیب میں کیچڑ بھرے گڑھے میں گر جائیں، اٹھنے کی کوشش کریں مگر پیر پھر پھسل جائیں. کچھ دیر کی ناکام کوشش کے بعد آپ کو یقین ہو جائے کہ اس کیچڑ سے ان دو قدموں کے سہارے نکلنا ممکن نہیں ہے. تب آپ کیا کریں گے..؟
یقیناً آپ حالات کی مناسبت سے حکمتِ عملی میں تبدیلی لائیں گے. چار قدموں کی کمی آپ ہاتھوں کو کام میں لا کر پوری کریں گے. گھٹنوں اور ہاتھوں پر چلتے چلتے آپ دو پیروں کی نسبت زیادہ آسانی سے راستے تک پہنچ جائیں گے. اور سڑک پر پہنچتے ہی آپ دو قدموں پر کھڑے ہوجائیں گے.
دو مختلف حالات میں یہ دو مختلف حکمت عملیاں ہیں. ہر ایک حکمت عملی کے بہتر نتائج کے لیے ضروری ہے کہ وہ حالات کے مطابق ہو. مثلاً میٹل روڈ پر آپ دو پیروں کے سہارے باآسانی چل بھی سکتے ہیں اور جتنا تیز دوڑنا چاہیں دوڑ بھی سکتے ہیں. کیونکہ حالات چلنے اور دوڑنے کے موافق ہیں. لیکن اسی حکمت عملی کے ساتھ آپ کیچڑ زدہ کچی سڑک یا کیچڑ سے بھرے گڑھے میں ایک قدم بھی نہیں چل سکتے. کیونکہ موجودہ حالات اس حکمتِ عملی کے موافق نہیں ہیں. اور پھسلن زدہ کچی سڑک یا کیچڑ بھرے گڑھے سے نکلنے کیلئے ہاتھوں اور گھٹنوں کو چار پاؤں بنا کر نکلنے کی حکمت عملی نہایت کامیاب ہے. لیکن یہی حکمتِ عملی میٹل روڈ پر ناکام ہوجاتی ہے. ہاتھوں کی ہتھیلیاں اور گھٹنے چھلتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں. کیونکہ موجودہ حالات اس حکمتِ عملی کے موافق نہیں ہیں.
عین اسی طرح انسان کی داخلی و نفسیاتی کیفیات کا معاملہ ہے. زندگی کے ٹریک پر پھسلنا یا گرنا انہونا مسئلہ نہیں. زندگی کی راہ ہی ایسی ناہموار اور پُر پیچ ہے کہ اس پر چلنے والوں کا پھسلنا اور گرنا معمول کی بات ہے.
خود ترسی ایک ایسی کیفیت ہے، جو آپکو گھٹنوں کے بل چلنے پر مائل کرتی ہے. یہ کیفیت آپ کو اپنی نظر میں مظلوم بناتی ہے. یہ شخصیت کو کمزور کر کے تن آسانی سے سمجھوتہ کرنے پہ آمادہ کرتی ہے. تن آسانی کا یہ سمجھوتہ زندگی کا سفر گھٹنوں کے بل طے کرواتا ہے. رفتہ رفتہ گھٹنوں کے بل چلنا اسے اپنی فطرت کا خاصہ معلوم ہونےلگتا ہے. اور شیر بکری بن جاتا ہے. مگر انسان اس بدعملی کی ذمہ داری بھی قبول نہیں کرتا. بلکہ زندگی کی راہ پر اپنے قدموں پہ چلتے ہوئے دوسرے لوگوں کو الزام دیتا ہے. ان کا تیز چلنا اسے جرم لگتا ہے. انکا آگے بڑھ جانا اوجھل ہونا اسے خود پر ظلم لگتا ہے.
ہمیشہ گھٹنوں کے بل چلنا انسان کی فطرت نہیں. انسان اشرف المخلوقات ہے. اسے چلنے کے لیے دو پاؤں دے کر چوپایوں سے ممتاز کیا گیا ہے، اسے عقل سلیم دی گئی ہے. اسے تدبر کرنا سکھایا گیا. اور تدبر اسے درست قدم اور درست راہ پر درپیش حالات کے مطابق حکمتِ عملی سے چلنا سکھاتا ہے. دوستو! گرنا مسئلہ نہیں. گر کر نہ اُٹھنا مسئلہ ہے.
اے راہِ زندگی کے راہ گزارو! راہ چلتے منزل کے دھیان میں مگن اور اردگرد کے مناظر میں مشغول مسافرو! راستے کے نشیب وفراز پر بھی نظر رکھو. کہ ہمارا ہی کوئی ہم نفس اگر اس کشمکش سے دوچار ہو تو اسے سہارے کا ہاتھ دو، گو کہ اس کے لیے آپ کو چند لمحے رکنا پڑے گا مگر اس سے کسی گرے ہوئے کے اٹھنے کا مرحلہ آسان اور جلدی ہوگا. یہ عادت بنا لو، بے کار کے رسوم و رواج میں اس فائدہ مند رسم کو بھی شامل کر لو.. کہ زندگی کے اس سفر میں گرنا معمول ہے. آج آپ کسی کو سہارے کا ہاتھ دیتے ہیں. کل کوئی آپ کو سہارا دے گا.
تبصرہ لکھیے