تمہارے دادا بہت بڑے نواب تھے اور میرے دادا ان کے ہاری. تمہارے دادا نے میرے دادا سے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ ان کا ساتھ دیں تو انہیں وہ مل جائے گا جو وہ چاہتے ہیں: یعنی نظام مصطفی (صل اللہ علیہ و سلم). کیونکہ انگریز کے جانے کے بعد ہندو کبھی بھی یہ نہ ہونے دیتا، لہٰذا میرے دادا کو اور کیا چاہیے تھا. وہ فوراً مان گئے اور تن، من، دھن کے ساتھ تمہارے دادا کا ساتھ دیا. تمہارے دادا کی جماعت نے بڑی محنت کی اور انگریز سے اپنے لیے الگ ملک لینے میں کامیاب ہو گئے. میرے دادا بہت خوش تھے حالانکہ ان کے بہن بھائی یہاں ہجرت کرتے ہوئے شہید کر دیے گئے. پھر انہوں نے تمہارے دادا کو ان کا وعدہ یاد دلایا. وہ بولے اس پہ کام ہو رہا ہے. پھر تمہارے دادا نے خوشخبری سنائی کہ لو بھئی قرارداد مقاصد منظور ہو گئی ہے، اب اسلامی نظام بس آیا ہی سمجھو. میرے دادا پہلے تو حیران ہوئے کہ یہ تو سیدھی سی ’’انڈرسٹوڈ‘‘ بات تھی جو قرآن میں درج ہے، اس کو منظور کرنے کی بھلا کیا تُک؟ لیکن پھر سوچا کہ، ’’چلو ہوگی کوئی ’کاغذی کارروائی‘ جو مجھ میٹرک پاس کی سمجھ سے باہر ہو.‘‘
پھر میرے دادا بوڑھے اور بیمار ہو گئے پر میرے بابا کو بتا گئے کہ جس’’وعدے‘‘ کے لیے انہوں نے محنت کی تھی، وہ تمہارے دادا کو یاد دلاتے رہیں. اور یوں ایک دن وہ اپنی حسرت دل میں ہی لیے اپنے اللہ جی کے پاس چلے گئے. تمہارے دادا بھی اب آخری سانسیں گن رہے تھے. انہوں نے تمہارے بابا کو بلا کر اپنی لمبی چوڑی جاگیر کا حساب کتاب بتانا شروع کیا تو ظاہر ہے زمین کی طرح حساب بھی پھیلتا چلا گیا اور وہ وعدے والی بات کی نوبت ہی نہ آ سکی اور تمہارے دادا بھی چل بسے.
پھر جب میرے بابا نے تمہارے بابا کو وہ وعدہ یاد دلایا تو وہ بولے یہ اسلامی نظام ہی تو ہے. تمہیں نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور خاص طور پر گائے کی قربانی سے کوئی روکتا ہے؟ میرے بابا نے کچھ کہنا چاہا کہ عدالت میں ہمارا جو مقدمہ چل رہا ہے، اس کا فیصلہ تو اسی پرانے قانون کے تحت ہو رہا ہے پر تمہارے بابا بہت مصروف تھے. انہوں نے میرے بابا کی ایک نہ سنی اور انہیں چلتا کیا. پھر تمہارے بابا نے تمہیں پڑھنے کے لیے امریکا بھیج دیا اور میں یہاں ٹاٹ کے سکول میں پڑھنے لگا. تم ولایتی ڈگری لے کر آتے ہی اپنے بابا کی طرح وزیر بن گئے. میں نے بھی تھوڑی بہت محنت کر کے ڈاکٹری کر لی. میرے بابا نے مجھے یہ ساری کہانی سنائی اور کہا کہ اپنے حق سے پیچھے نہ ہٹوں اور تمہیں وہ وعدہ یاد دلاتا رہوں جو تمہارے دادا نے کیا تھا.
میں تم سے ملا اور یہ سب بتایا تو تم ہنس پڑے. تم نے کہا کہ تمہارے دادا نے میرے دادا کو بیوقوف بنایا تھا اور یہ کہ تمہارے اور میرے دادا کے لیڈر، قائداعظم تو سیکولر ملک چاہتے تھے، اسلامی نہیں. تم نے کہا کہ آج کی دنیا میں ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا. تم نے کہا کہ فکر نہ کرو ہم انسانوں کی اجتماعی عقل کے مطابق اس ملک کو ایک اچھا نظام دیںگے جیسا امریکا اور برطانیہ میں ہے. ہر مذہب والے کو اپنے مذہب پہ چلنے کی آزادی ہوگی لیکن کوئی اپنے مذہب کو ریاست اور دوسروں پر تھوپنے کی کوشش نہیں کر سکے گا.
پتہ نہیں تم ایسا کیوں کہہ رہے ہو؟
نہیں، نہیں، ہمارے قائد سیکولر نہ تھے،
وہ تو اسلام کی تجربہ گاہ چاہتے تھے،
قرارداد مقاصد والے بھی اسلام چاہتے تھے،
1973ء کی اسلامی دفعات بھی شرعی نظام کے لیے تھیں.
کیا کہا؟
میں بہت بھولا ہوں؟
تم ہی بتاؤ،
امریکا اور برطانیہ جیسا نظام ہی چاہیے تھا تو تمہارے دادا نے انہیں جانے ہی کیوں دیا؟
ان سے آزادی کیوں لی؟
ہندو سے بچنے کے لیے؟
لیکن وہ تو اب بھی ہماری پیٹھ میں چھرا گھونپ رہا ہے، ہمارے کشمیر پر قابض ہے، ہمارے دہشت گردوں کا پالنہار ہے.
پر تم کہتے ہو کہ ہمیں اسے نفرت نہیں پیار سے سمجھانا ہے،
دشمنی نہیں، دوستی کرنی ہے،
تجارت کرنی ہے، ثقافت کی باتیں کرنی ہیں.
تو اے میرے دوست،
کیا تم یہاں لبرل، سیکولر نظام چاہتے ہو؟
جہاں ہر شخص کو ہر چیز کی آزادی ہو،
طوائف کو چکلہ چلانے کی آزادی ہو،
سیٹھ اور بنک کو سود پہ قرض دینے کی آزادی ہو،
سینما میں فحش انگریزی، ہندی، اردو فلموں کی آزادی ہو،
پیروں کو سجدے کروانے کی آزادی ہو،
جادوگروں کو کالے علم کی آزادی ہو،
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی شان میں گستاخی کی آزادی ہو،
نئے نئے نبی بنانے کی آزادی ہو،
صحابہ کی تکفیر کی آزادی ہو،
اسلام کے خلاف بولنے کی آزادی ہو،
امریکی، بھارتی جاسوسوں کو ہر جگہ جانے کی آزادی ہو،
تو میرے بھائی ایسی ’’آزادی‘‘ تمہیں ہی مبارک ہو.
لیکن یاد رکھو،
جب تک میرے جیسوں کے گھر میں
’’اسلام کے لیے آزادی‘‘
کی یاد میں سبز ہلالی پرچم لہراتا رہے گا،
تمہارے جیسوں کی
’’اسلام سے آزادی‘‘
کا خواب کبھی پورا نہیں ہو گا.
تبصرہ لکھیے