ہوم << جشنِ آزادی اور ہم سب - مظفر بخاری

جشنِ آزادی اور ہم سب - مظفر بخاری

مظفر بخاری 14 اگست ہر سال پاکستان کے یومِ آزادی بلکہ جشنِ آزادی کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اگرچہ برطانوی راج کا سورج برِّصغیر میں چودہ اگست کی شام کو ہی غروب ہوا تھا۔ مگر پاکستان تو ہندوستان کی آزادی کے ساتھ پندرہ اگست کو معرضِ وجود میں آیا تھا۔ مگر کیا کیجیے صاحب، آخر ہمیں ہندوؤں سے کسی نہ کسی معاملے میں تو فرق رکھنا ہی تھا، سو وہ فرق رسوم و رواج میں نہ سہی تاریخِ یومِ آزادی میں ہی سہی۔ یا پھر طرزِحکمرانی میں ہی سہی، فرق تو ہم نے رکھا ہے اور فرق صاف ظاہر ہے۔
خیر یہ تو ایک جملہِ معترضہ تھا۔ واپس اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ تو صاحب جشنِ آزادی کی آمد آمد ہے۔ علی الصبح ہماری چاک و چوبند افواج 21 توپوں کی سلامی سے جشن کا آغاز کریں گی۔ پھر تو جناب ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں کے مصداق، قوم کے سب پیر و جواں، بچے بچیاں پاکستان کے جھنڈے اپنے مکانوں پر لہرائے اور جھنڈیاں اپنے ہاتھوں میں اٹھائے جشنِ آزادی پورے جوش و خروش سے منانے میں منہمک ہو جائیں گے۔ چہار سو سے مبارک سلامت کا غلغلہ بلند ہو گا۔ جناب وزیرِ اعظم اور سالارِ اعظم قوم سے خطاب فرمائیں گے اور پاکستانیوں کو مبارک باد دیتے ہوئے اس بات پر اطمینان کا اظہار کریں گے کہ دہشت گرودں کی کمر توڑ دی گئی ہے۔ مذید برآں اس عزم کا اعادہ کیا جائے گا کہ پاکستان کی طرف اٹھنے والی ہر آنکھ کو پھوڑ دیا جائے گا۔ ملک دشمن عناصر کا پاتال تک تعاقب کیا جائے گا، اور ملک کی خاطر کسی قسم کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کیا جائے گا۔ اور قوم اس بات پر دِل کی اتھاہ گہرائیوں سے شکریہ راحیل شریف کہے گی اور جشنِ آزادی میں دامے، درمے، قدمے، سخنے بلکہ سوشل میڈیا کے اس دور میں تو ٹوئٹرنے، فیس بکنے، اور واٹس ایپنے اپنا اپنا حصّہ بقدرِ جثہ ڈالے گی۔ گھر، گھر، گلی، گلی چراغاں ہو گا، بھنگڑے ڈالے جائیں گے۔ ہر طرف خوشیوں کے شادیانے بجائے جائیں گے۔
راولپنڈی اسلام آباد کے لوگ اپنی اپنی گاڑیوں میں مری، گلیات یا کاغان کا رخ کریں گے۔ گاڑیوں کے بونٹ یہ ڈکی پر سبز ہلالی پرچم سایہ فگن ہو گا۔ فل والیوم میں گاڑیوں کے ڈیکس پر بجنے والے، ہم زندہ قوم ہیں ۔ اس پرچم کے سائے تلے ۔ میرا ایمان پاکستان، اور یہ وطن ہمارا ہے، جیسے ولولہ انگیز ملّی نغموں کی گونج سے وطنِ عزیز کی فضائیں گونج رہی ہوں گی۔ یار لوگ جشنِ آزادی کی خوشی میں اتنے مگن ہوں گے کہ ٹریفک لینز کا خیال کرنا بھول جائیں گے اور یوں کئی کئی گھنٹوں تک مری جانے والی روڈ پر ٹریفک پھنسی رہے گی۔ مگر ایسا ہونے میں کیا حرج ہے۔ آخر کونسا آج کسی نے دفتر جانا ہے جو کوئی مسئلہ ہو گا۔
آخر کیوں نہ ہو کہ یہ دنیا کے اس واحد مسلمان ملک کا یومِ آزادی ہے جس کی بنیاد ایک نظریے پر رکھی گئی۔ اور یہی وہ ملک ہے جسے ہم اسلام کا قلعہ سمجھتے اور اس بات پر
تہہِ دل سے یقین رکھتے ہیں۔ ہمیں اس بات پر بھی فخر ہے کہ یہی وہ ملک ہے جس کا ہر فرد پورے عالمِ اسلام کا درد اپنے دل کے اندر محسوس کرتا ہے۔ ہم اس ملک کے باسی ہیں جِسے فلسطین، چچنیا، بوسنیا، افغانستان اور شام کے مسلمانوں کا درد ان سے زیادہ محسوس ہوتا ہے۔ اسی ملک کے ایک خفیہ ادارے نے دنیا کی دوسری بڑی سپر پاور کے حِصے بخرے ہونے میں بنیادی کردار ادا کیا، اور افغانستان میں روسیوں کو ذِلّت آمیز شکست اور پسپائی کا سامنا کرنے پر مجبور کیا۔ تو اِس عظیم الشّان ملک کا یومِ آزادی ہو، اور کوئی جشن برپا نہ ہو، ایسا ہو تو کیوں کر ہو؟
مگر کیا کیجیے صاحب کہ جوش و جذبے کے اس ہنگام میں بھی کچھ ناہنجار، مردودِ حرم، اور غدارِ وطن قسم کے لوگ عجیب و غریب اور نامعقول قسم کے سوالات اٹھا رہے ہیں۔ ذرا دیکھو تو بھلا، یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے کہ او حکمرانو، ایک طرف تو تمہیں ملک سے محبت کا ایسا دعوی کہ گویا تم سے بڑا محبِّ وطن روئے زمیں پر نہیں، اور دوسری طرف کرپشن کے میگا سکینڈلز سے کی جانے والی کمائی سے پوری دنیا میں اپنے ذاتی اثاثے پھیلا رکھے ہیں۔ یہاں ٹیکس یا تو دیتے ہی نہیں یا پھر اربوں کھربوں کی جائیداد پر فقط ہزاروں روپے کا ٹیکس دیتے ہو، اور ٹیکس چوری سے بچائی جانے والی دولت سے آف شور کمپنیاں قائم کرتے ہو، سرے محل خریدتے ہو، لندن کے مہنگے ترین علاقے ایجور روڈ پر فلیٹس کے مالک بنتے ہو۔ اے جرنیلو، تمہارے پاس اتنا پیسا کہاں سے آتا ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد کروڑوں کی مالیت کے ذاتی گھر اور فارم ہاؤسز بناتے ہو؟ اتنی دولت کہاں سے آئی کہ تمہارے بچے اربوں کا بزنس کرتے ہیں؟ ایسا کیوں ہے کہ تم لوگ ہر طرح کا کاروبار کرتے ہو۔ کیوں تمہارے ادارے کے نام کے ساتھ انکارپوریٹڈ کا لفظ ایک دشنام کی طرح استعمال ہوتا ہے۔ ایسا کیوں ہے کہ مشرقی پاکستان الگ ہو گیا، سیاچین گلیشیر ہاتھ سے گنوا دیا اور کسی کے اعتراض کرنے پر اس وقت کے سالارِاعلی نے بیان دیا کہ سیاچین اگر چلا گیا تو کیا ہوا، وہاں تو گھاس کا پتہ بھی نہیں اگتا۔ کیوں فاؤنڈیشن کے نام سے پاکستان کا سب سے بڑا کاروباری گروپ بنا کر ہر طرح کا کاروبار کر رہے ہو۔ بینکنگ، رئیل اسٹیٹ، کیمیکلز، پاور پروڈکشن، سیمنٹ، گندم، غرض یہ کہ ہر کام میں تم نے ہاتھ ڈال رکھا ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے کہ دنیا کی نمبر ون انٹیلیجنس ایجنسی کے ملک میں دہشت گرد اتنے طاقتور ہو گئے کہ وہ ایس ایس جی، نیوی، اور فضائیہ کی تنصیبات پر حملہ آور ہوتے رہے۔ یہاں تک کہ جی ایچ کیو تک ان کی دست برد سے محفوظ نہ تھا. دہشت گردوں نے جب، جہاں، جیسے دِل چاہا، حملہ کیا۔ جیلوں سے اپنے ساتھیوں کو چھڑانے کے لیے سو سو لوگوں کی بارات لے کرآتے تھے، اور بڑے آرام سے اپنے مطلوبہ افراد کو دولہے کی طرح جیل سے رخصت کرا کے لے جاتے۔ اور اس تمام واقعے کی بڑے آرام اور سکون کے ساتھ وڈیو بنا کر ہم عوام کی تفریحِ طبع کے لئے سوشل میڈیا پر ریلیز بھی کر دیتے تھے۔
ہمارے کان یہ سن سن کر پک گئے کہ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے، مگر کوئٹہ کا حالیہ سانحہ جس میں لگ بھگ سو معصوم اور بے گناہ افراد لقمہِ اجل بنے، اور سینکڑوں زخمی ہوئے، اس دعوے کی قلعی کھول کے رکھ دیتا ہے۔ کیا ان لوگوں کا لہو اتنا ہی سستا ہے کہ ہم ان کی قبروں کی مٹی خشک ہونے سے پہلے ہی جشن منانے کے لئے بے تاب و بے قرار ہو رہے ہیں؟
اب آپ یہ ایمان سے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیا ایسے سوالات کا کوئی سر پیر بھی ہے؟ ایسے سوالات جن کے جوابات دینے والا سیدھا سیدھا تحفّظِ پاکستان آرڈیننس جیسے قوانین کے گرفت میں آ جائے۔ ایسے عاقبت نااندیشہ، خِرد سے بے بہرہ، اور اغیار کی سازشوں کے تارِ عنکبوت میں گرِفتار لوگ، حکومتی عہدےداروں اور ریاست کے دفاعی اداروں پر ہی سوال کناں نہیں، بلکہ وہ تو عام شہری سے بھی سوال کرنے سے باز نہیں آتے۔ کہتے ہیں کہ تمہاری وطن کی محبت اس وقت کہاں سو رہی ہوتی ہے جب تماپنے ذاتی مفادات کے لئے ملک کا نقصان کرنے سے باز نہیں آتے۔ ٹیکس چراتے ہو، ملکی قوانین کا احترام نہیں کرتے، رشوت لینا اور دینا تمہارے لئے معمول کی بات ہے۔ اپنے گھر کا گند نکال کر باہر گلی میں پھینک دیتے ہو، جیسے کہ گلی کسی دشمن ملک کا علاقہ ہو، اسی ملک کا حِصّہ نہیں۔ اپنے سیاحتی علاقوں میں جاتے ہو تو وہاں کا قدری حسن بھی اپنے گند پھیلانے والی عادت کے ہاتھوں مجبور ہو کرتباہ کر آتے ہو۔ سیف الملوک اور لولو سر کی جھیلیں بہ زبانِ خاموشی کب سے تمہاری لاپرواہی اور غیر ذمہدارانہ حرکتوں کا نوحہ پڑھ رہیں ہیں مگر ان کی سنتا کون ہے؟ تم اس ملک سے صرف اپنے لئے شہریوں والے حقوق مانگتے ہو مگر شہری ہونے کے ناطے جو فرائض تم پر عائد ہوتے ہیں ان کا کوئی خیال تک تمہیں نہیں آتا۔ بجلی چوری تم کرتے ہو، اشیائے خوردونوش میں زہریلے کیمیکلز کا استعمال تم کرتے ہو، مردار جانوروں کا گوشت اپنے ہی دینی بھائیوں کو بیچ دیتے ہو، زندگی بچانے والی ادویات تک میں ملاوٹ کرنے سے باز نہیں آتے، اور پھر دعوی کرے ہو ملک سے محبت کا؟ ایسے ہوتی ہے ملک سے محبت؟
اب ان ذہنی بیمار، قنوطیت کا شکار، انتہائی بے کار قسم کے لوگوں سے کوئی یہ تو پوچھے کہ بھائی تمہارا مسئلہ کیا ہے؟ تمہاری آنکھوں میں حکمرانوں کے سرے محل، اور لندن میں فلیٹس یا آف شور کمپنیاں کیوں کھٹکتے ہیں؟ اب سرے محل والوں کو ہی لے لو، ان کی اس ملک کے لیے قربانیوں کا کوئی اندازہ ہے؟ باپ نے ایک آمر کے آگے جھکنے سے انکار کر دیا اور پھانسی کا تختہ اس کا مقدر بنا اور بیٹی نے دوسرے آمر کی دھمکیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے جمہوریت کی بحالی یینی پیپلز پارٹی کی حکومت کے قیام کی کوششوں میں جان جانِ آفرین کے سپرد کر دی۔ ان کی ایسی قربانیوں کا صلہ تم اس طرح کے سوالات کر کے دو گے، دو ٹکے کے احسان فراموش لوگو۔ آف شور کمپنیوں والوں کی دولت سے جلنے والو، ذرا ایک لمحے کے لیے دل پر ہاتھ رکھ کر پوری ایمانداری اور سچائی سے کہو، کہ اگر تمہیں موقع ملے تو کیا تم کرپشن سے یا ٹیکس چوری کر کے پیسا نہیں بناؤ گے؟ بناؤ گے نا، تو پھر اگر آف شور کمپنیوں والوں نے بنا لیا تو کون سی قیامت ٹوٹ پڑی؟ کیوں آپ کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں؟ ارے بابا اس ملک میں ایماندار وہی ہے جِسے بے ایمانی کے مواقع میّسر نہیں۔ ورنہ
حال وہی ہے کہ:
ہم ہوئے، تم ہوئے کہ میر ہوئے
ان کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے
تو جناب آئیے ہم سب مل کر اپنے پیارے وطن کا جشنِ آزادی منائیں۔ بھول جائیں کہ چند دن قبل کوئٹہ اور اہلِ کوئٹہ پر کیا قیامت ٹوٹی، اور ہاں، اس بات سے ہمارا کیا واسطہ کہ ہندوستانی مقبوضہ وادیِ کشمیر میں گزشتہ چھتیس دن سے مسلسل کرفیو نافذ ہے اور اس دوران درجنوں لوگ شہید کئے جا چکے ہیں، کوئی دو ہزار کے قریب شہری زخمی ہوئے ہسپتالوں میں پڑے ہیں، پوری وادی میں انٹرنیٹ اور مواصلات کے دیگر ذرائع حکومت نے بند کر رکھے ہیں، مگر اس بات سے ہمیں کیا لینا دینا۔ آخر یہ سب ہم تو نہیں کر رہے۔ ہم ان کے غم میں اپنا جشنِ آزادی کیوں برباد کریں۔
آئیے جھنڈے اُٹھائیں ، آزادی کے ترانے گائیں اور اپنے ضمیر کی قید سے آزاد، بلکہ مادر پِدر آزاد ہونے کا جشن منائیں۔

Comments

Click here to post a comment