ہوم << "ارتکاز" از نوید صادق - پروفیسر محمد اکبر خان اکبر

"ارتکاز" از نوید صادق - پروفیسر محمد اکبر خان اکبر

"ارتکاز" نوید صادق کا ایک اہم تنقیدی مجموعہ ہے جس میں اردو غزل اور شاعری پر 17 فکر انگیز مضامین شامل ہیں۔ یہ کتاب نہ صرف جدید غزل کے فنی و فکری پہلوؤں کو اجاگر کرتی ہے بلکہ متعدد اہم شعرا کے کلاسیکی کلام کا گہرائی سے جائزہ بھی لیتی ہے۔ نوید صادق نے اپنے تنقیدی اسلوب میں معروضیت، فکری گہرائی اور ادبی رچاؤ حسن و خوبی کو برقرار رکھا ہے، جس کی وجہ سے یہ کتاب معاصر ادبی تنقید میں ایک اہم اضافہ قرار دی جاتی ہے۔

نوید صادق نے اس کتاب میں شعر و ادب کے تکنیکی پہلوؤں پر گفتگو کرتے ہوئے بھی زبان کی سادگی اور روانی کو برقرار رکھا ہے۔ ان کے تبصرے محض تعریفی یا تنقیدی نہیں، بلکہ تجزیاتی ہیں، جس میں شعرا کے اسلوب، موضوعات اور لفظیات کی معنویت کو پرکھا گیا ہے۔ کتاب میں شامل مضامین میں منیر نیازی، خالد احمد، اعجاز گل، خالد علیم، بانی اور شفیق سلیمی جیسے شعرا کی غزلوں اور شاعری کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔

نوید صادق نے منیر نیازی کی غزل کو جدید اردو شاعری کی ایک اہم کڑی قرار دیا ہے. وہ لکھتے ہیں کہ "منیر نیازی کے ہاں محبوب کے حوالے سے ایک اثر پذیری کی کیفیت نظر آتی ہے، انسان اپنے گردو پیش میں موجود اچھی اور خوبصورت چیزوں سے اثر لیتا ہے، ان کی طرف مائل ہوتا ہے"

خالد احمد کی شاعری میں جذبات کی شدت اور فکری بلندی کو سراہا ہے۔ وہ کہتے ہیں" خالد احمد کی زندگی کے مختلف انداز، گفتگو کے نت نئے رنگ ان کی شاعری کو متنوع بناتے ہیں ان کا علم ان کے مشاہدات ان کی حساس طبیعت نے ہر اس محاذ پر طبع آزمائی کی جو انہیں زندگی کے کی مختلف منازل میں پیش آئے، رومانویت اپنی پوری سچائی سے ان کے اشعار میں منعکس ہے."

اعجاز گل کی شاعری کو جدید غزل کے حوالے سے ایک اہم نام قرار دیتے ہوئے ان کے کلام میں پائی جانے والی سادگی اور گہرائی کو نمایاں کرتے ہوئے کہتے ہیں: " اعجاز گل کی شاعری میں بھی ارد گرد کی زندگی اپنی پوری توانائی سے در آئی ہے، اپنے ارد گرد پھیلے انسانوں کے مسائل ان کے غم ان کی خوشیاں اعجاز کے اہم موضوعات ہیں، ان کے ہاں عصری شعور کی ترجمانی بھرپور طور پر موجود ہے."

خالد علیم کی غزل میں لفظی چابکدستی اور معنوی تہہ داری کو اجاگر کیا گیا ہے. وہ رقم طراز ہیں: " خالد علیم کے ہاں ایک قسم کی تمکنت ٹھہراؤ اور ہلکا ہلکا درد محسوس کیا جا سکتا ہے، اور کہیں کہیں تو یہ درد، درد نہیں رہتا کہ کیف کی ایک لہر بھی پہلو بہ پہلو انگڑائیاں لینے لگتی ہے، یوں ایک نشاط آمیز کسک قاری کے دھیان کے پردوں پر دستک دینا شروع کر دیتی ہے".

بانی کی شاعری کو روایتی غزل کے جدید انداز میں ڈھلنے کی مثال قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں:" بانی خوب سمجھتے ہیں کہ انسان کو دوسرے انسانوں کی ضرورت کس کارن ہے، لیکن انسان سے انسان کا رشتہ اتنا آسان نہیں ہے جتنا عموما سمجھا جاتا ہے. سماجیات کے ماہرین انسانی رشتوں کو ایک پیچیدہ اور مشکل عمل گردانتے ہیں بانی کے ہاں انسانی رشتوں کی پیچیدگیاں اور بھول بھلیاں جا بجا شعر کا روپ دھارتی نظر اتی ہیں وہ معاشرتی رشتوں میں مثالیے کی تلاش میں سرگرداں نظر آتے ہیں.''

شفیق سلیمی کی غزل میں سماجی شعور اور فرد کی داخلی کیفیات کے امتزاج کو سراہنے کے تاثر بارے لکھتے ہیں: " شفیق سلیمی کے ہاں تمام مصیبتیں جھیل لینے کے بعد ایک شادمانی کا احساس نظر آتا ہے اور انہیں خیال گزرتا ہے کہ جو ہوا جیسا ہوا اچھا نہ تھا تو اتنا برا بھی نہ تھا، اس تلخیوں بھرے دور نے جہاں بہت کچھ چھین لیا وہاں بہت کچھ دیا بھی یہ اور بات کہ اہل نازک ظاہر کے نزدیک اس حاصل کی کوئی اہمیت نہیں."

"ارتکاز" اردو تنقید کی ایک معیاری کتاب ہے جو نہ صرف شعرا کے کلام کا گہرائی سے جائزہ لیتی ہے بلکہ قاری کو جدید غزل کے فکری و فنی محاسن سے بھی روشناس کراتی ہے۔ نوید صادق کا تنقیدی اسلوب غیر جانبدارانہ اور تحقیقی ہے، جس کی وجہ سے یہ کتاب ادب کے طلبا، نقادوں اور عام قارئین کے لیے یکساں مفید ہے۔

بطور مجموعی، "ارتکاز" اردو تنقید میں ایک قابلِ قدر اضافہ ہے۔ نوید صادق نے اپنے تحقیقی و تنقیدی مضامین کے ذریعے نہ صرف شعرا کے کلام کی تفہیم و معنی آفرینی واضح کی ہے بلکہ ادبی تنقید کے معیار کو بھی بلند کیا ہے۔ یہ کتاب ان تمام قارئین کے لیے قابل مطالعہ ہے جو جدید اردو شاعری اور تنقید میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

Comments

Click here to post a comment