تعارف:
یہ کتاب بیت المقدس کی اہمیت اور فضیلت پر لکھی گئی ہے۔ بیت المقدس سے متعلق واقعات اور تاریخ کو نہایت خوبصورت انداز میں بیان کیا گیا ہے، جسے ایک عام قاری بھی آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔ حتیٰ کہ جو شخص تاریخ کا الف، ب بھی نہیں جانتا، وہ بھی اس کتاب کو پڑھنے کے بعد اس قابل ہو جاتا ہے کہ بیت المقدس سے متعلق بات چیت کر سکے۔
کتاب کا خلاصہ:
کتاب میں ارضِ مقدس کی برکات اور فضائل کو بڑی وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔ اس مقدس سرزمین کو کئی انبیائے کرام علیہم السلام نے اپنا مسکن بنایا۔ یہ فرشتوں کی عبادت گاہ رہی ہے۔ قیامت کے روز یہیں سے حضرت اسرافیل علیہ السلام صور پھونکیں گے اور مردوں کو جزا و سزا کے لیے قبروں سے زندہ کیا جائے گا۔ انبیائے کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین مشرکین کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر یہاں آ کر قیام کرتے تھے۔ یہ زمین مجاہدین کی جائے قیام رہی ہے، اور ہمیشہ رہے گی، کیونکہ یہ مقدس سرزمین ہے اور اس کا دفاع ہر مسلمان پر فرض ہے۔ قبۃ الصخرہ اسی سرزمین پر واقع ہے، جہاں سے حضرت اسرافیل علیہ السلام صور پھونکیں گے۔
یہودیوں کا کہنا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو اس زمین میں داخل ہونے کا حکم دیا تھا، اس لیے ان کے مطابق اس پر ان کا حق ہے۔ عیسائی اس پر اس وجہ سے دعویٰ کرتے ہیں کہ یہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش، پرورش، تبلیغ اور مصلوب ہونے کے واقعات پیش آئے۔ جبکہ مسلمان اس زمین کو اس لیے مقدس سمجھتے ہیں کہ اس کا ذکر قرآن پاک میں آیا ہے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مقام پر تمام انبیاء کی امامت فرمائی۔ آخری نبوت کے ظہور کے بعد تمام سابقہ شریعتیں منسوخ ہوئیں اور نبی آخر الزماں کی شریعت کو دائمی قرار دیا گیا، اس لیے اس سرزمین پر صرف انہی لوگوں کا حق ہے جو اللہ کے احکامات پر عمل پیرا ہوں۔
ارضِ مقدس مسلمانوں کا قبلۂ اول ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت سے قبل بیت اللہ اور بیت المقدس دونوں کی طرف رُخ کر کے نماز ادا فرمائی۔ ہجرت کے بعد چند ماہ میں قبلہ کی تبدیلی کا حکم نازل ہوا اور بیت اللہ شریف کو قبلہ قرار دیا گیا۔
بیت المقدس، سفرِ معراج کے دوران، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقامِ قیام بھی رہا۔ یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام انبیاء کی امامت فرمائی۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیت المقدس کو فتح کیا۔ اس وقت وہاں کے پادریوں کی کتابوں میں یہ ذکر موجود تھا کہ ایک "عمر" نامی شخص اس شہر کو فتح کرے گا، اس لیے زیادہ مزاحمت نہیں کی گئی اور پرامن طور پر اقتدار حوالے کر دیا گیا۔
ارضِ مقدس کو فتح کرنے کے بعد ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اس کی حفاظت کریں — انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی۔ اب ہم پر فرض ہے کہ تمام مسلمان متحد ہوں اور دشمنانِ اسلام کا ڈٹ کر مقابلہ کریں۔ جب ہم مسلسل جدوجہد کرتے رہیں گے تو اللہ تعالیٰ اپنی نصرت و مدد ضرور نازل فرمائے گا۔
تجزیہ:
اختصار اور جامعیت کی وجہ سے یہ کتاب پڑھنے اور سمجھنے میں نہایت آسان اور دلچسپ ہے۔ اسلامی تاریخ کو موقع بہ موقع نہایت مؤثر انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ موجودہ دور کی اسلامی اقوام کی کمزوریوں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے، اور لائحہ عمل کے حوالے سے قاری کے دل و دماغ میں بات کو مؤثر انداز سے بٹھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ہر بات اور واقعے کو قرآن و حدیث کی روشنی میں مدلل طریقے سے بیان کیا گیا ہے۔
مثبت و منفی پہلو:
کتاب میں جامعیت اور عام فہم زبان استعمال کی گئی ہے، اس لیے ہر قاری اسے بآسانی سمجھ سکتا ہے۔ عنوانات کی ترتیب اس انداز میں ہے کہ واقعات ذہن نشین کرنے میں سہولت ہوتی ہے۔ اس کتاب میں کوئی ایسی خامی محسوس نہیں ہوئی جسے بہتر بنانے کی ضرورت ہو۔
نتیجہ:
یہ کتاب دین کا علم رکھنے والوں اور عام افراد دونوں کے لیے یکساں مفید اور علم افزا ہے۔ ایسے لوگ جو صرف بیت المقدس کے نام سے واقف ہیں اور اس کی تفصیلی تاریخ سے ناواقف ہیں، اُن کے لیے یہ کتاب ایک قیمتی ذریعہ ہے۔ اس کتاب کے مطالعے کے بعد وہ اس قابل ہو جائیں گے کہ کسی کے ساتھ اس موضوع پر ایک بامقصد اور مثبت گفتگو کر سکیں۔ اور ممکن ہے کہ اگر آپ تاریخِ اسلام پڑھنے کا شوق نہیں رکھتے تھے تو اس کتاب کے بعد آپ کا ذوق بیدار ہو جائے، اور آپ مزید اسلامی و دینی تاریخ پڑھنے کے لیے بےتاب ہو جائیں۔
تبصرہ لکھیے