ہوم << جب رشتے ترجیح نہیں، سہولت بن جائیں - رانا عثمان راجپوت

جب رشتے ترجیح نہیں، سہولت بن جائیں - رانا عثمان راجپوت

رشتے ہمیشہ لفظوں سے نہیں، رویوں سے پہچانے جاتے ہیں۔ محبت، چاہے وہ دوستی میں ہو یا کسی اور تعلق میں، ہمیشہ برابری کا تقاضا کرتی ہے۔ لیکن جب ایک تعلق میں صرف ایک شخص دینے والا ہو اور دوسرا لینے والا، جب ایک ہمیشہ انتظار کرتا رہے اور دوسرا اپنی ترجیحات میں کہیں اور مصروف ہو، تو ایک نہ ایک دن دل خاموش ہو جاتا ہے۔ وہ دھیرے دھیرے پیچھے ہٹنے لگتا ہے، کیونکہ وہ جان لیتا ہے کہ جسے وہ اپنی دنیا سمجھتا تھا، وہ حقیقت میں کبھی اس کی دنیا کا حصہ تھا ہی نہیں۔

یہ سمجھنے میں وقت لگتا ہے کہ کسی کے لیے اہم ہونے اور کسی کے لیے محض ایک سہولت ہونے میں کتنا بڑا فرق ہوتا ہے۔ اہم وہ ہوتا ہے جس کی رائے سب سے پہلے لی جائے، جس کی موجودگی سب سے پہلے محسوس کی جائے، اور جس کے بغیر کچھ ادھورا سا لگے۔ لیکن سہولت وہ ہوتا ہے جسے تب یاد کیا جائے جب باقی سب دروازے بند ہو چکے ہوں، جس کی رائے محض ایک رسمی کارروائی ہو، اور جس کے ہونے یا نہ ہونے سے کسی کو فرق نہ پڑے۔

چھوٹے چھوٹے رویے، بڑے فاصلے
رشتے ایک دم نہیں ٹوٹتے، بلکہ آہستہ آہستہ زوال پذیر ہوتے ہیں۔ کسی کو دیر سے یاد کرنا، کسی کی بات کو نظر انداز کرنا، کسی کی رائے کو غیر ضروری سمجھنایہ سب چیزیں کسی کو ایک ہی دن میں دور نہیں کرتیں، لیکن بار بار ایسا ہونے سے وہ شخص آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنے لگتا ہے۔ کوئی بھی ہمیشہ دوسرا انتخاب بن کر نہیں رہ سکتا۔ کوئی بھی ہمیشہ آخری لمحے میں یاد کیے جانے کی اذیت کو برداشت نہیں کر سکتا۔ کوئی بھی ہمیشہ اپنی رائے کو بے وزن محسوس کرکے نہیں جی سکتا۔ یہی وہ رویے ہوتے ہیں جو کسی گہرے تعلق کو بھی سطحی بنا دیتے ہیں، جو بے تکلفی کو رسمی جملوں میں بدل دیتے ہیں، اور جو محبت کو محض ایک عادت بنا دیتے ہیں۔ سب سے زیادہ تکلیف دہ لمحہ تب آتا ہے جب آپ دیکھتے ہیں کہ جس نے آپ کو نظر انداز کیا، وہی کسی اور کو وہ اہمیت دے رہا ہے جس کی آپ نے ہمیشہ خواہش کی تھی۔ وہی جو آپ کی رائے کو غیر ضروری سمجھتا تھا، وہ کسی اور کی بات کو سب سے پہلے سنتا ہے۔ وہی جو آپ کو آخری لمحے میں یاد کرتا تھا، وہ کسی اور سے سب سے پہلے مشورہ کرتا ہے۔

جب باتیں چھپنے لگیں
پھر وہ وقت آتا ہے جب انسان وہ باتیں کہنے سے گریز کرنے لگتا ہے جو پہلے سب سے پہلے کہتا تھا۔ جب دل کی الجھنیں خود میں رکھنے کی عادت بننے لگتی ہے۔ پہلے جو باتیں بلا جھجک کہہ دی جاتی تھیں، وہ اب کسی گہری سوچ کے پردے میں دبنے لگتی ہیں۔ تعلق میں خاموشیاں بڑھنے لگتی ہیں۔ پہلے جو ہر بات پر بے تکلف ہنسی مذاق ہوتا تھا، وہاں اب رسمی جملے رہ جاتے ہیں۔ پہلے جو ہر چھوٹی بڑی چیز شیئر کی جاتی تھی، وہ اب دل کے کسی کونے میں دفن ہو جاتی ہے۔ اور یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب انسان کسی تعلق میں ہوتے ہوئے بھی خود کو اکیلا محسوس کرنے لگتا ہے۔

یہ رویہ کیوں اپنایا جاتا ہے؟
بعض اوقات لوگ جان بوجھ کر نہیں بلکہ لاشعوری طور پر یہ رویہ اختیار کرتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ جس کا ساتھ ہمیشہ رہا ہے، وہ کہیں نہیں جائے گا۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ ہر انسان کے جذبات ہوتے ہیں، اور وہ ایک مشین نہیں جو صرف برداشت کرتا رہے۔ لوگ اکثر دوسروں کی اہمیت اس وقت پہچانتے ہیں جب وہ انہیں کھو دیتے ہیں۔ کبھی کبھی، ترجیحات کا فرق بھی اس کا سبب بن سکتا ہے۔ جب ایک شخص دوسرے کو اپنی دنیا کا لازمی حصہ سمجھتا ہے، لیکن دوسرا شخص اسے صرف ایک "دوستوں میں سے ایک دوست" کے درجے پر رکھتا ہے، تبھی یہ ناانصافی بڑھتی ہے۔

پھر فاصلے بڑھنے لگتے ہیں
یہی وہ مقام ہوتا ہے جہاں رابطے کم ہونے لگتے ہیں۔ باتیں محدود ہونے لگتی ہیں، وقت کم ملنے لگتا ہے، اور ایک ایسا خلا پیدا ہو جاتا ہے جو آہستہ آہستہ مزید گہرا ہوتا چلا جاتا ہے۔ اور پھر ایک دن، تعلق صرف ایک نام بن کر رہ جاتا ہے۔ وہ تعلق جو کبھی مضبوط تھا، اب بس ایک رسمی سا رشتہ بن جاتا ہے۔ وہ محبت جو کبھی سب سے بڑی حقیقت تھی، اب محض ایک پرانی یاد بن جاتی ہے۔

یہ سب رک سکتا ہےمگر کیسے؟
یہ سب رک سکتا ہے، اگر ہم وقت پر سمجھ جائیں کہ تعلقات میں ترجیح دینا کتنا ضروری ہے۔ اگر ہم یہ جان لیں کہ کسی کو آخر میں یاد کرنا، کسی کی رائے کو محض ایک رسمی چیز سمجھنا، یا کسی کی موجودگی کو معمولی جاننا، صرف ایک لمحے کی بے دھیانی نہیں ہوتی، بلکہ یہ وہ رویہ ہوتا ہے جو آہستہ آہستہ ایک مضبوط رشتے کو ختم کر دیتا ہے۔ ہمیں دوسروں کے جذبات کی قدر کرنی چاہیے۔ کبھی کبھی کسی کو وقت پر اہمیت دینا، کسی کی رائے کو سراہنا، اور کسی کی بات کو غور سے سننا وہی چیزیں ہوتی ہیں جو رشتوں کو زندہ رکھتی ہیں۔ کیونکہ رشتے صرف موجودگی سے نہیں چلتے، بلکہ احساس سے چلتے ہیں۔

اور پھر کیا ہوتا ہے؟
پھر ایک دن وہ شخص جو پہلے سب کچھ کہہ دیا کرتا تھا، وہ کچھ بھی کہنے سے پہلے کئی بار سوچنے لگتا ہے۔ جو پہلے دل کی ہر بات بے جھجک کہتا تھا، وہ اب خاموشی کو ترجیح دینے لگتا ہے۔ اور جب یہ خاموشی معمول بن جاتی ہے، تو پھر رشتے صرف رسمی جملوں تک محدود ہو جاتے ہیں۔
”کیونکہ جب دل باتیں چھپانے لگے، تو سمجھ لینا چاہیے کہ رشتہ اپنی اصل کھو رہا ہے۔ “ رابطے کم ہوتے ہیں، احساسات دھندلا جاتے ہیں، اور آخر میں وہی بچتا ہے جو ہمیشہ سے حقیقت تھی یعنی، جو سب سے پہلے یاد نہ آئے، وہ حقیقت میں کبھی بھی ترجیح نہیں تھا۔ "جو سب سے پہلے یاد نہ آئے، وہ حقیقت میں کبھی بھی ترجیح نہیں تھا۔"

Comments

Avatar photo

رانا عثمان راجپوت

رانا عثمان راجپوت وفاقی اردو یونیورسٹی برائے فنون، سائنس و ٹیکنالوجی اسلام آباد میں بین الاقوامی تعلقات کے طالب علم ہیں، اور تخلیقی ادب میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ شاعری، کہانی نویسی اور تحقیق کا شوق ہے۔ بین الاقوامی سیاست اور عالمی امور پر نظر رکھتے ہیں۔

Click here to post a comment