کیا ہم دلیل پر اپنی زندگی بسر کرسکتے ہیں؟ ہر ذی شعور آدمی تسلیم کرے گا کہ یہ ممکن نہیں کیونکہ دلیل اس انسانی عقل کی ضمنی پیداوار ہے جس نے پچھلے چند ہزار سالوں میں تہذیبی ارتقا میں اپنا حصہ ڈالنا شروع کیا ہے۔ اس کے برعکس آج بھی ہمارے وجود کا بیشتر حصہ ان جبلتوں کے زیر اثر رہتا ہے جن کی تشکیل میں لاکھوں سال لگے ہیں۔ عقل کا مقصد وجود تو یہ ہے کہ ان جبلتوں کو اپنے قابو میں رکھے لیکن حقیقی دنیا میں یہ سرکش قوتیں الٹا عقل کو ہی اپنی تسکین کا ذریعہ بنا لیتی ہیں۔ یہ ایک اہم پہلو ہے جسےذہن میں رکھنا اشد ضروری ہے۔ ہر لکھاری کو ہمہ وقت یہ تجزیہ کرتے رہنا چاہیے کہ وہ دلیل کا استعمال واقعی کسی بڑے مقصد کے لیے کر رہا ہے یا پھر اسے اپنی کسی ایک اچھی دلیل کے اجزا کیا ہوتے ہیں؟ اس اہم سوال کے تکنیکی پہلو تو منطق کے دلدادہ اصحاب بتا سکتے ہیں۔ میں تو بس اتنا جانتا ہوں کہ دلیل مکالمے کا ایک حصہ ہے جبکہ مکالمہ کسی بڑے آدرش کا ایک اہم جزو۔ جب کوئی بڑا مقصد سامنے ہو تو بعض اوقات ایسے مواقع بھی آ جاتے ہیں کہ اپنی بہترین دلیل کو قربا ن کرنا پڑ جاتا ہے۔ جو لوگ دلیل کو تلوار کی طرح چلاتے ہیں وہ آخرکار نامراد ہی ٹھہرتے ہیں کیونکہ مباحثہ جیتنا کبھی بھی مقصود نہیں ہوتا بلکہ انسانوں کو جیتنا ہی حقیقی مطمح نظر ہونا چا ہیے۔
مکالمے اور دلیل کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ ان کا مقصد لوگوں کو اپنے نکتہ نظر کا قائل کرنا ہے۔ تاہم ایک اس سے بھی برتر نظریہ موجود ہے اور وہ یہ کہ مکالمہ مل جل کر کسی نتیجے پر پہنچنے کا نام ہے ۔ دونوں طرف کے دلائل باہوں میں باہیں ڈال کر فکر کی ناہموار پگڈنڈیوں پر ایک دوسرے کو سہارا دیتے ایک ایسی منزل کی تلاش کرتے ہیں جو نظروں سے اوجھل ہے۔ تاہم اکثر یوں ہوتا ہے کہ ہم نظریات کو اپنی انا کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں اور نتیجتاً اس برترمقصد کو بھلا دیتے ہیں۔ یہیں سے دلیل کی تذلیل کا رستہ کھلتا ہے اور انسان کے عقلی وجود پر اس کا جذباتی وجود غالب آ جاتا ہے ۔ اسی کمزوری کے باعث ہمارے مباحث عموماً تلخی میں ختم ہوتے ہیں۔ ذہنی ارتقا کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی رائے میں غلطی کے امکان کو ہمیشہ یاد رکھیں اور اگر کسی وقت دلیل کی کمزوری واضح ہوجائے تو اسے تسلیم کرنے میں پس و پیش سے کام نہ لیں۔
دلیل کا ایک تو مواد ہوتا ہے اور دوسرا اسلوب۔ بہترین مواد پر مشتمل اور منطق کے زیور سے آراستہ دلیل بھی ناکام ہو جاتی ہے اگر اسے منزل کی جانب روانہ کرنے سے پہلےعجز کا لباس نہ پہنایا جائے۔ تحریر و تقریر میں تکبر مکالمے کی روح کو کچل ڈالتا ہے۔ بات میں غیر معمولی تیقن جس سے دھمکی کی بو آنے لگے، اسی تکبر کا شاخسانہ ہے۔ مواد کو ہمیشہ خوبصورت لفظوں کی پیکنگ میں لپیٹنا لازم ہے۔ اور اس پیکنگ سے اخلاص کی خوشبو کا پھوٹنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ دلیل کا مضبوط ہونا.
ہر دلیل جب آپ کے ذہن میں اپنے تشکیلی مراحل سے گزر رہی ہوتی ہے تو اس کا ایک بنیادی محرک وہ فرد ہوتا ہے جو اس دلیل کا مخاطب ہے۔ بہت سی تحریروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ جب دلائل کی پوری نگری ذہن میں آباد ہو رہی تھی تو بظاہر مخاطب وہ لوگ تھے جو آپکے نکتہ نظر سے اختلاف رکھتے تھے مگر اندر ہی اندر واہ واہ کی تمنا نے اس کا رخ ان لوگوں کی جانب موڑ دیا جو پہلے ہی آپ کے ہمنوا تھے۔ جب اپنا ہی قبیلہ دلیل کے حسن و قبح کا فیصل بن جائے تو پھر لہجے میں تلخی در آتی ہے، لفظ تمسخر اڑانا شروع کر دیتے ہیں اور تحریر رجزیہ خطاب کا رنگ اختیار کر لیتی ہے۔ یہ صورتحال خود فریبی کا کمال نمونہ ہے۔ یہ ایک ایسا پھندہ ہے جس میں بڑے بڑے مصنفین کو گرفتار ہوتے دیکھا ہے۔ جن قلوب کو آپ پہلے ہی مسخر کر چکے ہیں، ان پر دلیل جیسی قیمتی متاع لٹانا حکمت کے خلاف ہے۔ آپ کا مخاطب وہ طبقہ ہونا چاہئے جو آپ کی رائے سے اختلاف کرتا ہے۔ چونکہ اپنے مخالف کا دل جیتنا ایک مشکل کام ہے اس لئے ہماری سہل پسند طبیعتیں دل توڑنے کے آسان کام میں مگن ہو جاتی ہیں اور تحریر کا حقیقی مقصود راستہ بھٹک کر کہیں دور نفرتوں کے صحرا میں گم ہو جاتا ہے۔
دلیل کا دوسرا محرک وہ مقصد ہے جو مصنف یا مقرر کے ذہن میں موجود ہوتا ہے۔ یاد رکھئے کہ دلیل جس وقت آپ کے قلم کی قید سے آزاد ہو کر باہر نکلتی ہے تو وہ آپ کے دائرہ اثر سے نکل جاتی ہے۔ اس نے اب دوسروں کے دل و دماغ تک رسائی کی راہیں خود تلاش کرنی ہیں۔ اس لئے اسے میدان میں اتارنے سے پہلے ٹھونک بجا کر اس بات کو یقینی بنا لیجئے کہ وہ اپنی منزل پر پہنچ کر ہی دم لے۔ اگرمنزل فریق مخالف کا دل ہے تو دلیل کو اس وقت تک روکے رکھئے جب تک اس بات کا تیقن نصیب نہ ہو جائے۔ بصورت دگر ذہن کی کمان سے دلیل کا تیر فصاحت کے زہر میں بجھ کر نکلے گا اور جہاں سے بھی گزرے گا، قلوب کو چیرتا جائے گا۔ دلیل کی اس سے بڑی ناقدری اور کیا ہو سکتی ہے کہ اسے دل فتح کرنے کی بجائے انہیں چھلنی کرنے کے لئے استعمال کیا جائے.
کوئی بھی تحریر لکھتے وقت اور کسی قسم کا مکالمہ کرتے ہوئے اگر ان معروضات کا لحاظ کر لیا جائے تو ایک ایسی فضا پیدا ہو سکتی ہے جس میں بلا خوف و خطر ہر کوئی اپنا نکتہ نظر شائستگی سے بیان کر سکے گا ۔ اسی طریقے سے ہی سوچ کی راہوں میں بکھرے کانٹے چننا آسان ہو جائےگا۔
بیشک یہ ملک پاکستان لاالہاالاللہ کی بنیاد پہ حاصل کیا گیا تھا اور ہم اسے انشااللہ بے دین نہیں ہونے دیں گے