ہوم << حنیف عباسیت اور گونگے شیطان - آصف محمود

حنیف عباسیت اور گونگے شیطان - آصف محمود

آصف محمود ایک طرف حنیف عباسیت ہے جو کسی قانون کو خاطر میں نہیں لاتی اور دوسری طرف معاشرے کی خاموشی، معاشرہ ،جسے، گاہے دل کرتا ہے ،گونگا شیطان لکھا جائے۔ کیاہمیں اب کسی آئن سٹائن کی ضرورت ہے جو آ کر اس مبینہ طور پر زندہ اور پائندہ قوم کو بتائے کہ اس کا انجام کیا ہوگا؟
تھانہ نیو ٹاؤن راولپنڈی میں ایک ایس ایچ او چند لڑکوں کو ون ویلینگ پر گرفتار کر لیتا ہے۔ اتفاق سے یہ چند لڑکے نون لیگ کی ریلی سے واپس آ رہے ہوتے ہیں۔چنانچہ شرافت کی سیاست کی انا مجروح ہو جاتی ہے ۔حنیف عباسی صاحب جو ایفی ڈرین کیس میں ایک ملزم ہیں وہ تھانے پہنچتے ہیں ۔ہمنواؤں کا ایک گروہ ہمراہ ہوتا ہے۔اخباری اطلاعات یہ ہیں کہ وہاں توڑ پھوڑ بھی کی جاتی ہے اور آ خر میں حنیف عباسی وکٹری سائن بناتے ہوئے وہاں سے روانہ ہو جاتے ہیں۔
چند سوالات قدرت نے دیوار پر لکھ چھوڑے ہیں۔ہم نے غلام ابن غلام ابن غلام رہنے کا شعوری فیصلہ کر لیا ہے تو ٹھیک ہے خاندان شریفاں کی رعایا بن کر رہیے ، ہر حلقے میں موجود کسی ایک نون غنے کی صبح شام آرتی اتاریے ، کھائیے ،پیجئے اور ایک روز مر جائیے۔لیکن اگر احساس اور عزت نفس کو آپ نے طلاق بائن کبری نہیں دی اور سیدنا عمرؓ کا یہ ارشاد کبھی کبھی آپ کو یاد دلا دیتا ہے کہ آپ کو آپ کی ماؤں نے آزاد جنا تھا اور خالق کائنات نے وقت پیدائش آپ کے گلے میں نون غنیت کا طوق نہیں ڈالا تھا ، آپ کسی ظل الہی کی مفتوحہ رعایا نہیں ایک جمہوری ریاست کے آزاد شہری ہیں تو آپ کو چند سوالات پر غور کرنا چاہیے ۔
1 ۔کیانون لیگ کے کارکنان قانون سے ماورا ہیں؟ ون ویلنگ کا قانون کیا اس وقت ساقط ہو جاتا ہے جب اس کی خلاف ورزی کرنے والا نون لیگ کی ریلی سے تشریف لا رہا ہو؟دستور میں یا کسی ضابطے میں کیا کہیں یہ بات لکھی ہے کہ نون غنوں کو قانون سے بالاتر تصور کیا جائے گا اور قانون کا اطلاق ان پر نہیں ہو گا؟
2 ۔دوسرا سوال یہ ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کہاں ہے؟ کہیں طالبان تھانوں پر حملے کر کے لوگ چھڑا کر لے جاتے ہیں اور کہیں یہی کام ن لیگ کے وہ لوگ کرتے ہیں جو قانون کی نظر میں ملزم ہیں۔دونوں میں فرق کیا ہے؟کیا تھانوں پر چڑھ دوڑنا دہشت گردی نہیں؟کیا کسی کے خلاف کوئی کارروائی ہو گی؟
3۔حنیف عباسی کی حیثیت کیا ہے؟ اس شہر نے ان کو شکست سے دوچار کیا ہے۔وہ یہاں کے نمائندے نہیں ہیں۔ان پر ایفی ڈرین کے حوالے سے سنگین الزامات ہیں۔ ایسا شخص کس مقام اور حیثیت سے تھانے جاتا ہے اور وہاں پولیس اہلکاروں کو دباؤ میں لاتا ہے۔کیا یہ کار سرکار میں مداخلت نہیں؟
4۔چوتھا سوال یہ ہے کہ ایس ایچ او کو کس جرم کی پاداش میں معطل یا برطرف کیا گیا ہے؟ اس نے کون سا جرم کیا؟کیا قانون شکنی پر پولیس کو بروئے کار نہیں آنا چاہیے؟راولپنڈی میں ریاست کا قانون چلتا ہے یا حنیف عباسی کا؟
5۔ راولپنڈی کا اگر یہ حال ہے جہاں تھانہ نیو ٹاؤن سے قریب دو کلومیٹر دور وزیر داخلہ کی رہائش گاہ ہے۔میڈیا میں بھی سارا قصہ آ گیا ہے لیکن اس کے باوجود حنیف عباسی کی سرزنش کی بجائے ایس ایچ او کی کمر پر تعزیر کا کوڑا برسایا جاتا ہے تو تصور کیجیے چھوٹے شہروں میں کیا عالم ہو گا۔کیا وہاں کوئی ایس ایچ او تصور بھی کر سکتا ہوگا کہ نون لیگ کی مرضی کے بغیر سانس بھی لے سکے؟ نون لیگ کے یہ حضرات ان شہروں میں سماج کو کیسے گرفت میں لیے ہوں گے کیا آپ اس کا اندازہ کر سکتے ہیں؟
آپ اس معاشرے کو کتنی گھٹن کا شکار کرنا چاہتے ہیں۔کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ نفرت اور رد عمل میں لوگ طالبان بن جائیں۔کتنی رعونتیں اوڑھ کر آپ جئییں گے۔خدا کا خوف کریں کچھ۔
اس معاشرے کو اگر آج غلام ابن غلام ابن غلام نہیں بننا تو آواز اٹھانا ہو گی۔گونگا شیطان بنیے اور نسلوں کو غلامی کا طوق پہنائیے۔ یہاں عمران کے دھرنے میں طاقت استعمال نہ کرنے پر محمد علی نیکو کار کو نوکری سے نکالا گیا سب گونگے شیطان بنے رہے۔عمران خان سے یہ بھی نہ ہو سکا اس آفیسر کو کے پی کے میں کوئی منصب دے دیتے۔نیکو کار غلط حکم نہ مانے تو نوکری سے فارغ۔۔۔لاہور میں ماڈل ٹاؤن میں چودہ لاشے گرانے والی پولیس کا بال بھی بیکا نہ ہو۔یہ جمہوریت نہیں بادشاہت ہے اور معاشرہ محض ایک گونگا شیطان۔نادرا کے نیک نام چیر مین کو دھمکیاں دی گئیں یہاں تک کہ اس کی بیٹی کو بھی۔۔۔وہ سب کچھ چھوڑ کر واپس چلا گیا۔عمران کا سارا دکھڑا ہی نادرا میں ہونے والی جعلسازی اور دھاندلی کا تھا لیکن عمران نے اس کے لیے کیا کر لیا؟ ڈھنگ سے آواز تک نہیں اٹھائی۔عمران سے تو بہت امیدیں تھیں۔ضمیر کی آواز پر لبیک کہنے والے سرکاری افسران کے لیے اگر عمران بھی آواز نہیں اٹھائے گا تو یہ ایک المیہ ہو گا۔اور راولپنڈی تو عمران کا حلقہ ہے۔عمران یہ تو سوال کریں کہ ان کے حلقے میں تھانے پر نون لیگی یلغار پر قانون نے کیا کاروائی کی؟الٹا ایس ایچ او کو سزا دے دی گئی تو کس قانون کے تحت؟
آج جو چند افسران اتنی جرات کر رہے ہیں کہ حکمران طبقے کے دباؤ کے آگے ضمیر کا سودا نہیں کرتے اور خمیازہ بھگتنے کے لیے تیار رہتے ہیں سماج نے اگر ان کا ساتھ نہ دیا تو غلام ابن غلام ابن غلام بننے کے لیے تیار رہے۔
فیصلہ کر لیجیے۔۔۔ہم اپنے بچوں کو کیسا مستقبل دینا چاہتے ہیں۔آزاد اور باوقار شہری کا یا نون غنیت کا طوق گلے میں لٹکائے ایک بے بس وجود کا جس کی نہ عزت نفس ہوتی ہے نہ کوئی حقوق۔

Comments

Click here to post a comment