ہوم << قراردادِ پاکستان، ایک تاریخ ساز لمحہ - اخلاق احمد ساغر

قراردادِ پاکستان، ایک تاریخ ساز لمحہ - اخلاق احمد ساغر

23 مارچ 1940ء کا دن برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک نئے عہد کی نوید لے کر آیا۔ لاہور کے منٹو پارک (موجودہ اقبال پارک) میں وہ تاریخی جلسہ منعقد ہوا جس میں ایک ایسی قرارداد منظور کی گئی جس نے ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کے قیام کی راہ ہموار کر دی۔ یہ قرارداد محض ایک کاغذی دستاویز نہ تھی، بلکہ ایک عزم، ایک خواب، اور ایک عہد تھا کہ مسلمان اپنی الگ تہذیب، ثقافت، اور تشخص کو برقرار رکھنے کے لیے ایک علیحدہ ملک حاصل کریں گے۔

قراردادِ پاکستان : پس منظر اور ضرورت
ہندوستان میں مسلم قوم کی شناخت ہمیشہ سے ایک الگ اور منفرد حیثیت رکھتی تھی۔ سر سید احمد خان سے لے کر علامہ اقبال تک، ہر رہنما نے مسلمانوں کے لیے علیحدہ تشخص پر زور دیا۔ قائداعظم محمد علی جناح نے بارہا کہا: "مسلمان اور ہندو دو الگ قومیں ہیں، ان کے رسم و رواج، ان کی ثقافت، ان کی روایات اور ان کی تاریخ ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہے۔ ان کا ایک ساتھ رہنا ممکن نہیں۔" 1937ء کے انتخابات کے بعد کانگریسی رویے نے یہ ثابت کر دیا کہ مسلمانوں کو ہندو اکثریت کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ ایسے میں آل انڈیا مسلم لیگ کا 1940ء کا اجلاس انتہائی اہمیت کا حامل بن گیا جہاں ایک علیحدہ مسلم ریاست کے قیام کا واضح مطالبہ پیش کیا گیا۔

23 مارچ 1940ء : ایک فیصلہ کن دن
یہ جلسہ ایک تاریخی موڑ تھا جہاں شیرِ بنگال مولوی فضل الحق نے وہ تاریخی قرارداد پیش کی جس میں کہا گیا کہ: "ہندوستان کے وہ علاقے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، انھیں آزاد ریاستیں بنا دیا جائے، جو خودمختار ہوں اور جہاں مسلمان اپنی زندگی اسلامی اصولوں کے مطابق گزار سکیں۔"
اس قرارداد کو بعد میں قراردادِ پاکستان کا نام دیا گیا، اور یہی وہ بنیاد تھی جس پر 7 سال بعد 14 اگست 1947ء کو پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔

قراردادِ پاکستان کی اہمیت
یہ قرارداد محض ایک اعلان نہیں تھی بلکہ یہ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک نئی راہ کا تعین تھی۔ اس کی اہمیت کو چند نکات میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے:
1. مسلمانوں کی الگ شناخت کا اعتراف: اس قرارداد نے ثابت کیا کہ مسلمان ایک الگ قوم ہیں اور انھیں ایک علیحدہ وطن کی ضرورت ہے۔
2. تحریکِ آزادی کو سمت ملی : یہ تحریکِ پاکستان کے لیے ایک واضح لائحہ عمل فراہم کر گئی۔
3. قائداعظم کی قیادت میں اتفاق : یہ قرارداد جناح کی قیادت پر مسلمانوں کے اعتماد کی مہر ثابت ہوئی۔
4. پاکستان کی بنیاد رکھی گئی : اس قرارداد کے بعد مسلمانوں کی جدوجہد ایک واضح منزل کی طرف گامزن ہو گئی۔

قائداعظم کا وژن اور قراردادِ پاکستان
قائداعظم محمد علی جناح نے 23 مارچ 1940ء کو اپنے خطاب میں فرمایا: "ہندو اور مسلمان کا مذہب، فلسفہ، رسم و رواج، ثقافت، معیشت، اور معاشرت ہر لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ہمیں ایسا نظامِ حکومت چاہیے جو ہمارے مذہبی، ثقافتی، سماجی اور اقتصادی آزادیوں کی ضمانت دے۔"
یہی وہ رہنمائی تھی جس نے تحریکِ پاکستان کو منزل تک پہنچایا۔

قراردادِ پاکستان کے بعد کا سفر
1940ء کے بعد تحریکِ پاکستان مزید مضبوط ہو گئی۔ مسلم لیگ نے پورے برصغیر میں اپنی سرگرمیاں تیز کر دیں، اور ہر مسلمان کے دل میں ایک آزاد وطن کا خواب جاگ اٹھا۔ 14 اگست 1947ء کو یہ خواب حقیقت بنا اور پاکستان دنیا کے نقشے پر ابھرا۔
علامہ اقبال نے برسوں پہلے جس خواب کو دیکھا تھا، وہ قائداعظم کی قیادت میں شرمندہ تعبیر ہوا۔

وجودِ برہمن میں فرقِ ملت ہے قریشی کو
یہی باعث ہے تجارت میں خسارا دیکھتا ہوں

خاص نکتہ : قراردادِ پاکستان کی روشنی میں آج کا پاکستان
آج پاکستان ایک حقیقت ہے، لیکن کیا ہم نے اس ملک کو واقعی قائداعظم اور علامہ اقبال کے خوابوں کے مطابق بنایا؟ ہمیں سوچنا ہوگا کہ کیا ہم نے اس ملک میں انصاف، مساوات، اور اسلامی اصولوں کو نافذ کیا؟ ہمیں 23 مارچ کے موقع پر صرف یومِ پاکستان منانے کے بجائے اس عہد کی تجدید کرنی ہوگی کہ ہم اس ملک کو ایک ایسا اسلامی اور فلاحی ریاست بنائیں گے جس کا خواب ہمارے اسلاف نے دیکھا تھا۔

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

اللہ ہمیں پاکستان کی حقیقی ترقی اور استحکام کے لیے محنت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!