میں، ابو بکر محمد بن زکریا الرازی، قرطبہ کی روشن گلیوں سے نہیں، بلکہ رے کی پُرسکون سرزمین سے تعلق رکھتا ہوں۔ میں نے علم کی روشنی سے اپنی دنیا کو منور کیا اور طبیب، فلسفی، کیمیا دان، ماہرِ فلکیات اور معلم کی حیثیت سے کام کیا۔ میری زندگی ایک مسلسل تلاش، تجربہ اور تحقیق کی داستان ہے۔
میرا جنم 865ء میں ایران کے شہر رے میں ہوا۔ ابتدا میں موسیقی اور فلسفہ کی جانب راغب تھا، مگر بعد میں طبی علوم اور کیمیا نے میری زندگی کو بدل کر رکھ دیا۔ بغداد جا کر میں نے جلیل القدر اساتذہ سے طب و فلسفہ کی تعلیم حاصل کی اور پھر ری واپس آکر وہاں کے دار الشفا (ہسپتال) کا نگران مقرر ہوا۔
میری طبی خدمات بے شمار ہیں، مگر سب سے بڑا کام یہ ہے کہ میں نے بیماریوں کی تشخیص کو سائنسی بنیادوں پر استوار کیا۔ میں نے چیچک اور خسرہ پر تحقیق کی اور انھیں پہلی بار الگ الگ بیماریوں کے طور پر بیان کیا۔ میں نے قرشی طب کے اصولوں کو مزید نکھارا اور مشاہدے کو تجربے سے جوڑ کر معالجاتی طریقے متعارف کروائے۔ میرے ہاتھوں بغداد میں بیت الحکمت اور دیگر طبی مراکز میں بے شمار تجربات کیے گئے۔
میرا ایک خواب تھا کہ دھاتوں کو سونے میں بدلنے کا راز پالوں، مگر میں جلد سمجھ گیا کہ یہ محض ایک فریب ہے۔ میں نے الکحل (Alcohol) کی کشید کاری میں نمایاں پیش رفت کی اور ادویہ سازی میں کیمیا کے اصولوں کو شامل کیا۔ فلسفے میں میرا جھکاؤ عقلیت پسندی کی طرف تھا، اور میں نے ارسطو اور افلاطون کے نظریات پر تنقید کی۔
میری کتابیں میرا اصل ورثہ ہیں، جن میں سب سے نمایاں یہ ہیں:۔
1. الحاوی فی الطب : طب کی سب سے جامع کتاب، جسے یورپ میں "Liber Continens" کے نام سے جانا گیا۔
2. الجدری والحصبة : چیچک اور خسرہ پر دنیا کی پہلی تفصیلی کتاب۔
3. کتاب السر : کیمیا اور ادویہ سازی پر اہم کتاب۔
4. منافع الاغذیہ و مضارھا : غذائی اجزاء اور ان کے اثرات پر تحقیق۔
5. طب الروحانی : جسمانی بیماریوں کے ساتھ روحانی امراض کا علاج۔
6. الشکوک علی جالینوس : جالینوس کے نظریات پر تنقیدی جائزہ۔
میں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ علم کی روشنی پھیلانے میں گزارا، مگر آخری ایام میں آنکھوں کی بینائی جاتی رہی اور مادی حالات بھی ناسازگار ہو گئے۔ تاہم، میں نے کبھی اپنے نظریات پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ میرا ماننا تھا کہ سچائی، مشاہدے اور تجربے سے حاصل ہوتی ہے، اور یہی میرا سب سے بڑا ورثہ ہے۔
میں دنیا سے رخصت ہوا، مگر میرے الفاظ، خیالات اور تحقیقات آج بھی زندہ ہیں۔ میری زندگی کا خلاصہ علم، تجربہ اور انسانیت کی خدمت ہے۔
تبصرہ لکھیے