قرآن مجید محض ماضی کے واقعات کا ذخیرہ نہیں بلکہ زندگی کے ہر موڑ پر راہنمائی فراہم کرنے والا ایک زندہ دستور ہے۔ ہر زمانے کے حالات و واقعات اس کے آئینے میں منعکس ہوتے ہیں، اور ہر دور کے فتنے اس کی روشنی میں بے نقاب ہوتے ہیں۔ آج کے ڈیجیٹل عہد میں، جہاں سوشل میڈیا کی "ٹویٹس" لمحوں میں دنیا بدل دیتی ہیں اور سرمایہ داری کے نشے میں ڈوبا ہوا قارونی نظام اپنی طاقت پر اتراتا ہے، قرآن ہمیں ان رویوں کے نتائج دکھاتا ہے اور حقیقت کی راہ سجھاتا ہے۔
سورہ نمل ہمیں حکم دیتی ہے کہ ہم عدل، حکمت، اور ایمان پر مبنی ایک منظم اور صالح معاشرہ قائم کریں۔ یہ سورت بتاتی ہے کہ صرف عبادات اور مذہبی شعائر کی پابندی کسی قوم کو ترقی نہیں دلا سکتی؛ بلکہ اس کے لیے علم، تحقیق، قیادت، سائنسی ترقی اور انصاف جیسے عناصر بھی ضروری ہیں۔ جبکہ سورہ قصص میں اللہ کی وعدوں کی تکمیل اور سرکشی کے نتیجے میں اقوام کے زوال کی تصویر کشی کی گئی ہے۔
اگر ان دونوں سورتوں کے پیغام کو موجودہ دور میں پرکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آج بھی اقوام کی ترقی اور زوال انہیں اصولوں کے تابع ہے جو ان دو سورتوں میں بیان ہوئے۔
سورہ نمل:
سورہ نمل میں حضرت سلیمانؑ کا دربار ایک مثالی اسلامی ریاست کی جھلک پیش کرتا ہے جہاں مواصلات، علم، اور حکمت کا گہرا نظام موجود تھا، سب سے پہلے علم کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے، جہاں حضرت سلیمانؑ اور حضرت داؤدؑ کو اللہ کی طرف سے خصوصی علم عطا کیے جانے کا ذکر ہے:
وَلَقَدْ آتَيْنَا دَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ عِلْمًا ۖ وَقَالَا ٱلْحَمْدُ لِلَّهِ ٱلَّذِى فَضَّلَنَا عَلَىٰ كَثِيرٍۢ مِّنْ عِبَادِهِ ٱلْمُؤْمِنِينَ" (النمل: 15)
یہاں علم کو بطور نعمت پیش کیا گیا ہے، جو ایک قوم کو دوسروں پر فوقیت دلاتا ہے۔ آج بھی دنیا میں وہی اقوام ترقی کر رہی ہیں جنہوں نے علم و تحقیق میں مہارت حاصل کی ہے۔ اگلی ہی آیت میں یہی سورت حضرت سلیمانؑ کی وہ غیر معمولی صلاحیت بھی بیان کرتی ہے جس کے ذریعے وہ پرندوں اور دیگر مخلوقات کی زبان سمجھنے پر قادر تھے: وعُلِّمنا مَنطِقَ الطَّيرِ" (النمل: 16)
جانوروں کی زبان سمجھنے اور ان سے گفتگو کرنے کے اس واقعے کو قرآن پر اعتراض کرنے والے ایک عرصہ تک دیومالائی قصہ اور افسانہ کہتے رہے کہ کسی انسان کا پرندوں اور چیونٹیوں سے گفتگو کرنا کیسے ممکن ہے؟ مگر انہیں خبر ہو کہ اب جدید سائنس نے بھی اس سمت میں تحقیق شروع کر دی ہے، اور حیوانات کی مخصوص آوازوں، اشاروں اور رویوں کے معنی سمجھنے کی کوشش جاری ہے۔ Artificial Intelligence (AI) اور Bioacoustics جیسے علوم کے ذریعے جانوروں کی بولی سمجھنے کی کوششیں ہو رہی ہیں، جو ہمیں اس قرآنی حقیقت کی سچائی سے مزید قریب کرتی ہیں۔ آج مصنوعی ذہانت کے ذریعے جانوروں کی زبان سمجھنے کے لیے جاری تحقیق اور اس پر خرچ کی جانے والی خطیر رقم اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ قرآن میں بیان کردہ واقعات قطعاً "اساطیر یا دیومالائی افسانے" نہیں بلکہ حقیقی امکانات پر مبنی ہیں۔
سورہ نمل میں حضرت سلیمانؑ کی حکومت کو ایک ماڈل سلطنت کے طور پر پیش کیا گیا ہے، جہاں قیادت کی خصوصیات واضح طور پر بیان کی گئی ہیں۔ ان کی سلطنت میں انتظامی نظم و ضبط، انصاف، تحقیق و جستجو اور ترقی کی دوڑ میں سب سے آگے رہنے کا جذبہ نمایاں تھا۔ وہ اپنی رعایا پر مکمل نظر رکھتے تھے، حتیٰ کہ اگر ان کا کوئی ادنیٰ سپاہی بھی غیر حاضر ہوتا تو وہ اس کی خبر رکھتے تھے۔ سورہ نمل میں حضرت سلیمانؑ کے دربار کا وہ منظر بیان کیا گیا ہے جب ہدہد سبا کی ملکہ کے بارے میں ایک حیران کن "ٹویٹ" لے کر آتا ہے۔ وہ اپنی ٹویٹ دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے ایک ایسی قوم دیکھی ہے جو سورج کی عبادت کرتی ہے اور اللہ کے بجائے زمین پر جھکنے والی ہے۔ ایک نبی اور عظیم بادشاہ ہونے کے باوجود حضرت سلیمانؑ فوراً اس پر یقین نہیں کرتے، بلکہ "ٹویٹر" کی سچائی جانچنے کے لیے تحقیق کا حکم دیتے ہیں: قَالَ سَنَنظُرُ أَصَدَقْتَ أَمْ كُنتَ مِنَ ٱلْكَـٰذِبِينَ" (النمل: 27)
یہ اصول کہ کوئی بھی خبر، خواہ وہ کتنی ہی مستند ذرائع سے کیوں نہ آئے، تصدیق کے بغیر قبول نہیں کی جانی چاہیے، جدید دنیا میں تحقیق اور صحافت کے بنیادی اصول کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے، آج کا انسان، خصوصاً سوشل میڈیا کے عادی افراد، بغیر تصدیق کے ہر "ٹویٹ" اور "پوسٹ" کو سچ مان کر آگے بڑھا دیتے ہیں، چاہے وہ جھوٹی ہو یا کسی مخصوص ایجنڈے کا حصہ۔فیک نیوز کا فتنہ اسی غفلت کا نتیجہ ہے، جس نے قوموں کی سوچ کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔
سورہ قصص:
سورہ قصص میں اللہ کے کیے گئے وعدوں اور وعیدوں کو نمایاں کیا گیا ہے، جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ دنیا میں ہونے والے تمام واقعات اللہ کی مشیّت کے تابع ہیں۔ حضرت موسیٰؑ کے ساتھ کیے گئے تین بڑے وعدے (ان کی والدہ سے ملاقات، نبوت عطا کرنا، اور فرعون کی ہلاکت) سب پورے ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرعون کو غرق کر دیا اور موسیٰؑ کو وہی مرتبہ عطا کیا جس کا وعدہ کیا تھا۔
1.حضرت موسیٰؑ کی پیدائش کے وقت اللہ نے ان کی والدہ کو حکم دیا کہ اپنے بچے کو دریا میں بہا دیں اور ساتھ ہی یہ تسلی دی کہ وہ انہیں واپس لوٹائے گا: إِنَّا رَادُّوهُ إِلَيْكِ وَجَاعِلُوهُ مِنَ الْمُرْسَلِينَ" (القصص: 7) یہ وعدہ بظاہر ناممکن لگتا تھا، مگر پورا ہوا اور حضرت موسی علیہ السلام فرعون کے محل میں پلنے کے باوجود اپنی والدہ کی آغوش میں واپس آئے۔ یہ واقعہ ظالم قوتوں کے زوال اور حق کی بالادستی کا پیغام دیتا ہے۔
2. نبوت کا وعدہ: دوسرا وعدہ حضرت موسیٰؑ نبوت عطا کرنے کا تھا جو کہ اللہ نے انھیں کوہِ طور پر بلا کر پورا کیا اور نبوت سے سرفراز کیا، اور ان کے ذریعے بنی اسرائیل کی رہنمائی کا سلسلہ شروع ہوا۔
3. فرعون کا انجام: فرعون، جو اپنی طاقت کے نشے میں چُور تھا، جب دریا میں غرق ہونے لگا تو اللہ نے اسے وہی انجام دیا جس کا وعدہ کیا تھا: فَأَخَذْنَـٰهُ وَجُنُودَهُۥ فَنَبَذْنَـٰهُمْ فِى ٱلْيَمِّ" (القصص: 40)
سورہ قصص میں قارون کی سرکشی کا ذکر ہے، جو اپنی بے پناہ دولت کے زعم میں خود کو سب سے برتر سمجھتا تھا۔ وہ یہ دعویٰ کرتا تھا کہ اس کی کامیابی اس کے اپنے علم اور محنت کا نتیجہ ہے: إِنَّمَآ أُوتِيتُهُۥ عَلَىٰ عِلْمٍ عِندِىٓ" (القصص: 78)
یہ آیت سرمایہ دارانہ غرور کی انتہا کو ظاہر کرتی ہے، جہاں طاقت اور دولت کا نشہ انسان کو اس کی حقیقت سے بے خبر کر دیتا ہے۔ اللہ نے اس کی سرکشی کا ایسا جواب دیا جو قیامت تک کے لیے سرمایہ داروں اور طاقت کے نشے میں بدمست حکمرانوں کے لیے وارننگ بن گیا: فَخَسَفْنَا بِهِۦ وَبِدَارِهِ ٱلْأَرْضَ" (القصص: 81)
آج کے معاشی نظام میں ہمیں قارون کی جھلک نظر آتی ہے۔ بڑی کارپوریشنیں اور مالیاتی ادارے غریبوں کا استحصال کرتے ہیں، دنیا کے وسائل پر قبضہ جما لیتے ہیں، اور سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ ان کے ذہانت اور محنت کا نتیجہ ہے۔ لیکن جب طاقت اور دولت کا غرور حد سے بڑھ جائے، تو زمین ایسے سسٹمز کو اپنے اندر نگل لیتی ہے۔
سورہ قصص کے آخر میں نبی کریم ﷺ سے مکہ کی طرف واپسی کا وعدہ کیا جاتا ہے: إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَادُّكَ إِلَىٰ مَعَادٍ" (القصص: 85)
یہ وعدہ بھی حرف بہ حرف پورا ہوا اور فتح مکہ کے ذریعے اللہ نے نبی ﷺ کو واپس لوٹایا۔ یہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ اگر ہم اللہ پر یقین رکھیں اور حق کی راہ پر چلیں تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں ہمارے اصل مقام سے محروم نہیں رکھ سکتی۔
سورہ نمل اور سورہ قصص میں بیان کردہ اصول آج کے دور میں بھی متعلق ہیں، آج کے انسان کو ضرورت ہے کہ وہ ان قرآنی اصولوں کو اپنی عملی زندگی میں نافذ کرے۔ تحقیق کے بغیر کوئی فیصلہ نہ کرے، اور دولت و طاقت کے نشے میں اپنی حقیقت نہ بھولے۔ ورنہ ہدہد کی ٹویٹ اور قارون کی سرکشی کی کہانی تاریخ میں محض مثالیں نہیں، بلکہ انتباہات ہیں جو اللہ کے نظام میں آج بھی اتنے ہی سچ ہیں جتنے کل تھے۔
تبصرہ لکھیے