’’آپ کا بیسٹ فرینڈ کون ہے؟‘‘
یہ ایسا سوال تھا جو ہم بہنوں اور بھیا کو سر جوڑنے پر مجبور کردیتا تھا اور اس کا اختتام ہمیشہ جنھجھلاہٹ اور غصے پر ہوتا تھا۔
’’آخر ہمارا بیسٹ فرینڈ کیوں نہیں ہے؟‘‘
ہم بہنوں کی سہیلیاں اور بھیا کے دوست تو بےشمار تھے لیکن بیسٹ فرینڈ کے نام پر ایسی شخصیت جس سے حال دل کہہ سکیں، وہ دور دور تک نظر نہیں آتی تھی۔ اور اس میں سب کمال ہماری والدہ ماجدہ کا تھا، جنہوں نے بیسٹ فرینڈ کی نوبت آنے ہی نہیں دی تھی۔
سکول سے گھر آتے، مسجد سے گھر آتے، کھیل کود کر یا دوست احباب سے مل کر غرض کہیں سے بھی گھر آتے تو امی ہمارے پسندیدہ لوازمات کے ساتھ منتظر ہوتی تھیں۔ پھر ہمارے ساتھ کھانے میں شریک ہوتیں اور انتہائی چالاکی سے باہر کی روداد سنتیں۔
’’ہیں؟ اچھا پھر کیا ہوا؟ اچھا پھر؟‘‘
اور ہم جوش بیاں میں وہ کچھ بھی بیان کردیتے جس کے بیان نہ کرنے کی قسمیں کھا کر آئے ہوتے، اگر وہ دیکھتیں کہ ہم کچھ چھپا رہے ہیں تو کبھی مارا یا ڈانٹا نہیں بلکہ اپنے بچپن کے قصے اس طریقے سے سناتیں کہ ہم بھی لاشعوری طور پر سب کچھ اگل دیتے۔ یا پھر ہمیں کہانیاں سناتیں اور وہ کہانیاں ایسی ہوتیں کہ ہم ان کے سحر میں کھوئے اپنی سہیلیوں کے تذکرے اور مشکلات و مسائل اپنی امی سے ڈسکس کرتے اور یوں امی جان لیتیں کہ باہر ہمارے کون سے خفیہ دوست ہیں اور ان کے مشاغل کیا ہیں۔
اکثر امی جی کوئی نیا پکوان پکا کر ہماری سہیلیوں اور بھیا کے دوستوں کو دعوت طعام دیتیں اور ہمارے جلی و خفی دوستوں سے باخبر ہوجاتیں، پھر انتہائی دانش مندی سے ان کا بیک گرائونڈ معلوم کرکے سو نصیحتیں ہمارے پلے باندھ دیتیں اور آہستہ آہستہ انھی بچوں کے ذریعے ان کی ماؤں سے تعلقات استوار کرتیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ ہماری کوئی شرارت کسی سے ڈھکی چھپی نہ رہتی تھی۔ امی کی تربیت اور کڑی نگاہ رکھنے کی بدولت کبھی گھر سے باہر بیسٹ فرینڈ بنانے کی ضرورت محسوس ہوئی اور نہ ہی کبھی ہم زندگی میں امی جی سے کچھ چھپا سکے۔ ان سے سب باتیں کرنے کی عادت اتنی پختہ ہے کہ آج بھی سب باتیں انہیں بتاتے ہیں اور وہ ہمیں۔
نیٹ کی دنیا پر تبصرہ کرنا ہو، سفر سے واپسی کی روداد ہو، دوست احباب سے ملنے کے بعد کا تذکرہ ہو، چھوٹے چھوٹے مسائل سے لے کر بڑے، نازک اور حساس مسائل، سب کچھ ہم بہنیں اور بھیا امی سے کرتے ہیں اور اگر کسی مسئلے میں کچھ زیادہ ہی جھجک محسوس ہو رہی ہو تو بہنیں آپس میں ایک ایک بات ڈسکس کرتی ہیں۔ کبھی اس چیز کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی کہ گھر سے باہر کسی سے اپنی چھینک کا تذکرہ بھی کریں۔
بیسٹ فرینڈ آج تک ایسا مسئلہ ہے کہ جب کوئی چھوٹی بہنوں سے پوچھتا ہے’’آپ کی بیسٹ فرینڈ کون ہے؟‘‘ اور جواب ملتا ہے کہ’’ہم سب بہنیں آپس میں بیسٹ فرینڈ ہیں‘‘ تو سوال کرنے والے کا منہ کھلے کا کھلا رہ جاتا ہے اور حیرانی سے ایسے دیکھا جاتا ہے جیسے دنیا کا آٹھواں عجوبہ نظر آگیا ہو۔
حساس مسائل
آج ہر طرف والدین اور اولاد میں دوری دیکھ کے امی کی یہ تربیت بہت یاد آتی ہے۔حقیقت ہے اگر گھر میں والدین اپنے بچوں کو توجہ، محبت، پیار اور خود اعتمادی دیں تو کبھی گھر سے باہر رشتے بنانے کی نوبت نہ آئے۔ جوان بچوں اور بچیوں کو دیکھ لیجیے کہ گھر سے باہر کچھ دوست ہیں جن سے سب احوال کہیں گے اور گھر والوں کو کاٹ کھانے کو دوڑیں گے۔ اپنی ایک کم عمرعزیزہ کی بات یاد آرہی ہے ’’اگر والدین ڈانٹ ڈپٹ اور لعن طعن کے بجائےگھر میں توجہ اور پیار دیں تو گھر سے باہر کسی اجنبی کا پیار لینے کی ضرورت کیوں پڑے؟‘‘
والدین سمجھتے ہیں کہ کھانا پینا، لباس اور رہائش دے کر ذمہ داری پوری ہوگئی حالانکہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ عمومی رجحان یہی ہے کہ بچے ٹی وی کے حوالے اور خود رسائل، کپڑوں، فون اور دوست احباب میں مگن والدین سمجھتے ہیں کہ ہم بچوں کی تربیت بہت اچھی کر رہے ہیں حالانکہ ان کی تربیت ٹی وی کر رہا ہے جو انہیں روزانہ پانچ سے چھ گھنٹے کی توجہ دیتا ہے۔ بچے چاہے چھوٹے ہوں یا بڑے، انہیں ایک ہمدرد کی ضرورت ہوتی ہے اور اگر یہ ہمدرد گھر میں مل جائے تو بہترین ورنہ پھر بچے گھر سے بے پروا، والدین کے نافرمان اور اپنی سرگرمیوں کو والدین سے چھپانے والے بن جاتے ہیں. افسوس کہ ہمارا معاشرہ اسی سمت میں جا رہا ہے۔ والدین کو بچوں کی خبر نہیں اور بچوں کو والدین سے دل چسپی نہیں۔
اگر آپ بھی یہ چاہتے ہیں کہ آپ کے گھر کا ماحول خوش گوار ہو، بچے کوئی غلط اقدام اٹھانے کی کوشش بھی نہ کریں اور آپ سے قریب بھی ہوں تو اپنے آپ اور ان میں تکلف کی ہر دیوار گرا دیں۔ اپنی فضول اور خود ساختہ مصروفیات ترک کرکے بچوں کو مکمل وقت دیجیے ۔بچوں کےساتھ بچے بن جائیں، دوستانہ رویہ رکھیں، ان کے باہر کے معاملات جانیں اور پھر اس کا جادوئی اثر دیکھیں۔ یقینا آپ دعائیں دیں گے۔
تبصرہ لکھیے