ہوم << بھارت: مسلمانوں کی سیاسی بے وزنی اوردہلی کی افطار پارٹیاں - افتخار گیلانی

بھارت: مسلمانوں کی سیاسی بے وزنی اوردہلی کی افطار پارٹیاں - افتخار گیلانی

ابھی حال ہی میں بھارت کے شمالی اتراکھنڈ صوبہ کے ہردوار کے ایک کالج میں ہندو انتہا پسندوں نے مسلم طلبہ کی طرف سے منعقد افطار پارٹی کو درہم برہم کردیا۔ بعد میں پرنسپل نے بھی مسلم طالب علموں کو افطار کے وقت کھانا لانے اور اس کودیگر طلبہ کے ساتھ ساجھا کرنے پر بھی پابندی عائد کی۔ اسی طرح میرٹھ کی ایک یونیورسٹی کے احاط میں نماز ادا کرنے پر ایک طالب علم کے خلاف پولیس نے ایف آئی آر دائر کی۔

کانگریس رہنما راہول گاندھی افطار پر مسلمان رہنماؤں سے تبادلہ خیال کرتے ہوئے

ایک وقت تھا کہ خاص طور پر دارالحکومت دہلی میں رمضان میں سیاسی و سماجی لیڈروں، سیاسی پارٹیوں، سفارت خانوں اور دیگر تنظیموں کی جانب سے افطار پارٹیاں منعقد کرنا اور اس کی آڑ میں رابطہ اور باہمی میل جول بڑھنا قابل اعزاز سمجھا جاتا تھا۔ صدارتی محل یعنی راشٹرپتی بھون، وزیر اعظم دفتر، وزیروں و سیاسی پارٹیوں کے دفاتر میں رمضان کے دوران اذان کی آواز گونجتی تھی اور مدعو مسلمان باجماعت نماز ادا کرتے تھے۔ کئی بار تو وزیروں کو نماز کےلئے مصلے بچھاتے ہوئے بھی دیکھا۔ مگر جیسے جیسے مسلمانوں کو ۲۰۱۴ کے بعد سیاسی طور پر بے وزن کر دیا گیا ہے، دہلی کی افطارپارٹیاں بھی قصہ پارینہ بن گئی ہیں۔

موجودہ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈران بھی اپنے گھروں پر افطار پارٹیاں منعقد کرتے تھے۔ اس کے لیڈران سابق وزرا سید شاہنواز حسین اور وجے گوئیل کی افطار پارٹیاں دہلی کے اشرافیہ اور صحافیوں میں خاصی مشہور ہوتی تھیں۔ وجے گوئیل تو پرانی دہلی میں سحری کا انتظام کرتے تھے۔ رات بھر ایک سماں ہوتا تھا۔ کانگریس پارٹی کی افطار پارٹی کی ایک الگ ہی شان ہوتی تھی، جو اس کے دفتر میں منعقد ہوتی تھی۔ ملک بھر کے کانگریسی لیڈران دہلی وارد ہوکر اس میں شرکت کرتے تھے۔ بعد میں کئی بار پارٹی کے اس کو دفتر کے بجائے اشوکا ہوٹل میں منعقد کروایا۔ پارٹی صدر سونیا گاندھی خود روزہ داروں کو افطار کرواتی تھیں اور ہر میز پر چند لمحے توقف کرکے سبھی کا حال چال پوچھتی تھیں۔

کانگریس صدر سونیا گاندھی ایک افطار کے موقع پر

مجھے یاد ہے کہ بی جے پی نے اپنے دفتر اشوکا روڈمیں 1998ءمیں ایک افطار پارٹی کا انعقاد کیا تھا۔ چونکہ اس کے بعد وہ حکومت میں آئی تھی، اس لیے وزیر اعظم بننے کے بعد اٹل بہاری واجپائی پارٹی دفتر کے بجائے اپنی سرکاری رہائش گاہ پر ہر سال اس کا نظم کرتے تھے۔ 2014ءسے قبل ماہ مبار ک کی آمد کے ساتھ ہی سیاسی و سماجی اداروں کی طرف سےافطار پارٹیوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوتا تھا۔

خبروں کے متلاشی صحافیوں، طبقہ اشرافیہ، سیاسی و مذہبی لیڈروں نیز سفارت کاروں کے لیے افطار پارٹیاں، سیاسی و سفارتی شخصیات کے ساتھ غیررسمی روابط اور سیاسی حالات کی نبض پرکھنے کا ذریعہ بھی بنتی تھی۔ اس مقدس ما ہ میں سیاسی و سفارتی سرگرمیاں اس قدر عروج پر ہوتی تھیں کہ میڈیا اداروں میں افطار پارٹیاں کور کرنے کے لیے باضابطہ رپورٹروں کی بیٹ لگتی تھی۔ وزیراعظم ہاؤس یا راشٹرپتی بھون میں حکومت اور عدلیہ کے اعلیٰ اہلکاروں کے ساتھ بالمشافہ ملاقاتیں ہوتی تھیں، اور خاصی آف ریکارڈ انفارمیشن حاصل ہوتی تھی۔ مخلوط حکومتوں کے دوران اس بات کی اہمیت بڑھ جاتی تھی کہ حکومتی اتحاد کے کس لیڈر نے افطار پارٹی میں شمولیت کی، اور باڈی لنگویج کیسی تھی اور حکومت پر کس طرح کے خطرے منڈ لا رہے ہیں۔ صاحب اختیار و استطاعت افراد اس ماہ کا بھر پور فائدہ اٹھا کرکچھ مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے بطور، مگر زیاد ہ تر اپنے آپ کو سیکولر جتانے اور اس کی نمائش کے لیے افطار پارٹیوں کا اہتمام کراکے اپنا ووٹ بینک پکا کروانے کا بھی سامان کرتے تھے

۱۹۹۸ء میں بی جے پی کے صدر دفتر پر منعقد افطار کی تقریب میں جب میں پہنچا تو دیکھا کہ پارٹی آفس کے وسیع و عریض لان میں شامیانہ لگا ہوا تھا، جس کے دروازے پر خود واجپائی اور چند دیگر لیڈران ٹوپی پہنے مہمانوں کا استقبال کر رہے تھے۔ ابھی افطار میں آدھا گھنٹہ باقی تھا، مگر شامیانہ کے اندر چائے، سموسہ اور کھجوروں کا دور چل رہا تھا۔لوگ آرام سے کھا پی رہے تھے، افطار کے وقت کا کسی کو احساس نہیں تھا۔ سید شاہنواز حسین، جو بعد میں مرکزی وزیر کے عہدے پر فائز ہوئے، ان دنوں بی جے پی یوتھ ونگ کے لیڈر تھے۔ بستی نظام الدین اور دیگرعلاقوں سے چنندہ مسلمانوں کو افطار پارٹی میں لانے کی ذ مہ داری ان کو دی گئی تھی۔ وہ کیٹرنگ والے سے الجھ رہے تھے کہ افطار سے قبل ہی انھوں نے ناشتے کی قابیں کیوں سجائی ہوئی تھیں۔ خیر جب افطار کا وقت ہوا، تو خالی قابیں روزہ داروں کا منہ چڑا رہی تھیں۔کسی طرح پانی وغیرہ پی کر روزہ تو کھولا۔ اب مغرب کی نماز ادا کرنے کا کوئی نظم نہیں تھا۔جن مسلمانوں کو تقریب میں لایا گیا تھا، و ہ شاہنواز پر برس رہے تھے۔ کسی طرح اس نے دفتر کے پچھواڑے میں نماز کے لیے لان کو صاف کروایا۔ اب جس وقت روزہ دار نماز ادا کررہے تھے، کیٹرنگ والے نے ڈنر پیکٹ بانٹنے شروع کردیے۔ بجائے قابوں میں کھانا پروسنے کے، پارٹی نے ڈنر پیکٹوں کا انتظام کیا ہوا تھا۔ جب تک نماز ختم ہو جاتی اور روزہ دار شامیانہ میں واپس آجاتے، معلوم ہوا کہ سبھی ڈنر پیکٹ ختم ہو چکے تھے۔ بھوکے پیاسے روزہ دار شاہنواز اور بی جے پی کو صلواتیں سناتے ہوئے گھروں کو روانہ ہوئے۔

دارالحکومت دہلی میں 2014ءمیں وزیر اعظم نریندر مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد سے ہی اس ماہ کی رونقیں چھن گئی ہیں۔ مودی کی دہلی آمد کے فوراً بعد ہی دارالحکومت میں افطار پارٹیوں کا سلسلہ بند ہوگیا۔چونکہ انھوں نے اپنے وزراء کو بھی پارٹیوں میں شامل ہونے سے منع کردیا ، اس لیے دیگر سماجی تنظیموں نے بھی آہستہ آہستہ افطار پارٹیوں کے انعقاد سے ہاتھ کھنچ لیا۔ افطار پارٹیوں کو سیاسی مقاصد کے حصول کا ذریعہ بنانے پر بحث کی گنجائش تو ہے، مگر بھارت جیسے تکثیری معاشرہ میں یہ دیگر مذاہب یا طبقوں تک پہنچنے اور آؤٹ ریچ کا ایک ذریعہ بھی تھا۔ایک منظم اور پروقار ماحول میں روزہ کھولنا اور نماز مغرب کی صف بندی اور خاص و عام کا کندھے سے کندھا ملانا کہیں نہ کہیں ایک پیغام کا کام ضرورکرتا تھا۔

کشمیر میں بھی چونکہ افطار پارٹیوں کا کوئی رواج نہیں تھا، اس لیے دہلی آمد کے بعد یہ میرے لیےبھی ایک نیا تجربہ تھا۔ کشمیر میں تو زمانہ امن میں بھی افطار سے قبل ایک طرح سے کرفیو سا لگتا تھا۔مارکیٹ سنسان ہوجاتے تھے۔ لوگ عام طور پر اپنے گھروں یا مقامی مساجد میں ہی روزہ کھولنے کو ترجیح دیتے تھے۔ افطار کا بھی الگ سے کوئی اہتمام نہیں ہوتا تھا۔ جلد ہی نماز ادا کرنے کے بعد لوگ ڈنر کرتے تھے۔اس ماہ کے دوران تقریباً سبھی سرگرمیاں اور روابط ماند پڑ جاتے تھے۔

اپنے دور طالب علمی میں ہی 90 کے اوائل میں مجھے پہلی بار سابق وزیر اور کیرالہ صوبہ کے موجودہ گورنر عارف محمد خان کی رہائش گاہ پر افطار پارٹی میں شرکت کا موقع ملا۔ دوران طالب علمی ان کے ایک قریبی رشتہ دار نے دعوت نامہ دےکر آنے کی تاکید کی تھی۔افطار پارٹی کیا تھی، بس ایک عالیشان شادی کا سا سماں تھا۔ جن سیاسی و سماجی چہروں کو ٹی وی یا اخباروں میں دیکھتے آرہے تھے، وہ گوشت و پوست کے ساتھ الگ الگ میزوں پر برا جمان تھے۔ وزیر اعظم سمیت سبھی مرکزی وزراء، بالی وڈ کے نامور اداکار وغیرہ موجود تھے۔

اس پارٹی میں میری پہلی بار مرحوم مفتی محمد سعید سے ملاقات ہوئی۔ گو کہ سوپور میں کئی بار پبلک جلسوں میں ان کی تقاریر سننے کا موقع ملتا تھا، مگر بالمشافہ کبھی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ وہ ابھی حال تک بھارت کے وزیر داخلہ رہ چکے تھے۔ اس لیے ان کا ساتھ خاصا تام جھام تھا۔ کشمیر ی ہونے کی حیثیت سے بھی میں ان کو گہرے شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ میں ان کوہندوستانی ایجنسیوں کا پروردہ، جس کو کشمیری خواہشات کو کچلنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہو،سمجھتا آرہا تھا، جس نے 1977ء میں شیخ محمد عبداللہ کی حکومت کو گرایا اور بعد میں 1984ء میں دہلی کی ایما پر فارق عبداللہ کو معزول کروایا ،اور جو کشمیر میں سیاسی بے چینی کا سبب بھی رہا۔

میری میزبان نے میرا ان سے تعارف کرایا توانھوں نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر شکایت کی کہ کشمیری مسلم نوجوان یا تو صحافت میں آتے ہی نہیں، یا کیریئرکے لیے دہلی کا رخ نہیں کرتے۔انہوں نے مجھے یاد دلایا کہ مجھ سے قبل یو این آئی کے شیخ منظور احمد اور سنڈے آبزرور کے ایڈیٹر محمد سعید ملک ہی بس دو ایسے کشمیری مسلمان ہیں، جنھوں نے دہلی میں صحافت میں کیریئر بنایا۔ انھوں نے کسی کو شیخ منظور، جو ان دنوں یو این آئی نیوز ایجنسی میں سینئر پوزیشن میں کام کرتے تھے، کو ڈھونڈنے کے لیے کہا۔ منظور صاحب پر نظر پڑتے ہی انھوں نے مجھے ان سے متعارف کرواکر ان کو صلاح دی کہ وہ میرا خیال رکھیں۔ مجھے بھی مشورہ دیا کہ کشمیر واپس جانے کے بجائے دہلی ہی میں جرنلزم میں جگہ بناؤں اور منظور صاحب اور ملک صاحب سے مشورہ لیتا رہوں۔

گو کہ مودی نے آتے ہی وزیر اعظم ہاؤس میں افطار کا سلسلہ تو بند کروادیا، مگر صدر پرنب مکھرجی نے صدارتی محل میں اس کو موقوف نہیں کیا تھا۔ 2017ء میں اپنی مدت صدارت ختم ہونے تک ا نھوں نے اس سلسلہ کو جاری رکھا۔ تمام ممالک کے سفیر ، اپوزیشن لیڈران و دیگر افراد اس میں شرکت تو کرتے تھے، مگر پروٹوکول کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مودی نے کبھی بھی اس میں شرکت نہیں کی۔ مگر ایک یاد و وزیر حکومت کی نمائندگی کرنے پہنچ جاتے تھے، جو صدر کی ہال میں آمد پر ان کا استقبال کرکے فوراً ہی رخصت ہوجاتے تھے کہ کہیں دیگر مہمانوں سے ملنے جلنے کے دروان ان کی فوٹو ریکارڈ پر نہ آجائے۔

راشٹرپتی بھون میں ایک بار افطار پارٹی کے بعد مغرب کی اذان تو ہوئی، مگر نماز کے لیے امام کا کہیں اتا پتہ نہیں تھا۔وسیع و عریض صدارتی اسٹیٹ کے احاطہ میں ایک مسجد موجود ہے۔ اسی مسجد کے یا پارلیمنٹ کے بغل میں جامع مسجد نئی دہلی کے امام صاحبان اس موقع پر امامت کرتے تھے۔ مگر دونوں اس دن غائب تھے۔ معلوم ہوا کہ نئی دہلی کی جامع مسجد کے امام محب اللہ ندوی جو اب خیر سے رام پور سے لوک سبھا کے منتخب ممبر ہیں، دیرسے آنے کی وجہ سے باہر سکیورٹی اہلکاروں سے الجھے ہوئے تھے۔ اس دوران تمام مسلم ممالک کے سفراء، اراکین پارلیمان اور دیگر زعماء صفوں میں کھڑے امام کو تلاش کر رہے تھے۔ راجیہ سبھا میں لیڈر آف اپوزیشن غلام نبی آزاد ادھر ادھر دیکھ رہے تھے کہ پاکستانی سفیر عبد الباسط نے آگے بڑھ کر امامت کا منصب سنبھال کر نماز ادا کروائی۔ اس دن معلوم ہوا کہ باسط صاحب ایک خوش الحان قاری بھی ہیں۔ایک روح پرور منظر تھا کہ تمام دنیا کے مسلم ممالک کے سفرا اور ہندوستانی مسلم زعماء، اشرافیہ اور مسلم اراکین پارلیمان ایک پاکستانی سفیر کی اقتدا میں نماز ادا کررہے تھے۔

پرنب مکھرجی مسلم سفرا سے ملتے ہوئے۔ پاکستانی سفیر عبدالباسط بھی موجود ہیں

اسی طرح ایک بار صدارتی محل ہی میں وزیر اعظم من موہن سنگھ کی دوسری مدت حکومت میں مرکزی وزیر فاروق عبداللہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ یہاں اس تقریب میں ہم دو کے بغیر کوئی اور روزہ دار نہیں لگ رہا، افطار کا وقت ہورہا ہے، اس لیے ہم ڈنر ہال کے گیٹ کے پاس بیٹھ کر فوراً ہی اندر چلے جاتے ہیں۔ صدروسیع و عریض اشوکاہال میں آکر سبھی مہمانوں سے ایک ایک کرکے مل رہے تھے، فاروق صاحب سمجھا رہے تھے کہ ہم افطار کرنے آئے ہیں، دیگر افراد کی طرح صدر سے ملنے نہیں آئے ہیں۔ شاید راشٹرپتی بھون کے بیرے بھی ہمیں دیکھ کر تاسف کر رہے تھے۔ ان میں سے ایک نے آکر ہمیں تسلی دی کہ افطاری میں خاصے لوازمات وافر مقدار میں ہیں۔ وہ یہ کہنے کی کوشش کررہا تھا کہ ندیدوں کی طرح دروازے پر پہرہ دینے کی ضرورت نہیں ہے، افطار کے وقت ناشتہ وغیرہ مل ہی جائےگا۔ میں نے فاروق صاحب سے پوچھا کہ ان کی رنگیلی طبعیت اور امیج کے برعکس وہ آج کل مؤمن کیسے ہوگئے ہیں؟ ان کا کہنا تھا کہ ماہ رمضان میں وہ سبھی دنیاوی کام چھوڑ کر روزوں کی سختی سے پابندی کرتے ہیں، اور ختم قرآن شریف بھی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ان کی ماں اکبر جہاں کا اعجاز ہے کہ وہ ان کو اور دیگر بھائیوں اور بہنوں کو روزہ اور تلاوت قرآن کی تاکید کرتی تھیں۔اپنے باپ شیخ محمد عبداللہ کا ذکر کرتے ہوئے وہ بتا رہے تھے کہ وہ بہت ہی سخت گیر قسم کے والد تھے اور اکثر ان کو چھڑی سے پیٹتے تھے، والدہ ہی ان کو چھڑا تی تھی۔ بیگم اکبر جہاں، ایک نومسلم انگریز جان نیڈواور ایک کشمیر ی گوجر لڑکی کی اولاد تھیں۔سخت مذہبی اور صوم و صلوات کی پابند خاتون تھی۔ فاروق صاحب نے کہا کہ اپنی والدہ کی یاد میں وہ رمضان میں روزہ و نماز کا سختی کے ساتھ اہتمام کرتے ہیں۔

من موہن سنگھ کی وزات اعظمیٰ کے دور میں وزیر اعظم ہاؤس میں افطار پارٹی کے موقع پر دیکھا کہ چند مسلم زعما نے وزیر اعظم اور سونیا گاندھی کو گھیرا ہوا تھا. وہ سوال کر رہے تھے کہ حکومت کی طرف سے چند سال قبل مسلمانوں سے متعلق سچر کمیٹی کی سفارشات کو منظور کرنے کے باوجود عملی اقدامات کیوں نہیں اٹھائے جا رہے ہیں؟ پبلک سیکٹر بینک مسلم تاجروں یا اسٹارٹ اپ کو قرضے دینے سے لیت و لعل سے کام لیتے ہیں۔ میں انھی دنوں میرٹھ کسی اسٹوری کے سلسلے میں گیا تھا، اور وہاں ہاشم پورہ محلہ کے ۱۹۸۹ء کے فسادات کے مثاثرین سےملنے پہنچا۔ فسادات کے متاثرین میں ایک ڈاکٹر جو دماغی توازن کھو بیٹھے تھے، ٹھیک ہوکر بزنس کرنا چاہتے تھے، کیونکہ ان کا میڈیکل لائسنس کینسل کر دیا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومتی اعلانات کے باوجود، کوئی بھی بینک لون نہیں دے رہا تھا۔ وہ مجھ سے اپنے ایک پرنٹنگ پریس میں گفتگو کر رہے تھے۔ میں نے پوچھا کہ یہ پریس پھر کیسے وجود میں آیا؟ تو انہوں نے کہا کہ سال بھر قبل ادھر چوک میں ایک کشمیری بینک کھلا۔ جب میں نے وہاں درخواست دی، تو انھوں نے فوراً منظور کی۔ معلوم ہوا کہ جموں و کشمیر بینک، جو بھارت کا پبلک سیکٹر کا چوتھا بڑا بینک تھا، اس کی شاخ کھل گئی تھی۔ اس سے میرے دماغ کی بتی جیسے روشن ہوگئی۔ وزیر اعظم کے ساتھ اس گروپ کی تکرار سنتے ہوئے، میں نے وہیں کھڑے ہی مشورہ دیا کہ بینکوں کے اس رویہ کا حل بس یہ ہے کہ جموں و کشمیر بینک کو ترغیب دی جائے کہ مسلم علاقوں میں زیادہ سے زیادہ اپنی شاخیں کھولے۔

من موہن سنگھ نے کہا کہ ابھی افطار کا وقت ہو رہا ہے۔ ڈنر کے بعد چند منٹ اندر بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔ ان زعما کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ پر میں نے ان سے کہا کہ اس وقت ملنے کے بجائے ان سے باضابطہ اپائنٹمنٹ لیکر تیاری کے ساتھ میٹنگ کا بندوبست کرو۔ ہوسکے تو سچر کمیٹی کے افسران ظفر محمود اور ابو صالح شریف کو اپنے ساتھ وفد میں لے کر ملاقات کا بندوبست کرو۔ وزیر اعظم کے ساتھ ملاقات کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے، چونکہ اس کو معلوم ہوگا کہ ملاقات کا ایجنڈا کیا ہے وہ کیبنٹ سیکرٹری یا کم سے کم فنانس سیکرٹری کو بھی بلائیں گے، اور ہاتھوں ہاتھ آپ کے مسائل حال ہوجائیں گے۔ مگر کون سنتا۔ خیر ڈنر کے بعد لان کے متصل کمرے میں ان زعما کو بلایا گیا۔ چونکہ جس وقت انھوں نے وزیر اعظم کو گھیرا ہوا تھا، میں بھی موجود تھا، اس لیے گھیر کر مجھے بھی ان کے ساتھ ہی لے جایا گیا۔

وزیر اعظم کے سیٹ پر بیٹھتے ہی، بجائے ان سے سچر کمیٹی کی سفارشات پر گفتگو کی جاتی، لکھنو سے آئے ایک صاحب نے اعتراض کیا کہ حال ہی میں بھار ت نے کیوں انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی میں ایران کے خلاف ووٹنگ کی؟ اس معامعلہ کو لیکر انھوں نے خوب تقریرجھاڑی۔ مجھے بس اتنا سنائی دیا کہ من موہن سنگھ نے کہا کہ اس میں ملک کا مفاد تھا، اس پر وہ کوئی اور گفتگو نہیں کریں گے۔ لگا کہ اب اپنے مسائل پر یہ زعما بات کریں گے کہ ایک کونے سے ایک اور صاحب نے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر ہو رہی بربریت کا ایشو اٹھایا، اور سوال کیا کہ ان کی حکومت اس پر کیوں خاموش ہے؟ دس منٹ کی یہ میٹنگ اسی غیر سنجیدگی اور خارجہ پالیسی سے متعلق تقریروں کے ساتھ ختم ہوگئی۔ جس کےلیے یہ میٹنگ منعقد کی گئی تھی، وہ ایشو ہی نہیں اٹھائے گئے۔ اس واردات سے پرے افطار پارٹیاں یقیناً حکمرانوں کے ساتھ ایک کھلے اور باوقار ماحول میں براہ راست ملنے کا موقع فراہم کرتی تھیں.

بتایا جاتا ہے کہ 70کی دہائی کے اواخر میں سوشلسٹ لیڈر ہیم وتی نندن بہوگنا نے مسلمانوں میں سیاسی آؤٹ ریچ کے لیے افطار پارٹیوں کا سلسلہ شروع کیا تھا، جس کو بعد میں اندرا گاندھی اور دیگر سیاسی پارٹیوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ سابق وزرائے اعظم اٹل بہاری واجپائی اور من موہن سنگھ، جن کی حکومت حلیف پارٹیوں کی بیساکھیوں پر ٹکی ہوئی تھی، کے دور میں یہ افطار پارٹیاں پس پردہ سیاسی سرگرمیوں اورنا راض حلیفوں کو منانے کے کا م بھی آتی تھیں۔وزیر اعظم مودی اور ان کے دست راست وزیر داخلہ امت شاہ نے جس طرح انتہائی کامیابی کے ساتھ مسلمانوں کو ایک طرح سے سیاسی اچھوت بنا کر رکھ دیا ہے، افطار پارٹیوں کا خاتمہ اس کی ایک واضح مثا ل ہے۔ حال اب یہ ہے کہ سیکولر پارٹیاں بھی اپنے حامیوں کو مشورہ دیتی ہیں کہ تزک و احتشام کے ساتھ افطار پارٹیوں کا اہتمام نہ کیا جائے۔ اگر ذاتی طور پر کوئی مقامی لیڈر افطار کا اہتمام کرتا ہے تو لیڈروں کی تصویر یا پارٹی کا بینر آویزاں نہیں ہونا چاہیے۔ چند سال قبل اتر پردیش میں سماج وادی پارٹی نے لیڈروں کو ہدایات دی تھیں کہ اگر کسی کی افطار پارٹی میں جانا ہوا تو وہاں ٹوپی لگا کر سیلفی یا تصویریں نہ کھنچیں، یا کم از کم ان کو سوشل میڈیا کی زینت نہ بنائیں۔

ستم ظریفی تو یہ ہے کہ جہاں سیکولر پارٹیاں افطار پارٹیوں سے دور بھاگتی نظر آئیں، وہیں دوسری طرف ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم آر ایس ایس کی شاخ مسلم راشٹریہ منچ پچھلے سالوں سے کئی شہروں میں مسلمانوں کے لیے افطاری کا بندوبست کرتی ہے۔ اس سال تو دہلی میں اسرائیلی سفارت خانہ نے بھی افطار پارٹی منعقد کی۔ پتہ نہیں کہ اس میں شامل مسلمانوں نے اسرائیلی سفیر کو فلسطین اور غزہ پرمسلط جنگ کے حوالے سے اپنے تحفظات سے آگاہ کیا یا بس شکم بھر کر ہی واپس لوٹے۔

خیر بھارت میں اس نئے رجحان کے تناظر میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا مسلمانوں کو واقعی سیاسی اچھوت بنایا گیا ہے، اور کیا جو پارٹیاں مسلمانوں کے حقوق یا ان کی تقریبات میں شرکت کریں گی، ان کو ووٹ نہیں ملیں گے۔ بی جے پی نے تو مسلمانوں کو چھوڑ دیا ہے، مگر اب بیشتر سیاسی پارٹیوں نے بھی تسلیم کر لیا ہے کہ اگر وہ مسلمانوں کے قریب نظر آتی ہیں، تو انھیں ہندو اکثریتی طبقہ کا ووٹ نہیں ملے گا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق مسلمانوں کے لیے اتنا برا وقت پہلے کبھی نہیں آیا تھا۔ یہاں تک کہ تقسیم کے موقع پر بھی نہیں۔ گو کہ دنیامیں مسلمانوں کی آبادی کا دسواں حصہ بھارت میں ہے، مگر اس کے باوجود وہ سیاسی یتیم بنائے گئے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ اسلام جو کہ ایک آفاقی سماجی نظام کا نقیب بن کر دنیا میں آیاتھا، اس کے ماننے والوں نے ہندوستان میں کبھی بھی صدیوں سے دبے کچلے مظلوم طبقوں کے ساتھ اتحاد بنانے کی کوشش نہیں کی، نہ ہی اپنی حکومت اور طاقت کا استعمال کرکے ان طبقوں کو وسائل مہیا کرائے۔

Comments

Avatar photo

افتخار گیلانی

افتخار گیلانی برصغیر کے معروف صحافی ہیں۔ سیاست اور خارجہ پالیسی جیسے موضوعات کی رپورٹنگ کرنے کا تین دہائیوں کا تجربہ ہے۔ ہندوستان کے بہت سے صحافتی اداروں میں ادارتی ذمہ داریوں کے علاوہ ترکی کی نیوزایجنسی انادولو اور جرمن ادارے ڈوئچے ویلے کےلیے کام کر چکے ہیں۔ ان کے کالم پاکستان اور ہندوستان کے کئی اخبارات میں چھپتے ہیں اور بڑے پیمانے پر سراہے جاتے ہیں۔ کئی میڈیا ایوارڈ حاصل کیے ہیں۔ تہاڑ کے شب و روز نامی کتاب کے مصنف ہیں۔

Click here to post a comment