ہوم << کچھ مفت مل رہا ہے تو آپ پروڈکٹ ہیں - نیر تاباں

کچھ مفت مل رہا ہے تو آپ پروڈکٹ ہیں - نیر تاباں

جیتو پاکستان سے اب تک یہی گلہ رہا کہ عین افطار کے وقت اس کھیل تماشے کی کیا سینس بنتی ہے۔ اوپر سے پروگرام میں ہونے والے اوٹ پٹانگ، بے ہودہ حرکتیں۔ لیکن صحافی فرحان ملک نے اسے پرت در پرت کیا خوب کھولا ہے۔ فوڈ فار تھاٹ! مکمل ویڈیو دیکھیے۔ لب لباب یہاں شئیر کیا ہے، کیونکہ ہم میں سے اکثر لمبی ویڈیو دیکھنے سے کتراتے ہیں۔

۔ نیت دیکھیے۔ کیا ہماری نیت درست ہے؟ یہ جو مال بانٹا جا رہا ہے کیا یہ اسی نیت سے بانٹا جا رہا ہے کہ غریب کی مدد ہو؟ یا پھر اپنی مارکیٹنگ مقصود ہے؟ کروڑوں میں اشتہار بنانے کے بجائے یہ کام سستے میں ہو رہا ہے۔

۔ ”کچھ مفت مل رہا ہے تو آپ پروڈکٹ ہیں “ پچھلے کچھ سالوں سے ہم جیسے غریب کو بیچ رہے ہیں۔ کمپنی کی مارکیٹنگ ہو رہی۔ فہد مصطفی اپنی جاب کا پیسہ لے رہا. نقصان تو غریب کا ہو رہا۔ ان سے تعلیم، صحت، جاب سب چھینا۔ لے دے کر عزت نفس بچی تھی، وہ بھی چھین لی۔

۔ شوکت خانم، انڈس ہاسپٹل کو اربوں کی ڈونیشن ملتی ہے۔ صدقہ تو احسن ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ پورا تماشہ کھڑا کر کے صدقہ کرنا۔ اور اگر آپ کو لگتا ہے کہ نہیں، یہ صدقہ نہیں۔ یہ غریبوں کے لئے نہیں تو یہ الگ قسم کی مصیبت ہے۔ وہ غریبوں کے لئے کیوں نہیں؟ جہاں ملک کی ایک کثیر آبادی غریب ہے۔ وہاں پیسہ غریب میں بانٹنے کے بجائے یوں کیوں لٹایاجا رہا ہے؟

۔ مشتاق چھاپرا، ڈاکٹر باری، بڑے بڑے چیرٹی نیٹ ورک چلانے والوں کے بارے میں ہم نے سنا کیوں نہیں؟ ان کا فوکس کام ہے۔ لیکن جس انسان کی وجہ شہرت بس خیرات کرنا ہے، کوئی انسان *اپنی ذات* کی پبلسٹی کرتا ہے تو یہ سوچنے کی بات ہے کہ وہ کس چیز کی طرف سے دھیان ہٹا رہا ہے۔ ملک ریاض کی مثال لے لیں۔

۔ بی بی مریم ایک ایموشنل ٹراما میں ہیں کہ بن باپ کے بچہ ہونے کو ہے۔ جسمانی تکلیف میں بھی ہیں۔ اس سب کے باوجود اللہ کہہ رہے ہیں کہ کھجور کا تنا ہلاؤ اور کھا لو۔ وہ جو بن باپ کے بچہ پیدا کر سکتا ہے، وہ کھجور نہیں دے سکتا؟ پتہ چلا کہ ایفرٹ کرو۔ اسی سے آسانی ہے۔ اسی پر اجر ہے۔

۔ ہم کیا سکھا رہے ہیں لوگوں کو؟ یہی کہ میرٹ پر، ایفرٹ پر کوئی کام نہیں۔ اوٹ پٹانگ حرکتیں کر کے توجہ لیں، آپ نے کار جیت لی۔ نوکری کے لئے لکی ڈرا کرنے لگیں تو کیا جو چنا جائے گا، وہ واقعی اہل ہو گا؟ کرکٹ ٹیم کا کپتان ایسے چنا جائے۔ ڈبہ کھولنے سے۔ نا اہل نکما انسان سیلیکٹ ہو سکتا ہے۔

۔ معاشرے کی اخلاقیات کو چیلنج کیا جا رہا ہے۔ صحیح غلط سب گڈ مڈ ہو رہا ہے۔ جس بندے نے کار جیتی، اسی بندے کا پڑوسی جو حلال روزی کما رہا، تین سال سے کار لینا چاہتا، وہ اور اس جیسے کتنے ہی گھروں میں یہ احساس جلتا ہو گا کہ محنت کا کیا فائدہ؟ محنت سے کامیابی نہیں ملے گی، کسی خاص شو میں جانے سے ملے گی۔

. میڈیا سوسائٹی پر بہت اثر رکھتا ہے۔ سو سال پہلے جب سگریٹ پینا مردوں میں عروج پر تھا۔ عورتیں اسے نسوانیت کے خلاف سمجھتی تھیں۔ مسئلہ آیا کہ کیسے عورتوں کو اس طرف مائل کریں کہ سیلز ڈبل ہو جائیں۔ اس وقت کے سب سے بڑے مارکیٹر نے خوبصورت، فیشن ایبل عورتیں ہائر کیں، ایسٹر پریڈ میں انہیں پھیلا دیا۔ اس کے اشارہ کرنے پر انہیں سگریٹ پینا تھا۔

دوسری طرف وہ نیو یارک کی نیوز ایجنسیز کے پاس گیا کہ مردوں کے ظلم کے خلاف آج پریڈ میں احتجاجاً عورتیں سگریٹ پیئں گی۔
اگلے دن اخباروں کی شہ سرخی تھی،
Women of Newyork light torches of freedom ساتھ ہی سگریٹ کی سیل اوپر آسمان پر پہنچ گئی۔ تو یوں میڈیا ہمارے ساتھ گیم کرتا ہے۔ دیکھنا ہے کہ یہ شوز ہمیں کس طرح manipulate کر کے بھکاری ذہنیت کا بنا رہے ہیں۔

۔ اوپر سے لے کر نیچے تک مانگنے کا کلچر پروموٹ کیا جا رہا ہے۔ جب جب آپ کسی بھکاری کو پیسے دیتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ جاری رکھو۔ آپ اس کانٹریکٹر کے کاروبار کو چلا رہے ہیں۔ کبھی کسی بھکاری کو پیسے نہ دیں۔

Comments

Avatar photo

نیر تاباں

نیر تاباں کینیڈا میں مقیم ہیں۔ شعبہ تعلیم سے تعلق ہے۔ کہانی کار اور صداکار ہیں۔ منفرد طرز تحریر ان کی پہچان ہے۔ بچوں کی متعدد کتابوں کا انگریزی ترجمہ کرچکی ہیں۔ ننھے بچوں سے لے کر خواتین تک کی تربیت سے متعلق بھی کوشاں رہتی ہیں۔ ورکشاپس اور کورسز ڈیزائن کیے ہیں، سبھی کے لیے الگ کلاسز ہوتی ہیں۔ ماحول دوست ہیں اور اس حوالے سے آگاہی پھیلاتی ہیں۔

Click here to post a comment