دنیا بھر میں انتظامی اکائیوں کو چھوٹے اور مؤثر یونٹس میں تقسیم کرنا ایک عام چلن ہے۔ اس کی مثال چین، بھارت، امریکہ، انڈونیشیا اور ترکی جیسے ممالک میں دیکھی جا سکتی ہے، جہاں انتظامی وحدتیں بڑی تعداد میں موجود ہیں، تاکہ گورننس بہتر ہو اور مقامی مسائل کا حل مقامی سطح پر نکالا جا سکے۔ اس حکمتِ عملی کو "مائیکرو مینجمنٹ" کہا جاتا ہے، جس کا مقصد فیصلہ سازی اور وسائل کی تقسیم کو زیادہ مؤثر بنانا ہے۔
پاکستان میں معاملہ الٹ کیوں؟
پاکستان میں صرف چار صوبے ہیں، جبکہ انتظامی چیلنجز روز بروز بڑھ رہے ہیں۔ آزاد کشمیر، گلگت بلتستان، اور اسلام آباد کو ملا کر کچھ تنوع تو ہے، مگر حقیقی معنوں میں اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کا فقدان ہے۔
دنیا کے قابل ذکر ممالک ان کی آبادی اور صوبوں ،ریاستوں کی تعداد
چین
آبادی: 1.4 ارب
23 صوبے، 5 خودمختار علاقے، 4 میونسپلٹیز، اور 2 خصوصی انتظامی علاقے (ہانگ کانگ اور مکاؤ)
بھارت
آبادی: 1.42 ارب
ریاستیں: 28 ریاستیں اور 8 مرکزی زیر انتظام علاقے
امریکہ
آبادی: 33 کروڑ
ریاستیں: 50 ریاستیں اور 1 وفاقی ضلع (واشنگٹن ڈی سی)
پاکستان
آبادی: 24 کروڑ
صوبے: 4 صوبے
2 خودمختار علاقے (آزاد کشمیر، گلگت بلتستان) اور 1 وفاقی دارالحکومت (اسلام آباد)
روس
آبادی: 14 کروڑ
انتظامی تقسیم: 85 وفاقی اکائیاں
برازیل
آبادی: 21 کروڑ
ریاستیں: 26 ریاستیں اور 1 وفاقی ضلع
انڈونیشیا
آبادی: 27 کروڑ
صوبے: 38 صوبے
نائجیریا
آبادی: 22 کروڑ
ریاستیں: 36 ریاستیں اور 1 وفاقی دارالحکومت
آسٹریلیا
آبادی: 2.6 کروڑ
ریاستیں: 6 ریاستیں اور 2 مرکزی علاقے
ترکی
آبادی: تقریباً 8.5 کروڑ
انتظامی تقسیم: 81 صوبے
بنگلہ دیش
آبادی: تقریباً 17 کروڑ
انتظامی تقسیم: 8 ڈویژنز
ملائیشیا
آبادی: تقریباً 3.4 کروڑ
انتظامی تقسیم: 13 ریاستیں اور 3 وفاقی علاقے
سعودی عرب
آبادی: تقریباً 3.6 کروڑ
انتظامی تقسیم: 13 صوبے
متحدہ عرب امارات
آبادی: تقریباً 1 کروڑ
انتظامی تقسیم: 7
یہ اعدادو شمار اس بات کا ثبوت ہیں کہ ایک وسیع اور متنوع ملک کے لیے زیادہ انتظامی اکائیاں ضروری ہوتی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں نئے صوبے بنانے یا انتظامی اکائیوں کو بڑھانے کی مزاحمت کیوں کی جاتی ہے؟ ایک عام نظریہ یہ ہے کہ سیاست دان اور بیوروکریسی نہیں چاہتے کہ اختیارات تقسیم ہوں۔ بڑے صوبوں کا مطلب ہے کہ زیادہ بجٹ، زیادہ فنڈز، اور زیادہ کنٹرول چند ہاتھوں میں رہے۔ اگر پنجاب، سندھ، خیبرپختونخوا، اور بلوچستان کو مزید چھوٹے صوبوں میں تقسیم کیا جائے تو فنڈز اور وسائل بھی تقسیم ہوں گے، جس سے سیاست دانوں کی گرفت کمزور ہو سکتی ہے۔
اگر پاکستان کو بہتر طرزِ حکمرانی کی طرف بڑھنا ہے تو اسے دنیا سے سیکھنا ہوگا۔ زیادہ اور مؤثر انتظامی اکائیاں ترقی کا راستہ ہموار کر سکتی ہیں، جبکہ موجودہ نظام مسائل کو مزید الجھاتا جا رہا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ
وسائل کی منصفانہ تقسیم ہو: تمام علاقوں کو برابر مواقع ملنے چاہییں، تاکہ احساسِ محرومی کم ہو۔
انتظامی بوجھ کو کم کیا جائے: بڑے صوبے سنٹرلائزڈ گورننس کا سبب بنتے ہیں، جس سے بدانتظامی اور کرپشن کے مواقع بڑھ جاتے ہیں۔
لوکل گورنمنٹ کو طاقتور بنایا جائے: جیسے ترکی میں ہر ضلع (ولایت) کو خود مختاری دی گئی ہے، ویسے ہی ضلعی حکومت قائم کی جائیں، اور انتخابات کے ذریعہ اقتدار کی منتقلی نچلی سطح تک پہنچائی جائے. پاکستان میں بھی بلدیاتی نظام کو فعال کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے.
تبصرہ لکھیے