ہوم << یرغمال بنائی جانے والی ٹرینیں- ثمرعباس لنگاہ

یرغمال بنائی جانے والی ٹرینیں- ثمرعباس لنگاہ

ریل گاڑی جب چلتی ہے تو اس کے پہیوں کے نیچے صرف پٹڑی ہی نہیں ہوتی بلکہ تاریخ کی چیخیں بھی دبی ہوتی ہیں۔ کبھی یہ چیخیں برصغیر کے بٹوارے کے وقت سنی گئیں، جب خون سے بھیگی ٹرینیں لاہور اور امرتسر کے اسٹیشنوں پر رکتی تھیں۔ کبھی یہ چیخیں دھواں بن کر انجن سے نکلیں، جب مزدوروں کے ہاتھوں نے ریلوے لائنیں بچھائیں اور آج یہی چیخیں بلوچستان کی سنگلاخ وادیوں میں گونج رہی ہیں، جہاں ایک اور ٹرین یرغمال بنا لی گئی۔

11 مارچ 2025ء، یہ وہ دن تھا جب مسلح افراد نے بولان کے پہاڑوں میں ریل گاڑی کو یرغمال بنایا۔ سینکڑوں مسافر اس سفر پر روانہ ہوئے تھے مگر کسی کو خبر نہ تھی کہ ان کے لیے یہ سفر آخری ثابت ہوگا۔ چند لمحوں میں ہی ہنستے بستے چہرے دہشت میں ڈوب گئے، دعاؤں کی سرگوشیاں چیخوں میں بدل گئیں اور ریل گاڑی ایک قید خانے میں تبدیل ہوگئی۔

اس ریل گاڑی میں ایک نومولود بچہ ماں کی آغوش میں سویا سنہرے خواب دیکھ رہا تھا ۔۔۔ ایک مزدور نے اپنی اجرت کے خواب سجائے تھے، ایک طالب علم نے کتابوں کو مضبوطی سے تھام رکھا تھا۔ مگر بندوقوں کی گھن گرج میں خوابوں کی زبان نہیں ہوتی ۔۔۔ گولی کی آواز الفاظ کو کھا گئی اور یوں تاریخ کے اوراق میں ایک اور داغ ثبت ہو گیا۔

یہ پہلا موقع نہیں تھا، شاید آخری بھی نہ ہو ۔۔۔ ماضی میں بھی پاکستان کے ریلوے نظام پر حملے ہوتے رہے ہیں۔ 2005ء سے 2017ء تک بلوچستان میں ریل گاڑیوں پر 64 حملے ہوچکے ہیں، جن میں درجنوں مسافر مارے گئے۔ 2015ء میں کوئٹہ_راولپنڈی جعفر ایکسپریس کو تخریب کاری کا نشانہ بنایا گیا، 2021ء میں سندھ کے علاقے گھوٹکی میں ملت ایکسپریس کو نشانہ بنایا گیا اور 2022ء میں نوشکی میں ریلوے ٹریک پر دھماکے سے کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔ ہر حملے کے بعد تحقیقات ہوئیں، رپورٹس بنیں، مگر پھر خاموشی چھا گئی ۔۔۔ پٹڑی پر سفر کرنے والے مسافر آج بھی غیرمحفوظ ہیں۔

ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ریلوے کا نظام ترقی کر رہا ہے۔ نئی ٹرینیں متعارف کرائی جا رہی ہیں مگر یہ ترقی کیسی ہے جہاں مسافر اپنی منزل تک پہنچنے کا یقین بھی نہیں رکھتے ۔۔۔ جہاں ایک ماں اپنے بیٹے کو الوداع کہتے ہوئے خوفزدہ ہوتی ہے کہ وہ زندہ لوٹے گا بھی یا نہیں؟

تاریخ کے صفحات پلٹیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ٹرینوں پر حملے صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں، یہ ایک عالمی مسئلہ ہے۔ 1923ء میں چین کے لینچینگ واقعے میں پوری ٹرین اغوا کرلی گئی تھی، 1999ء میں بھارت کی راجدھانی ایکسپریس پر حملہ ہوا، 2015ء میں فرانس کی ایک تیز رفتار ٹرین میں دہشت گردی کی کوشش کی گئی مگر وہاں حکومتوں نے فوری اقدامات کیے، سیکیورٹی سخت کی گئی، نظام کو بہتر بنایا گیا۔ پاکستان میں بھی اس مسئلے کا مستقل حل ضروری ہے۔

ہمیں ان زخموں کو بھولنے کی عادت پڑ گئی ہے۔ جب ایک سانحہ ہوتا ہے، اخبارات میں خبریں چھپتی ہیں، نیوز چینلز پر بریکنگ نیوز چلتی ہے مگر چند دن بعد سب معمول پر آ جاتا ہے۔ وقت ہر چیز کا علاج نہیں، وقت صرف ان زخموں کو بھر سکتا ہے جو سطحی ہوں۔ جو زخم گہرے ہوں، وہ صرف سخت فیصلوں، مستقل مزاجی اور مضبوط پالیسیوں سے ہی بھرسکتے ہیں۔ یہ وقت ہے کہ ہم اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیں۔

ریل گاڑیوں میں سیکیورٹی کو جدید بنایا جائے، مسافروں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ریلوے پولیس اور انٹیلی جنس کا کردار مزید مضبوط کیا جائے اور سب سے اہم، دہشت گردی کے خلاف حکمت عملی میں ان حملوں کو بھی شامل کیا جائے۔ جب تک ہم خود کو محفوظ نہیں بناتے، تب تک ہم اپنی آنے والی نسلوں کو ایک غیرمحفوظ پاکستان دے رہے ہیں۔

ریل گاڑی کے پہیے گھومتے رہیں گے مگر کیا ہماری تقدیر کے پہیے بھی کبھی گھومیں گے؟ یا ہم ہمیشہ بے بسی کی پٹڑی پر کھڑے اگلے حادثے کا انتظار کرتے رہیں گے؟ یہ ریل گاڑیاں یرغمال بنتی رہیں گی، جب تک کہ ہم اپنی بے حسی کو یرغمال نہیں بنا لیتے۔ یاد رکھیے! تقدیر ان ہی کا ساتھ دیتی ہے جو خود اپنی تقدیر بدلنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ اس لیے ہمیں خود کو بدلنا ہوگا، یہ نظام کو بدلنا ہوگا۔

Comments

Avatar photo

ثمر عباس لنگاہ

ثمر عباس لنگاہ نویں جماعت کے طالب علم ہیں۔ مختلف اخبارات اور جرائد میں کالم اور مضامین شائع ہوتے ہیں۔ "ماہنامہ مرقع اردو ادب" کے چیف ایڈیٹر ہیں۔ صحافت اور ادب کے ذریعے معاشرتی اصلاح اور فکری بیداری کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ احمد ندیم قاسمی ایوارڈ، اثاثہ ادب ایوارڈ، پہچان پاکستان ایوارڈ سمیت کئی اعزازات مل چکے ہیں۔

Click here to post a comment