ہوم << کائنات اور قرآن – تضاد یا تکمیل؟ عاطف ہاشمی

کائنات اور قرآن – تضاد یا تکمیل؟ عاطف ہاشمی

شام کا وقت ہے، آسمان پر گھنے بادل چھا چکے ہیں، ایک پریشان حال کسان اپنے بچوں کے ساتھ گھر کے صحن میں بیٹھا ہے، اس کی نظریں آسمان پر چھائے بادلوں پر مرکوز ہیں مگر ذہن فکر معاش میں گم ہے، اچانک زوردار آسمانی بجلی گرجتی ہے جس کی گرج سے بچے سہم کر اپنے باپ سے چمٹ جاتے ہیں۔ دوسری طرف یہی بجلی کسان کی مایوس آنکھوں میں چمک پیدا کرنے کا ذریعہ بن جاتی ہے، اور بادلوں کی وہی کڑک جو بچوں کو خوف میں مبتلا کرتی ہے ان کے باپ کے لیے امید کا پیغام بن جاتی ہے۔ وہ جانتا ہے کہ یہ بادل اور گرج چمک، بارش برسائیں گے، جس سے اس کی زمین سیراب ہوگی، کھیت ہرے بھرے ہو جائیں گے، اور بچوں کے لیے رزق کی راہ ہموار ہوگی اور ان سہمے ہوئے چہروں پر رونق اور تازگی لائے گی.

آپ نے دیکھا کہ کس طرح ایک ہی گرج دو مختلف لوگوں کے لیے دو مختلف بلکہ متضاد پیغامات لے کر آئی؟
یہی تضاد ہماری زندگی میں بھی موجود ہے۔ بارہا ایسا ہوتا ہے کہ کوئی چیز بظاہر ہمارے لیے خیر کا باعث نظر آتی ہے، مگر بسا اوقات وہی شر میں بدل جاتی ہے، اور جو شے ہمیں نقصان دہ محسوس ہوتی ہے، وہی ہمارے لیے رحمت بن جاتی ہے۔ سورہ رعد ہمیں اسی حقیقت سے آگاہ کرتی ہے کہ ظاہری چمک اور حقیقت میں فرق ہوتا ہے، اور جو چیز بظاہر پرکشش لگتی ہے، وہ ضروری نہیں کہ حقیقت میں بھی فائدہ مند ہو۔ اسی لیے اس سورت کا نام رعد ہے جو کہ بجلی کی گرج چمک کو کہتے ہیں، یہ رعد بظاہر خوف کی علامت ہے، مگر حقیقت میں رحمت اور برکت کا ذریعہ ہے۔ اس حقیقت کو سمجھانے کے لیے سورہ رعد میں 32 متضاد الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، جو ظاہر اور حقیقت کے فرق کو واضح کرتے ہیں۔ مثلاً: روشنی اور اندھیرا، زندگی اور موت، حق اور باطل... آئیے ان تضادات کا تفصیل سے جائزہ لیتے ہیں.

1. زمین کی وسعت اور سکون – تضاد یا تکمیل؟
آیت نمبر 3 میں اللہ کا ارشاد ہے: وَهُوَ ٱلَّذِي مَدَّ ٱلۡأَرۡضَ وَجَعَلَ فِيهَا رَوَٰسِيَ وَأَنۡهَٰرٗا وَمِن كُلِّ ٱلثَّمَرَٰتِ جَعَلَ فِيهَا زَوۡجَيۡنِ ٱثۡنَيۡنِ يُغۡشِي ٱلَّيۡلَ ٱلنَّهَارَ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَأٓيَٰتٖ لِّقَوۡمٖ يَتَفَكَّرُونَ (الرعد: 3) "اور وہی ہے جس نے زمین کو پھیلایا اور اس میں پہاڑ اور دریا رکھے، اور ہر قسم کے پھلوں کے جوڑے پیدا کیے، وہ رات کو دن سے ڈھانپ دیتا ہے، بے شک اس میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں۔"
یہاں اللہ تعالیٰ زمین کو پھیلانے اور اس میں پہاڑ رکھنے کا ذکر کرتے ہیں، جو بظاہر ایک تضاد لگ سکتا ہے۔ پھیلاؤ حرکت کو ظاہر کرتا ہے، جبکہ پہاڑ استحکام کو۔ مگر حقیقت میں پہاڑ زمین کے استحکام کا ذریعہ ہیں، اور زمین کی وسعت انسانوں کے لیے سکون اور رہائش کی جگہ ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ اللہ کا نظام تضادات کے باوجود مکمل ہم آہنگی رکھتا ہے۔

2. بادل، بجلی اور خوف یا رحمت ؟
آیت نمبر 4 میں ہے: وَهُوَ ٱلَّذِي يُنَزِّلُ مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءٗ فَأَخۡرَجۡنَا بِهِۦ نَبَاتَ كُلِّ شَيۡءٖ فَأَخۡرَجۡنَا مِنۡهُ خَضِرٗا نُّخۡرِجُ مِنۡهُ حَبّٗا مُّتَرَاكِبٗا (الرعد: 4) "اور وہی ہے جو آسمان سے پانی برساتا ہے، پھر ہم اس کے ذریعے ہر قسم کی نباتات اگاتے ہیں، اور اس سے ہم ہرے بھرے کھیت نکالتے ہیں، جن سے ہم تہہ بہ تہہ دانے نکالتے ہیں. "

اسی کےساتھ آیت نمبر 13 کو بھی ملا کر پڑھیں جس میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: وَيُرۡسِلُ ٱلصَّوَاعِقَ فَيُصِيبُ بِهَا مَن يَشَآءُ وَهُمۡ يُجَٰدِلُونَ فِي ٱللَّهِ وَهُوَ شَدِيدُ ٱلۡمِحَالِ" (رعد: 13) "اور وہ بجلیاں بھیجتا ہے اور جسے چاہے ان سے نشانہ بناتا ہے، پھر بھی وہ اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں، حالانکہ وہ سخت تدبیر والا ہے۔"
بادلوں اور بجلی کا ظہور ایک فطری عمل ہے، جس میں تباہی اور فائدہ دونوں پہلو شامل ہیں۔ ایک ہی چیز—بجلی—کسی کے لیے فائدہ مند ہوتی ہے (بارش کا سبب بنتی ہے) اور کسی کے لیے ہلاکت کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ یہ ظاہری تضاد درحقیقت اللہ کے منصفانہ اور حکمت والے نظام کا حصہ ہے، جہاں ہر چیز اپنے وقت اور مقصد کے مطابق وقوع پذیر ہوتی ہے۔

تضادات کے باوجود سبھی اس کے آگے جھکتے ہیں:
آیت نمبر 15 میں ہے: ولله يسجد من في السماوات والأرض طوعًا وكرهًا وظلالهم بالغدو والآصال" (الرعد: 15) "آسمانوں اور زمین میں جو کچھ بھی ہے وہ اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہے، خواہ خوشی سے ہو یا مجبوری سے، اور ان کے سائے صبح و شام جھکتے ہیں۔"(آیت میں متضاد الفاظ قابل غور ہیں)
یہ آیت ہمیں یہ حقیقت سمجھاتی ہے کہ ظاہری تضادات صرف انسانوں کے لیے ہیں، مگر اللہ کے ہاں ہر چیز ایک توازن کے تحت چل رہی ہے۔ دنیا میں خیر اور شر، روشنی اور اندھیرا، خوشی اور غم—یہ سب آزمائش کا حصہ ہیں۔ جو شخص ظاہری چمک پر فریفتہ ہو کر دھوکہ کھا جاتا ہے، وہ حقیقت کو سمجھنے سے قاصر رہتا ہے۔

4. ایمان اور کفر: انجام کا فرق
أَفَمَن يَعۡلَمُ أَنَّمَآ أُنزِلَ إِلَيۡكَ مِن رَّبِّكَ ٱلۡحَقُّ كَمَنۡ هُوَ أَعۡمَىٰٓ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُوْلُواْ ٱلۡأَلۡبَٰبِ" (الرعد: 19) "کیا وہ شخص جو جانتا ہے کہ جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے وہی حق ہے، اس شخص کی مانند ہو سکتا ہے جو اندھا ہے؟ نصیحت تو صرف عقل مند ہی قبول کرتے ہیں۔"
یہاں ایمان کو بینائی اور کفر کو اندھا پن کہا گیا ہے۔ بظاہر، بینائی اور اندھا پن دو متضاد چیزیں ہیں، مگر کسی میں اندھا پن ہونے سے روشنی کی حقیقت نہیں بدل جاتی. یہی حال حق کے سامنے اندھے ہو جانے والوں کا بھی ہے.

سورہ ابراہیم:
سورہ ابراہیم انسانی تاریخ، ایمان اور کفر کے درمیان کشمکش، اور قیامت کے انجام کی تفصیل پر مشتمل ہے۔ اس سورت میں زندگی کے بنیادی تضادات (contrasts) کو واضح کیا گیا ہے، جن میں روشنی اور اندھیرا، شکر اور ناشکری، ہدایت اور گمراہی، کامیابی اور خسارہ، اور ایمان و کفر کے رویے شامل ہیں۔ یہ تضادات انسانی فطرت کو سمجھنے، حق و باطل کے درمیان فرق کو نمایاں کرنے اور ہدایت کے راستے کو واضح کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

1. وحی: روشنی یا اندھیرا؟
الٓرۚ كِتَٰبٌ أَنزَلۡنَٰهُ إِلَيۡكَ لِتُخۡرِجَ ٱلنَّاسَ مِنَ ٱلظُّلُمَٰتِ إِلَى ٱلنُّورِ بِإِذۡنِ رَبِّهِمۡ إِلَىٰ صِرَٰطِ ٱلۡعَزِيزِ ٱلۡحَمِيدِ" (ابراہیم: 1) "یہ کتاب ہم نے آپ پر نازل کی تاکہ لوگوں کو اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالیں، ان کے رب کے حکم سے، اس غالب اور تعریف کے لائق (اللہ) کے راستے پر۔"
قرآن ہدایت، نور اور رہنمائی کی کتاب ہے اور گمراہی وہ اندھیرا ہے جس میں قرآن نہ ماننے والے بھٹکتے ہیں۔ یہ ایک ایسا بنیادی فرق ہے جو انسان کی زندگی اور آخرت دونوں کے فیصلے پر اثر انداز ہوتا ہے۔ جو قرآن کو اختیار کرتا ہے، وہ روشنی میں آ جاتا ہے، اور جو اسے رد کرتا ہے، وہ اندھیرے میں رہتا ہے۔�

2. شکر اور ناشکری کا تضاد
وَإِذۡ تَأَذَّنَ رَبُّكُمۡ لَئِن شَكَرۡتُمۡ لَأَزِيدَنَّكُمۡ وَلَئِن كَفَرۡتُمۡ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٞ" (ابراہیم: 7) "اور جب تمہارے رب نے اعلان کر دیا کہ اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا، اور اگر تم ناشکری کرو گے تو بے شک میرا عذاب سخت ہے۔"
شکر گزار قومیں ترقی کرتی ہیں، اللہ کی رحمتیں حاصل کرتی ہیں، اور ان کی نعمتیں بڑھتی ہیں، جبکہ ناشکری کرنے والی قومیں زوال کا شکار ہوتی ہیں، عذاب میں مبتلا ہوتی ہیں، اور ان سے نعمتیں چھین لی جاتی ہیں۔ یہ دنیا کے ہر دور میں ایک ناقابلِ تردید حقیقت رہی ہے۔

3. رسولوں کی دعوت اور کفار کی ہٹ دھرمی
جَآءَتۡهُمۡ رُسُلُهُم بِٱلۡبَيِّنَٰتِ فَرَدُّواْ أَيۡدِيَهُمۡ فِيٓ أَفۡوَٰهِهِمۡ وَقَالُوٓاْ إِنَّا كَفَرۡنَا بِمَآ أُرۡسِلۡتُم بِهِۦ وَإِنَّا لَفِي شَكّٖ مِّمَّا تَدۡعُونَنَآ إِلَيۡهِ مُرِيبٖ" (ابراہیم: 9) "ان کے پاس ان کے رسول واضح دلائل کے ساتھ آئے، مگر انہوں نے اپنے ہاتھ اپنے منہ پر رکھ لیے (حق سننے سے انکار کر دیا) اور کہا: ہم اس چیز کو نہیں مانتے جس کے ساتھ تم بھیجے گئے ہو، اور ہمیں اس چیز میں سخت شک ہے جس کی طرف تم ہمیں بلاتے ہو۔"
رسولوں کی دعوت دلائل، حکمت اور حق پر مبنی تھی، جبکہ کفار کا ردّ عمل شک، ہٹ دھرمی اور تکبر پر مبنی تھا۔ رسولوں اور ان پر شک کرنے والوں کے رویوں کا یہ تضاد صرف تاریخی نہیں بلکہ آج بھی جاری ہے۔ جو لوگ حق سننے کے بجائے اسے رد کرتے ہیں، وہی وہی روش اختیار کر رہے ہیں جو سابقہ تباہ شدہ قوموں نے اپنائی تھی۔

4. اللہ کا وعدہ اور شیطان کا وعدہ:
وَقَالَ ٱلشَّيۡطَٰنُ لَمَّا قُضِيَ ٱلۡأَمۡرُ إِنَّ ٱللَّهَ وَعَدَكُمۡ وَعۡدَ ٱلۡحَقِّ وَوَعَدتُّكُمۡ فَأَخۡلَفۡتُكُمۡۖ وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيۡكُم مِّن سُلۡطَٰنٍ إِلَّآ أَن دَعَوۡتُكُمۡ فَٱسۡتَجَبۡتُمۡ لِيۖ فَلَا تَلُومُونِي وَلُومُوٓاْ أَنفُسَكُم" (ابراہیم: 22) "اور جب معاملہ فیصل ہو چکے گا تو شیطان کہے گا: بے شک اللہ نے تم سے سچا وعدہ کیا تھا، اور میں نے تم سے وعدہ کیا، مگر میں نے تم سے دھوکہ کیا۔ میرا تم پر کوئی زور نہیں تھا، سوائے اس کے کہ میں نے تمہیں بلایا اور تم نے میری بات مان لی، پس مجھے ملامت نہ کرو بلکہ اپنے آپ کو ملامت کرو۔"
اللہ کا وعدہ ہمیشہ سچا ہوتا ہے، اور اس میں کامیابی ہے، جبکہ شیطان کا وعدہ جھوٹ پر مبنی ہوتا ہے، اور وہ انسان کو دھوکے میں رکھتا ہے۔ قیامت کے دن جب حقیقت کھلے گی، تو لوگ دیکھیں گے کہ جن کے پیچھے وہ چل رہے تھے، وہی انہیں دھوکہ دے گئے۔

5. حق اور باطل: ایک درخت کی مثال
آیت نمبر 24 میں ہے: أَلَمۡ تَرَ كَيۡفَ ضَرَبَ ٱللَّهُ مَثَلٗا كَلِمَة طَيِّبَةٗ كَشَجَرَةٖ طَيِّبَةٍ أَصۡلُهَا ثَابِتٞ وَفَرۡعُهَا فِي ٱلسَّمَآءِ" (ابراہیم: 24) "کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے پاکیزہ کلمے کی مثال ایک اچھے درخت سے دی، جس کی جڑ مضبوط ہے اور شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں؟"
یہاں حق اور باطل کے درمیان فرق کو بیان کیا گیا ہے۔ حق کو ایک مضبوط درخت سے تشبیہ دی گئی ہے جس کی جڑیں گہری اور شاخیں بلند ہوتی ہیں، جبکہ باطل ایک کھوکھلے درخت کی مانند ہے جو کسی بھی وقت گر سکتا ہے۔ یہ بظاہر ایک تضاد ہے کہ باطل کبھی کبھی طاقتور نظر آتا ہے، لیکن حقیقت میں اس کی کوئی بنیاد نہیں ہوتی اور وہ جلد یا بدیر مٹ جاتا ہے۔

سورہ ابراہیم ہمیں واضح تضادات دکھا کر یہ پیغام دیتی ہے کہ ہر انسان کے پاس دو راستے ہیں:
1. قرآن کی روشنی کو اختیار کرے اور کامیاب ہو جائے۔
2. کفر، ناشکری اور شیطان کے دھوکے میں آ کر اندھیروں میں گم ہو جائے۔
یہ فیصلہ ہر انسان کے اپنے ہاتھ میں ہے کہ وہ کون سا راستہ چنتا ہے۔

Comments

Avatar photo

عاطف ہاشمی

عاطف ہاشمی قطر میں مقیم محقق اور مترجم ہیں، سپریم جوڈیشل کونسل قطر میں ترجمانی کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں. اسلامی و سماجی علوم، عربی ادب اور ترجمہ دلچسپی کے موضوعات ہیں۔ کتاب "تیس نشستیں: قرآن کریم کے ساتھ" قرآن کے موضوعات میں باہمی ربط کے حوالے سے ایک اہم تصنیف ہے، جو پاکستان کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں بھی شائع ہو چکی ہے۔

Click here to post a comment