" ابا جی عمرہ کرنے آ جائیں یہاں میرے پاس …اللہ کا گھر بھی دیکھ لیجئے گا اور میں بھی آپ سے مل لوں گا. اب تو آپ کا ویزہ بھی آرام سے مل جائے گا اور رہنے کے لیے مجھے بڑی اچھی جگہ مل گئی ہے. بس آپ ہمت کریں."
خداداد ہر بار کی طرح اب بھی باپ کو اپنے ہاں آنے کی دعوت دے رہا تھا اور بیت اللہ کی زیارت وہ بڑا لالچ تھا جو ہر مسلمان کو اس سرزمین کی طرف کھینچتا ہے .
"پتر !تجھے تو پتہ ہے یہاں تیرے بھائیوں کے مقدمے کی کوئی نہ کوئی پیشی پڑ جاتی ہے .تیرا چاچا اپنے بیٹوں کی ضمانت کے لیے بڑی رقمیں خرچ کر رہا ہے ۔میں ادھر سے ہلا تو اس نے فیصلہ اپنے حق میں کرا لینا ہے۔ میرے گھبرو جوان بیٹے قتل کیے ہیں انہوں نے ۔اب بھلا میں ان کے لیے انصاف حاصل کیے بغیر کیسے آؤں ؟تو بس دعا کر وہاں اللہ کے گھر میں کہ ہمارے مقدمے کا فیصلہ جلدی ہو جائے میں. اپنی زندگی میں دونوں لڑکوں کو پھانسی پر لٹکتے دیکھ لوں. میرے دل کو سکون مل جائے." مولا داد کی آواز بھرا گئی .
"ابا جی! دس سال ہو گئے ہیں دونوں بھائیوں کو قتل ہوئے اور آپ مجھے بھی گھر نہیں آنے دیتے کہ یہاں میرے لیے خطرہ ہے۔ آپ ہی آ کر مل جاؤ۔ورنہ میں آ جاؤں گا ۔"خداداد نے باپ کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا
"ناں پتر!تو نے نہیں آنا۔ وہ سب تیرے خون کے پیاسے ہیں۔ مقدمے کا فیصلہ ہونے تک آنے کی بات نہ کرنا۔" مولا داد نے فورا بیٹے کو ڈپٹ کر کہا
"اچھا ابا! سارے بچے ٹھیک ہیں؟"
خداداد نے گھر والوں کی خیریت پوچھی. باپ نے بڑے بیٹے کے قتل کے بعد اپنی بہو کا نکاح خداداد سے کر دیا تھا اور بڑے بیٹے کے تین بچے جو بالترتیب چودہ بارہ اور دس سال کی عمر کے تھے۔
" ہاں یوں کر اس سال گرمیوں میں اپنی بیوی کو اپنے پاس بلا لے. اگر جیب اجازت دے تو بچوں کو بھی۔ ورنہ اب بچے یہاں میرے پاس بھی رہ لیتے ہیں ۔۔بڑے ہو گئے ہیں ناں" مولا داد نے تجویز دی
"ہاں لیکن اس کے لیے تو کافی کاغذی کاروائی کرنا پڑے گی ..چلو کوشش کرتا ہوں. مگر ابا جی آپ بھی ساتھ آ جاتے تو اچھا تھا "خداداد ہنوز مصر تھا
"ارے ہاں پتر !وہ ادھر پنڈ میں لوگ کہتے ہیں کہ سعودی حکومت بڑی سخت ہے ...چوری کرنے پر ہاتھ کاٹ دیتی ہے اور ذرا شک ہونے پر سر بھی ...وہ ماسٹر جی بتا رہے تھے کہ ہمارے سیاست دان تو وہاں کی سزاؤں کو ظالمانہ بھی کہتے ہیں.. منشیات کا اگر شبہ بھی ہو تو گردن اڑا دیتے ہیں ..میں تو ڈرتا ہوں وہاں سے تو بھی احتیاط کیا کر .مولا داد بولا
"ابا جی! کیا آپ نے یہاں چوری کرنے آنا ہے یا قتل کرنے یا منشیات فروخت کرنے. لاکھوں بندے آتے ہیں یہاں ۔۔۔حج عمرہ کرنے انہیں تو یہاں کوئی کچھ نہیں کہتا۔۔ دونوں بیٹوں کے قتل کے بعد سے آپ تو بالکل ہی وہمی ہو گئے ہیں" خداداد چڑ کر بولا
" اچھا پتر! بس تو اپنا خیال رکھا کر ..."مولا داد نے فون بند کرتے ہوئے کہا
مولا داد پنجاب کا ایک چھوٹا سا زمیندار تھا جس کی گزر بسر اپنی ذرعی آمدنی پر باآسانی ہو رہی تھی۔ جھگڑا آبائی زمین کی تقسیم پر ہوا تھا۔ زمین کا اگلا حصہ جو اب بر لب سڑک تھا دونوں بھائیوں کی اسی پر نگاہ تھی۔ جھگڑا بڑھتے بڑھتے تھانہ کچہری تک جا پہنچا اور پھر نوبت قتل و غارت تک آن پہنچی ۔
مولا داد کے دو بڑے بیٹے اپنی زمین کو پانی لگا رہے تھے کہ چاچا اور اس کے دو بیٹوں نے ان پر فائرنگ کر دی۔۔ دونوں بھائی موقع پر ہی جان بحق ہو گئے ۔۔گاؤں کے بہت سے لوگ وقوعہ کے چشم دید گواہ تھے ۔پولیس نے ملزمان کو گرفتار بھی کر لیا مگر عدالتی کاروائی اور مقدمہ بازی میں دس برس بیت چکے تھے۔۔۔ مولاداد کا بھائی اب اپنی ضمانت کرانے میں بھی کامیاب ہو گیا تھا۔
اب وہ کھلے عام بھائی کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دے رہا تھا۔مولا داد اپنے دو جوان بیٹوں کی لاشیں اٹھانے کے بعد اس قدر خوفزدہ ہو چکا تھا کہ اس نے چھوٹے بیٹے کو ملک سے باہر بھجوا دیا تھا گزشتہ دس برسوں میں خداداد صرف دو مرتبہ ملک آیا ۔ایک دفعہ اپنی بیوہ بھابھی سے نکاح کرنے اور دوسری دفعہ اپنے چچا کی ضمانت کے بعد شہر کا بڑا وکیل کرنے ۔
دونوں بھائیوں کی زمین اس مقدمے کی نظر ہو چکی تھی۔
دونوں کے آبائی گھر، موجودہ چھوٹا سا گھر بھی وکیل کی فیس کے لیے گروی رکھا جا چکا تھا ۔خداداد اپنی بیوی اور تینوں بھتیجوں کی گزر اوقات کے لیے جو معقول رقم سعودی عرب سے بھیجتا وہ بھی زیادہ تر اسی مقدمے کی نظر ہو جاتی بچوں کی اچھی تعلیم ایک خواب تھا۔ آئے روز چچا کی دھمکیاں گھریلو ماحول کو مزید خوفزدہ کر دیتیں ۔مولا داد آئے روز شہر پیشی بھگتنے یا وکیل کی فیس بھرنے جاتا رہتا ،جہاں کچہری میں اخبار پڑھ کر تبصرے کرتے وکیل اور ان کی باتیں اس کی معلومات میں اضافے کا باعث بنتیں۔
سعودی عرب کی اسلامی سزاؤں کے بارے میں اکثر وہاں کوئی نہ کوئی رائے اور تبصرہ اس کے کانوں میں پڑ جاتا۔شرعی تعزیرات کے ظالمانہ ہونے کا عالمی پروپیگنڈا کسی نہ کسی حد تک اس پر بھی اثر انداز ہو جاتا ہے۔ گزشتہ پانچ برسوں میں پاکستان میں پھانسی کی سزا پر عمل درآمد نہ کیے جانے کی وجہ بھی ملکی رہنماؤں کی نرم دلی اور انسان دوستی بتائی جا رہی تھی ۔
خداداد کی سعودی عرب میں ایک حادثے میں موت اس کے خاندان کے لیے بہت بڑا سانحہ تھی۔ کسی سعودی کی کار کی ٹکر سے خداداد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا تھا ۔ضروری کاروائی کے بعد لاش وہیں مکہ ہی میں دفن کر دی گئی۔
دونوں بیٹوں کے قتل اور تیسرے اور آخری بیٹے کی حادثاتی موت نے مولاداد کو جیتے جی مار دیا۔ اس کا چھوٹا سا گھر جس کے در و دیوار پر اب غم تنگ دستی غربت اور مسکینی سب صاف صاف دکھائی دے رہے تھے ۔اس کی بد نصیب بہو دوسری مرتبہ بیوہ ہوئی تھی اور اس کے تینوں پوتے دوبارہ یتیم ہو گئے تھے۔زمین جائیداد گھر آمدنی سب کے خاتمے کے بعد گھر کا واحد کفیل خداداد بھی منوں مٹی تلے جا سویا تھا۔
مولاداد صاحب آپ کا سعودی عرب سے خط آیا ہے۔ ڈاکیا مدتوں بعد ان کے دروازے پر آیا تھا اور ایک سرکاری خط ان کے حوالے کر کے چلا گیا ۔مولاداد خط لیے گھر آگیا ۔
"بہو ! یہ خط پڑھ۔ انگریزی میں لکھا ہے۔ اپنا عبداللہ دسویں میں ہے۔ دونوں مل کر سمجھ کر پڑھو ۔"مولا داد نے بڑے پوتے کو بھی آواز دی. بہو بھی دسویں پاس تھی۔
" ابا جی !اس میں لکھا ہے کہ خداداد کو ایک سعودی شہری کی کار نے ٹکر مار دی تھی۔ جسے سعودی حکومت نے پکڑ لیا ہے۔ مقدمہ چل رہا ہے ۔خداداد کے وارث کون ہیں؟ ان کی تصدیق کر کے بھیجیں." بہو نے خط کا متن پڑھ کر سنایا
" پتر! انہیں جواب دے کہ اس کے وارث مر گئے ہیں۔"
پہلے دو بیٹوں کے مقدمے پر دس سال میں سب پیسا خرچ ہو گیا ہے۔ مگر قاتل اپنی زندہ ہیں، اب کیا ان پوتوں کو بیچ دوں یا خود کو ؟لکھ انہیں ...ہمیں کسی مقدمے کی ضرورت نہیں ہے۔ نہ کسی انصاف کی، ہم نے اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا ہے۔ ایک اور مقدمہ سعودی عرب جا کر کون انصاف مانگے؟؟
بس لکھ دے کہ خداداد کی اکیلے کی نہیں بلکہ اس کے باپ اس کی بیوی اور تینوں بچوں کی موت ساتھ ہی ہو گئی ہے۔ نہیں چاہیے ہمیں کوئی انصاف۔" مولاداد پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا اور اس کے خستہ حال تینوں پوتے اور بہو بھی سہم گئے.
"ابا جی !اب کچھ نہ کچھ تو جواب دینا ہے ناں ۔۔۔یوں کرتے ہیں تینوں بیٹوں کو وارث لکھوا کر بھیج دیتے ہیں۔ نابالغ وارث کیا مقدمہ لڑنے سعودی عرب جائیں گے ۔بہو بھی دس سال سے وکیلوں کی باتیں سن سن کر ہوشیار ہو گئی تھی
"ٹھیک ہے."
تین ماہ بعد مولاداد کو ویسا ہی ایک اور خط موصول ہوا .ان تین ماہ میں نوبت فاقوں تک آن پہنچی تھی. مولا دار نے خط بےدلی سے بہو کے حوالے کیا۔ موجودہ خط قاضی کی طرف سے عدالتی حکم تھا کہ آپ نے گنہگار کو معاف کر دیا اس کا شکریہ۔ لیکن مقتول کے وارث چونکہ نابالغ ہیں اس لیے یہ ان کا حق ہے کہ وہ قاتل کو معاف کریں یا نہیں۔
تینوں بچوں کے بالغ ہونے میں آٹھ سال کا عرصہ لگے گا ۔اس عرصے میں قاتل جیل میں بچوں کے فیصلے کا انتظار کرے گا ۔معافی کی صورت میں بچے دیت وصول کر سکیں گے ۔جو ان دنوں کم از کم پانچ لاکھ سعودی ریال ہے ۔فی الحال بچوں کی کفالت سعودی حکومت کی ذمہ داری ہے ۔سو تین بچوں کو ماہانہ وظیفہ ہر ماہ وصول ہوگا ۔ہر طرح کے تعلیمی اخراجات بھی سعودی حکومت کی طرف سے ہوں گے۔
خط کے ساتھ چیک مبلغ دس ہزار سعودی ریال منسلک تھا ۔ ظالمانہ سزاؤں والی تمام داستانیں مولا داد کے دماغ میں گھوم رہی تھیں۔ وہ یہاں کے کمزور عدالتی نظام کا دس سال سے شکار تھا اور اب محض چھ ماہ میں یہ قصاص دیت اور وظیفہ بغیر کس کوئی وکیل کیے۔ واقعی رب کی ہر بات بر حق ہے۔
" قصاص میں تمہارے لیے زندگی ہے".
مولا داد چکرا کر گر پڑا اس کی بہو اپنے تینوں بیٹوں کو گلے سے لگائے روئے جا رہی تھی جیسے کہہ رہی ہو کہ اگر یہ نظام ظالمانہ ہے تو مجھے یہی قبول ہے۔ جس نے مجھے اور میرے بچوں کو بے آسرا ہونے سے بچا لیا ۔بھوک، افلاس اور بے سرو سامانی سے بچا لیا ۔ہمیں نئی زندگی دے دی ۔
تبصرہ لکھیے