توبہ عربی میں "پلٹنے" اور "واپس آنے" کو کہتے ہیں۔ جیسے کوئی مسافر کسی راہ پر چل رہا ہو اور اچانک اسے محسوس ہو کہ وہ غلط سمت میں بڑھ رہا ہے، تو وہ فوراً مڑ کر صحیح راستے پر چل پڑتا ہے۔ یہی رجوع الی اللہ ہے، اور یہی اس سورت کا بنیادی پیغام ہے۔ یہ محض زبان سے معافی مانگنے کا عمل نہیں، بلکہ ایک حقیقی تبدیلی، ایک نیا آغاز ہے۔
سورہ توبہ ایک صدا ہے، ایک انتباہ بھی اور امید کا پیغام بھی۔ یہ سورت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ اللہ کے ہاں سب سے محبوب وہ لوگ ہیں جو اپنی غلطیوں سے سیکھتے ہیں، جو پلٹ آتے ہیں، اور جو اپنی زندگی کو ایک نئی روشنی میں دیکھنے کی ہمت رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں "توبہ" کا ذکر سب سے زیادہ (17 بار) آیا ہے، یہ ثابت کرنے کے لیے کہ بندگی کی معراج یہی ہے کہ ہم اپنی خطاؤں کو پہچانیں، سدھریں، اور اللہ کی طرف رجوع کریں۔ یہ سورت نہ صرف کفار، منافقین اور گناہگار اہلِ ایمان کی حقیقت آشکار کرتی ہے بلکہ ان سب کے لیے توبہ کا دروازہ بھی کھول دیتی ہے۔ یہ سورت ہمیں انفرادی اصلاح سے اجتماعی اصلاح تک لے جاتی ہے اور آخر میں ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کا حکم دیتی ہے جو نیکی کو عام کرے، لوگوں کو گمراہی سے نکالے، اور حق کا علم بلند رکھے۔ یہ وہ واحد سورت ہے جو بغیر بسم اللہ کے شروع ہوتی ہے، اور بعض مفسرین کے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ دراصل سورہ انفال کا تتمہ ہے، جو جنگ اور دشمنانِ دین کے خلاف سخت احکامات پر مشتمل ہے۔
سورہ توبہ کے مضامین: اصلاح کا تدریجی نظام:
یہ سورت درجہ بہ درجہ مختلف طبقات کی اصلاح کا نقشہ پیش کرتی ہے۔ پہلے کفار، پھر منافقین، پھر گناہگار مسلمانوں اور آخر میں ایک ایسی جماعت کی تیاری کی بات کرتی ہے جو دوسروں کو ہدایت کی راہ دکھائے. بادی النظر میں اس سورت کے مضامین غیر مرتبط محسوس ہوتے ہیں لیکن اگر معمولی تدبر کے ساتھ مطالعہ کیا جائے تو واضح تسلسل نظر آتا ہے اور ہر مضمون دوسرے سے مربوط نظر آتا ہے، چنانچہ:
1.کفار کے خلاف سخت رویہ اور توبہ کا راستہ
سورت کی ابتدائی آیات میں ان کفار کے خلاف سخت احکامات دیے گئے ہیں جنہوں نے بار بار مسلمانوں کے ساتھ معاہدے توڑے اور دشمنی میں حد سے بڑھ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ ان سے قتال کیا جائے اور ان کے ساتھ کسی نرمی کا مظاہرہ نہ کیا جائے۔ تاہم ساتھ ہی ایک بڑی گنجائش رکھی گئی کہ اگر وہ توبہ کرلیں، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں، تو وہ دینی بھائی بن جائیں گے:
"فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ" (9:11)
"پس اگر وہ توبہ کر لیں، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں۔"
یہ اس بات کا اعلان تھا کہ جو بھی شرک اور ظلم چھوڑ کر راہِ حق اختیار کرے گا، اسے کھلے دل سے اپنایا جائے گا۔
2. منافقین: دو رخے کردار کی سخت مذمت
سورۃ میں اگلا موضوع منافقین کی کارستانیوں سے متعلق ہے۔ یہ وہ لوگ تھے جو بظاہر اسلام کا دعویٰ کرتے لیکن جنگ کے وقت بہانے بنا کر پیچھے ہٹ جاتے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے نفاق کو بے نقاب کرتے ہوئے فرمایا کہ انہوں نے جھوٹے عذر تراش کر جنگ میں شریک ہونے سے گریز کیا اور اپنے مفادات کو دین پر مقدم رکھا۔ ان کے بارے میں سخت وعید دی گئی کہ:
"وَعَدَ اللَّهُ الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْكُفَّارَ نَارَ جَهَنَّمَ" (سورۃ التوبہ 68)
"ان منافق مردوں اور عورتوں اور کافروں کے لیے اللہ نے آتشِ دوزخ کا وعدہ کیا ہے۔"
لیکن اگر وہ سچے دل سے توبہ کرلیں تو ان کے لیے بھی بہتری کی امید ہے: "فَإِن يَتُوبُوا يَكُ خَيْرًا لَّهُمْ" (9:74)
"پس اگر وہ توبہ کر لیں تو یہ ان کے لیے بہتر ہے۔"
3. گناہگار اہل ایمان کے لیے توبہ کی امید
منافقین کے بعد ان مسلمانوں کا ذکر کیا گیا جو نیکیوں کے ساتھ ساتھ برائیوں کا بھی ارتکاب کر بیٹھتے ہیں، اللہ نے ان کے بارے میں فرمایا کہ اگر وہ سچے دل سے توبہ کریں تو اللہ ان کی توبہ قبول فرما لے گا:
"خَلَطُوا عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَيِّئًا عَسَى اللَّهُ أَن يَتُوبَ عَلَيْهِمْ" (سورۃ التوبہ 102)
''ان کا عمل مخلوط ہے ، کچھ نیک ہے اور کچھ بد۔ بعید نہیں کہ اللہ ان پر پھر مہربان ہو جائے.''
یہاں یہ واضح کیا گیا کہ اللہ کے ہاں صرف وہی لوگ کامیاب ہوں گے جو اپنی غلطیوں کا اعتراف کر کے رجوع کرتے ہیں۔یہ آیت بتاتی ہے کہ اگرچہ کچھ لوگ راہِ حق سے بھٹک جاتے ہیں، مگر اللہ کا دروازہ ان کے لیے بند نہیں ہوتا۔
4. التائبون: اللہ کے محبوب بندے
آیت 112 میں اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کا ذکر کیا ہے جو اپنی غلطیوں پر نادم ہوتے ہیں، اللہ کی طرف پلٹ آتے ہیں، اور اپنی زندگی کو بدل لیتے ہیں۔ یہ لوگ "التائبون" کہلاتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نہ صرف اپنی اصلاح کرتے ہیں بلکہ دوسروں کی رہنمائی بھی کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی صفات کو یوں بیان کیا:
"التَّائِبُونَ الْعَابِدُونَ الْحَامِدُونَ السَّائِحُونَ الرَّاكِعُونَ السَّاجِدُونَ الْآمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّاهُونَ عَنِ الْمُنكَرِ وَالْحَافِظُونَ لِحُدُودِ اللَّهِ" (9:112)
"یہ وہ لوگ ہیں جو توبہ کرنے والے، عبادت گزار، اللہ کی حمد کرنے والے، روزہ رکھنے والے، رکوع و سجود کرنے والے، نیکی کا حکم دینے والے، برائی سے روکنے والے، اور اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے ہیں۔"
یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ توبہ صرف گناہوں سے معافی مانگنے کا نام نہیں، بلکہ اس کے بعد اپنا طرز زندگی بھی بدلنا ہوتا ہے اور معاشرے کی فلاح و بہبود کا کام بھی کرنا ہوتا ہے.
5. تین صحابہ کی توبہ: ایک تاریخی سبق
آیت 118 میں تین عظیم صحابہ کعب بن مالک، ہلال بن امیہ، اور مرارہ بن ربیع رضی اللہ عنہم کی توبہ کا ذکر ہے، یہ تینوں صحابہ غزوہ تبوک میں شامل نہیں ہو سکے تھے جس کے بعد ان پر سخت آزمائش آئی اور چالیس دن تک مکمل سوشل بائیکاٹ کا شکار رہے، یہاں تک کہ اللہ نے ان کی توبہ قبول فرما لی۔ ان کی توبہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا:
"وَعَلَى الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا" (9:118)
"اور ان تین لوگوں کی بھی (توبہ قبول کر لی گئی ہے) جو پیچھے رہ گئے تھے۔"
یہ واقعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ اگر ہم خود کو بدلنے کا عزم کریں اور صدق دل سے توبہ کریں تو ایسی توبہ قبول ہوتی ہے، چاہے آزمائش کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو۔
6. اجتماعی توبہ: امت کی اصلاح کا نسخہ
اللہ تعالیٰ انفرادی توبہ کے ساتھ ساتھ اجتماعی اصلاح پر بھی زور دیتا ہے۔ جب پورے معاشرے میں برائی پھیل جائے، تو صرف چند افراد کی نیکی کافی نہیں ہوتی، بلکہ پوری امت کو توبہ اور اصلاح کے عمل سے گزرنا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سورہ توبہ میں ایک ایسے گروہ کی تشکیل کا حکم دیا گیا ہے جو مستقل طور پر دین کی سمجھ بوجھ حاصل کرے اور دوسروں کو سیدھے راستے کی طرف بلائے:
"فَلَوْلَا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَائِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُوا قَوْمَهُمْ" (9:122)
"تو کیوں نہ ہر گروہ میں سے کچھ لوگ دین کی سمجھ حاصل کریں اور اپنی قوم کو خبردار کریں؟"
یہ آیت تعلیم و تربیت کے ایک منظم نظام کی بنیاد رکھتی ہے، تاکہ لوگ بھٹکنے سے بچیں اور گمراہی سے نکل کر سیدھے راستے پر آئیں۔
سورہ توبہ ہمیں زندگی کو بدلنے، اصلاح کرنے، اور اللہ کی طرف پلٹنے کی دعوت دیتی ہے۔ یہ سورت ہمیں سکھاتی ہے کہ اگر ہم غلط راہ پر گامزن ہوں، یا ہم نے کبھی دینی احکام کو پسِ پشت ڈالا ہو، یا اپنے ایمان کی کمزوری محسوس ہوتی ہو تو ہمیں فورا اپنا قبلہ درست کر کے اپنی اصلاح کرنی چاہیے کیونکہ اللہ کے دروازے ہمیشہ کھلے ہیں:
"أَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ هُوَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ" (9:104)
"کیا یہ لوگ نہیں جانتے کہ اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے؟"
یہ سورت ہمیں جھنجھوڑتی ہے، مگر ہمیں امید بھی دلاتی ہے۔ یہ بتاتی ہے کہ اگرچہ ہمارے ماضی میں غلطیاں ہو سکتی ہیں، مگر اللہ کا دروازہ کبھی بند نہیں ہوتا۔ وہ ہمیں بلا رہا ہے، انتظار کر رہا ہے، کہ کب ہم لوٹ کر آئیں۔"إِنَّ اللَّهَ هو التواب الرحيم" (9:118) "بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا رحم کرنے والا ہے۔" تو پھر دیر کس بات کی؟ واپس آئیے! خدا کی رحمت کا دروازہ کھلا ہے.
تبصرہ لکھیے