ہوم << بیوی کو طلاق؛ 13 کروڑ میں سے کچھ دینا پڑے گا؟- روبینہ یاسمین

بیوی کو طلاق؛ 13 کروڑ میں سے کچھ دینا پڑے گا؟- روبینہ یاسمین

وکیلوں کے گروپ میں ایک صاحب نے سوال پوچھا
میری شادی کو بیس سال ہو گئے ہیں۔ میری سیونگز تیرہ کروڑ روپے ہیں۔ میں اپنی بیوی کو طلاق دوں تو اسے کچھ دینا پڑے گا یا نہیں ؟

جب کسی کی بیوی چھوٹے بچے چھوڑ کر انتقال کر جاتی ہے تو پہلی فرصت میں فیملی اس آ دمی کی دوسری شادی کروا دیتی ہے۔ وجہ یہ کہ یہ اپنے بچے سنبھالے گا ، گھر سنبھالے گا یا روزگار کمائے گا۔ مرد روزگار اسی وقت بے فکری سے کماتا ہے جب بچوں اور گھر کو سنبھالنے والی موجود ہوتی ہے۔ اگر وہ نہ ہو تو اس کے لیے کمائی کرنا بھی ممکن نہیں رہے گا۔ پھر جس عورت کی بدولت آ پ اس قابل ہوئے کہ اس پر گھر چھوڑ کر سارا دن باہر گزارتے رہے، اس عورت کا وقت بھی لیا، محنت بھی لی، جوانی بھی لی۔

پھر عمر کے اس حصے میں جب آپ اسے چھوڑنے کا پلان کر رہے ہیں وہ تو آ پ کی طرح دوسری شادی بھی نہیں کر پائے گی۔ ایک بچہ ہی عورت کے ڈھلنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ اپنی اولاد کے بعد تو بیوی نے تو پوری توجہ گھر اور بچوں کو دی۔ ایک ہی عمر کے میاں بیوی کو دیکھیں تو مرد تو اٹریکٹو لگ رہا ہوتا ہے کیونکہ اولاد پیدا کرنے میں اس کا جسم نہیں بگڑا۔ اس نے تو اپنی کشش نہیں کھوئی۔ تو جب آ سودہ حالی آ ئی تو آپ کو ایک بار پھر سہرا سجانے کا ارمان جاگ گیا۔ ایک عمر رسیدہ عورت کو نکالا، اس سے جوان خوبصورت کو لے آ ئے۔

اکثریت ایسا نہیں کرتی۔ اکثریت اپنا کمٹمنٹ پورا کرتی ہے۔ لیکن جو چند لوگ ایسا کرتے ہیں وہ عبرت حاصل کرنے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ جتنے کروڑ اس شخص نے بنائے ان کے لیے جس عورت نے سپورٹ سسٹم بنایا تھا، اس کو ایک روپیہ بھی نہ ملے اور وہ اس کی زندگی سے چلی جائے۔

کہاں جائے؟
اس کے والدین حیات نہیں ہوں گے۔ بھائی پتہ نہیں ہیں کہ نہیں ؟ ان کا اپنا گھر ہے یا وہ خود کرائے کے گھروں میں ہیں ؟ یہ عورت جس کو کمانے کا کوئی تجربہ نہیں، اس نے تعلیم کے میدان میں خود کو اپ ڈیٹ نہیں رکھا، یہ اچانک کیسے ملازمت حاصل کر سکے گی۔ اس کی آ گے کی زندگی کیسے گزرے گی؟ یہ ہوتے ہیں وہ سوال جو بیٹیوں کے ماں باپ کو بے چین کرتے ہیں۔ ایسے واقعات سن کر لوگ کوشش کرتے ہیں کہ اپنی بیٹیوں کو مضبوط کریں۔ انہیں آ تا ہو کہ وہ زندگی کو کیسے فیس کریں ، اپنے آپ کو کیسے تیار رکھیں۔ سو میں سے ایک کے ساتھ ایسا ہوتا ہو گا لیکن وہ ایک اگر خدانخواستہ وہ ہوئیں تو ان کے پیروں کے نیچے کی زمین سلامت رہنی چاہیے ۔

مغربی ملکوں میں اکیس سال کی شادی کے بعد طلاق ہو تو سارے اثاثے برابر تقسیم ہوتے ہیں۔ بیوی کو سپورٹ دینی پڑتی ہے۔ یہ الگ بات کہ قانون سے حق لینے کے لیے بھی رقم چاہیے ہوتی ہے ۔۔سب کچھ پلیٹ میں رکھ کر نہیں ملتا، لیکن چلیں کچھ خوف تو ہے کہ جس کو اکیس سال بعد چھوڑ رہا ہوں، اسے بھی دے دلا کر ہی چھوڑنا پڑے گا۔ اور پھر وہ حضرات جو بہت فورس کرتے ہیں کہ اپنی جائیداد اپنی ماں کے نام لگاؤ ، بیوی کے نام نہ لگاؤ ۔

یہ ہیں عورتوں کے اصل مسائل ۔ جنھیں کھانا گرم کرنے جیسے نان ایشوز کی گرد اڑا کر دھندلا کر دیا جاتا ہے۔ یہ عورت جب آ پ کی بیوی ہے، تب درد نہیں ہوتا، جب آ پ کی بیٹی ہوتی ہے تب درد ہوتا ہے۔ کچھ بھی نہ کریں۔ بس بیوی کے ساتھ جو برتاؤ رکھیں، سوچیں کہ یہ برتاؤ میری بیٹی کے ساتھ کوئی کرے تو مجھے کیسا لگے گا۔ اچھا لگے گا تو آ پ درست ٹریک پر ہیں۔ اچھا نہیں لگے گا تو اپنی بیٹی کے صدقے اپنا رویہ اپنے سسر کی بیٹی کے ساتھ اچھا کر لیں۔

یہ باتیں بیویاں شوہروں کو نہیں کہہ سکتیں ۔ وہ کہتے ہیں ہمیں لیکچر نہیں چاہیے، جاؤ اپنا کام کرو۔ لیکن اگر آپ پڑھ رہے ہیں تو سوچیے گا ضرور ۔

Comments

Avatar photo

روبینہ یاسمین

روبینہ یاسمین کینیڈا کے شہر مسی ساگا میں مقیم ہیں۔ تعلیم اور روزگار کا میدان کمپیوٹر سائنس ہے۔ پاکستان کی دو بڑی فری لانسنگ اور ڈیجیٹل مارکیٹنگ کمیونیٹیز کی بنیاد رکھنے والوں میں شامل ہیں۔ کمیونٹی بلڈنگ میں ان کا نام جانا پہچانا ہے۔ طالب علوں کے ساتھ گائیڈنس کونسلر کی حیثیت سے رابطے میں رہتی ہیں۔ باشعور افراد کو دانش سے جوڑنے کے لیے مضامین لکھتی ہیں۔ ان کے موضوعات پرسنل ڈیولپمنٹ اور گروتھ، انٹر پرسنل ڈیولپمنٹ، کیریئر ڈیولپمنٹ، سوشل ایشوز اور بھرپور زندگی جینے کی تجاویز ہیں

Click here to post a comment