ہوم << مدارس اسلامیہ میں صوفیانہ اَقدار کا فروغ: ممکنہ تجاویز اور چند تلخ حقائق - صادق رضا مصباحی، ممبئی

مدارس اسلامیہ میں صوفیانہ اَقدار کا فروغ: ممکنہ تجاویز اور چند تلخ حقائق - صادق رضا مصباحی، ممبئی

گھر میں بچے سے اگر دس روپے کی قیمت کا بھی گلاس ٹوٹ جائے تو والدین یا سرپرست بچے کو سمجھاتے ہیں، اسے نقصان کا احساس کراتے ہیں، بسا اوقات ڈانٹتے بھی ہیں اور آئندہ ایسی غلطی نہ کرنے کی تنبیہ کرتے ہیں۔ معاشرے کی یہ تصویر سامنے رکھیے اور دوسری تصویر کا بھی بغور جائزہ لیجیے۔ معاشرے کی ٹوٹتی چٹختی اسلامی اقدار، نوحہ کرتی روایات اور ملیامیٹ ہوتی مذہبی تعلیمات پر کتنے سرپرست ہیں جو چھوٹوں کو ڈانٹ رہے ہیں، انہیں متنبہ کر رہے ہیں اور انہیں معاشرے کے بحران کا احساس دلا رہے ہیں؟ یہاں سوال یہ ہے کہ ان اقدار و روایات کا ماخذ کیا ہے اور معاشرے کو زندگی سے بھرپور بنانے کے لیے ان کی بقا اور تحفظ ضروری کیوں ہے؟
اس کا جواب اتنا واضح اور بدیہی ہے کہ تاریخ کا ادنی طالب علم بھی اس سے ناآشنانہیں۔ دین کا فروغ مدرسوں کی مرہون منت ہے اور مدرسوں کا استحکام صوفیانہ اقدار کا منت کش۔ مدرسے اس وقت تک شجرسایہ دار بنے رہتے ہیں جب تک وہ صوفیانہ اقدار کے حامل ہوتے ہیں اور مذہبی تعلیمات کے اثرات و نتائج کو حقیقی نمو اس وقت تک ملتا رہتا ہے جب تک ان کی جڑوں میں صوفیانہ اقدار کا پانی پہنچ رہا ہوتا ہے۔ اس حقیقت سے انکار کس کو ہوگا کہ مدارس اسلامیہ اپنی نہاد میں اسلامی احکام، مذہبی روایات اور صوفیانہ اقدار کے علم بردار ہیں۔ مدارس اسلامیہ کی تاریخ دراصل تصوف کی تاریخ ہے، اسلام کی تاریخ ہے، اس کے عروج کی داستان دراصل تصوف کے عروج کی داستان ہے اور اس کا زوال دراصل صوفیانہ تعلیمات و اقدار کے زوال کی علامت۔ اسلام کے پہلے مدرسہ’’صفہ‘‘ کے نام پر غور کیجیے، اس میں بڑی دلچسپ حقیقت پوشیدہ ہے۔ اس نام سے صوفی کا لفظ وجودمیں آیا۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ مدارس بنیادی طور پر صوفیانہ اقدار پر کھڑے ہوتے ہیں، اس کے تحفظ کی ضمانت اوراس کے فروع کا بہت قوی ذریعہ ہوتے ہیں۔ دنیا میں کوئی بھی معاشرہ، کوئی بھی قوم اور کوئی بھی مذہب ایسا نہیں جس کی کچھ اقدار، کچھ روایات نہ ہوں، یہ اقدار و روایات ان کا اہم حوالہ ہوتی ہیں۔ یہ اگرمسخ کردی جائیں یا ہو جائیں توقوم، مذہب اور معاشرے محض ڈھانچے بن جاتے ہیں۔ جیسے مغز کے بغیر چھلکا، روح کے بغیر جسم۔ اصل چیز روح یا اسپرٹ ہے جوزندگی کی علامت کا پتہ دیتی ہے۔ حدیث نبوی انما الاعمال بالنیات یعنی عمل کا دارومدار نیتوں پر ہے، میں النیات سے مراد روح یا اسپرٹ ہے اور یہ بالکل فطری بات ہے کہ جب روح یا اسپرٹ رخصت ہوجاتی ہے تو انسان ظاہری فارم پر زیادہ توجہ مرکوز کر لیتا ہے اور اسی کو اصل کام سمجھ کر اپنی تسکین کا سامان پیدا کرتا ہے۔ چوں کہ اس کے اندر اقدار و روایات کی باقیات کا ملبہ موجود ہوتا ہے، اس لیے ظاہری فارم کھڑا کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہوتا۔
اس سیاق میں آج کے اکثر مدارس اسلامیہ کے صوفیانہ اقدار کا تجزیہ کریں تو حقیقت بڑی آسانی سے واضح ہو جاتی ہے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ مدارس نہیں ہیں بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ کثرت مدارس نے زیادہ تر ارباب مدارس کے دماغوں میں بس ایک بات بٹھا دی ہے کہ زیادہ سے زیادہ عمارتیں تعمیر کی جائیں، شعبوں میں اضافہ کیا جائے، طلبہ کی تعداد بڑھائی جائے اور ہر سال بلاناغہ جشن دستاربندی بھی کیا جائے۔ اس طرح دھیرے دھیرے مدارس کی توسیع ہوتی رہی اور ان کا اندرونی استحکام کمزور پڑتا گیا اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ جب سے استحکام سے زیادہ توسیع پر توجہ دی جانے لگی تب سے مدارس کے وہ فیوض و برکات باقی نہیں رہے جو کبھی ان کا جزولاینفک تھے۔ اور جب سے ان فیوضات و برکات کا دروازہ بند ہوا تو معاشرہ اس کے اثرات سے کیسے محفوظ رہ سکتا تھا کیوں کہ ہمارا معاشرہ فرزندان مدارس کے زیراثر ہوتا ہے اور انہی کی تبلیغ سے عوام اپنے مذہبی احکام سے آشنا اور عمل پیرا ہوتے ہیں۔
مدارس اسلامیہ کے فارغین کی ذمے داری زمین پر اتر کر کام کرنا، اصلاح امت کا بیڑہ اٹھانا اور لوگوں کے مسائل حل کرنا ہے اور یہ صوفیانہ اقدار کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ صوفی کا بنیادی کام اللہ و رسول کی رضاجوئی اور خالق اور اس کے بندوں کے درمیان صلح کرانا ہے یعنی وہ انہیں اللہ کے قریب کرتا ہے، ان کے روحانی مسائل حل کرتا ہے۔ وہ اپنے قریبی کو خود سے جدا بھی نہیں ہونے دیتا اور دوسرے کو دور بھی نہیں ہونے دیتا۔ اس کی نظر محض ظاہر پر نہیں ہوتی بلکہ وہ باطن پر بھی نظر رکھتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہمارے صوفیا اور علما نے جہاں جہاں بھی اسلام کے چراغ روشن کیے، انہی خصوصیات کی بنیاد پر کیے۔ وہ ہمیشہ انسانوں کو خدائے تعالیٰ کی بارگاہ میں جھکاتے اور اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا سچا عاشق بناتے تھے۔ یہی کام ان کی حیات کا کل اثاثہ ہوتا تھا اور اسی اثاثے کو وہ سفر آخرت میں زاد راہ کے طور پر لے گئے اور منزل مقصود پر پہنچ کر کامیاب و کامران ہوگئے۔ ان علما و صوفیا کا مقصد صرف اور صرف ایک تھا یعنی عوام کی اصلاح اور اسلامی تعلیمات کا فروغ و استحکام لیکن جب سے اس نقطہ نظر کا قبلہ تبدیل ہوا تو نتائج بھی بدل گئے الاماشاء اللہ۔اب باستثنا مقصد فقط اتنا رہ گیا کہ اپنی شخصیت، یا اپنے قریبی استاذ کی شخصیت یا اپنے شیخ کی شخصیت کا فروغ و استحکام، اور جب مقصد اپنا شخصی ارتقا ہوگیا تو صوفیانہ اقدار پس پشت پر چلے گئے اور یوں معاشرہ ہولناک خلا سے دوچار ہونے لگا۔ اس کی سب سے بڑی و جہ یہی ہے کہ اب اکثر مدارس افراد پیدا کرنے والے ’’کارخانے‘‘ بن کر رہ گئے ہیں۔ ان کی حیثیت تربیت گاہ کی کم ہوگئی اور کارخانے کی زیادہ۔ ظاہر ہے کہ کارخانوں میں چیزیں ڈھالی جاتی ہیں اور پھر مارکیٹ میں پہنچا دی جاتی ہیں۔
مدارس اسلامیہ تربیت گاہوں سے زیادہ ’’کارخانوں‘‘ کی تصویر اس لیے پیش کر رہے ہیں کہ دعوت و تبلیغ، اصلاح و ارشاد، وعظ و نصیحت، پند و موعظت، ترحم و تکرم اور موانست و محبت جیسی صفات پہلے ایک مشن تھیں، اب پروفیشن میں ڈھلتی جا رہی ہیں الاشاء اللہ۔ اب یہ صفات خودبخود ظاہر کم ہوتی ہیں، ان کا مظاہرہ زیادہ ہوتا ہے۔ جیسے تجارت میں گاہک کو مال خریدنے پر مجبور کے لیے ہر ممکن طریقہ آزمایا جاتا ہے۔ اس کے لیے تجارت میں ایک اصطلاح بھی وضع کر لی گئی ہے Coustomer Freindly Behevior یعنی گاہک سے دوستانہ سلوک کا مظاہرہ کرو تاکہ وہ سامان خریدنے پر آمادہ ہوجائے۔ ہماری کم نصیبی کہ ہمارے مذہبی معاشرے میں کچھ اسی طرح کے حالات پیدا ہو چکے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب یہ ساری خصوصیات پروفیشن بن جائیں گی تو لوگ ایک دوسرے کے قریب کیسے آئیں گے، غلط فہمیاں کیسے ختم ہوں گی، لوگ عملی تصوف سے کیسے وابستہ ہوں گے کیونکہ جوحضرات عوام الناس کی تربیت کرنے والے ہیں، جواصلاح معاشرہ کے علم بردار ہیں وہ اکثر و بیشتر غیرمربیٰ ہیں.
صوفی وہ نہیں ہوتا کہ جس کا معمول صرف چلہ کشی ہو، وہ عزلت نشیں نہیں ہوتا، وہ مخلوق سے اپنا رشتہ کبھی منقطع نہیں کرتا، وہ محض وظیفوں کی مالا جپنے کا عادی نہیں ہوتا بلکہ حقیقی صوفی وہ ہوتا ہے جس کا دل خشیت ربانی کے نور سے معمور ہو۔ خشیت ربانی تصوف کی بنیاد ہے، یہ اگر نہیں ہے تو کچھ نہیں۔ سارے عمدہ خصائل اور تصوف کے دیگر ارکان اسی وصف سے پھوٹتے ہیں۔ اگر خشیت ربانی کا وصف انسان کے اندر موجود ہے تو وہ ہر اس کام سے رکا رہے گا جس میں اللہ و رسول کی ناراضی ہو اور ہر وہ کام کرے گا جس سے اللہ اور اس کے رسول خوش ہوں لہٰذا ہر وہ انسان صوفی ہے جو خداترس ہو، اطاعت شعار ہو، اس کے دل میں مخلوق کی محبت سمائی ہوئی ہو اور وہ اس کی اصلاح کے لیے بےچین رہتا ہو۔ ایک زمانہ تھا کہ جب مدارس سے فارغ ہونے والے طلبہ بیک وقت صوفی بھی ہوتے تھے، حکیم بھی، مفکر بھی، مدبر بھی، دانشور بھی، ویژنری بھی۔ اس تناظر میں دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ مدارس کا ماحول کیسا ہونا چاہیے اور اس کے فارغین کس سطح کے ہونا چاہیے۔ اس حوالے سے چند تجاویز پیش خدمت ہیں.
پہلی تجویز:
مدارس میں ایسا ماحول بپا کرنا ہوگا کہ طلبہ خودبخود عمل کی طرف راغب ہو جائیں۔ اساتذہ کا انتخاب ایسا ہو کہ طلبہ اپنے اساتذہ کو دیکھیں اور انہیں اپنا رول ماڈل قرار دیں۔ایسا نہ ہو کہ طلبہ کو ڈنڈا لے کر نماز کے لیے دوڑایا جائے تبھی وہ مسجد کا رخ کریں بلکہ ماحول ایسا تیار کیا جائے کہ اذان سن کر وہ خود ہی نماز کی طرف دوڑ پڑیں۔ یہاں تو ہو یہ رہا ہے کہ بھاری بھاری رشوتوں کے ساتھ اساتذہ کی تقرریاں کی جا رہی ہیں حتی کہ بعض بڑے مدارس میں بھی یہ بیماری پیدا ہو چکی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ پندرہ پندرہ بیس بیس لاکھ روپے لے کر اساتذہ کی تقرریاں کی گئی ہیں۔ آپ اندازہ لگائیں کہ یہ کتنی بری وبا ہے اور اس کی وجہ سے کتنی ہی صلاحیتیں ضائع ہو رہی ہیں اور کتنے ہی بےصلاحیت افراد درس گاہوں پر قابض ہیں۔ اس طرح کی سودے بازی سے کیا آپ کو لگتا ہے کہ مدارس میں صوفیانہ اقدار فروغ پاسکیں گے؟ رشوت کے پیسے نہ ہونے کے سبب جو بےچارے مخلص ہیں، خداترس ہیں، باصلاحیت ہیں وہ دھیرے دھیرے کنارے ہوتے جا رہے ہیں اور جو چالاک ہیں وہ اپنی ’’صلاحیتوں‘‘ کے بل پرآگے بڑھ رہے ہیں۔ جہاں اس طرح کے ناجائز و حرام کام طلبہ کے سامنے کیے جا رہے ہوں اور پیسوں کی بدعنوانیوں کی وجہ سے مدرسوں کے مسائل کورٹوں کچہریوں تک پہنچ چکے ہوں تو کیا طلبہ اس سے ذہنی طور پر متاثرنہ ہوں گے؟
دوسری تجویز:
پہلے کے مدارس کے طلبہ امت پراس لیے اثراندازہوتے تھے یاان کی اثراندازی کے نتائج سامنے آتے تھے کہ مدارس یا تو خانقاہوں میں چلتے تھے یا پھر مساجدمیں لیکن جب سے مدارس کارشتہ خانقاہوں سے منقطع ہوا تب سے یہ خلامحسوس کیاجارہاہے اوریہی وجہ ہے کہ اب مدارس کے فارغین کااپنے عوام پروہ اثرنہیں رہ گیاہے جوکبھی ان کاطرۂ امتیازہواکرتاتھا۔اس لیے ضروری ہے کہ مدارس کارشتہ خانقاہوں سے مضبوط سے مضبوط ترہویااہل خانقاہ خودبھی مدارس قائم کریں۔ خانقاہوں کے مدارس سے طلبہ کو یقینی طورپرروحانی غذاحاصل ہوتی رہے گی اوروہ روحانی وباطنی طورپربھی مضبوط ہوتے رہیں گے۔
تیسری تجویز:
مدارس کے طلبہ کو فارغ التحصیل کر کے اور ڈگری ان کے ہاتھوں میں تھما کر یہ نہ سمجھ لیاجائے کہ اب وہ زمین پر اتر کر کام کرنے کے اہل ہوچکے ہیں۔ مدارس کا عرصہ تعلیم دس سال پر محیط ہوتا ہے اور یہ مدت دنیاوی تعلیم میں ہائی اسکول کے مساوی ہوتی ہے۔ کیا ہائی اسکول کا طالب علم عملی زندگی کے لائق ہوجاتا ہے؟ کیا دس سال کا عرصہ تعلیم طالب علم کو اس لائق بنا دیتا ہے کہ وہ مسائل کا گہرائی سے جائزہ لے سکے؟ کیا اس کے اندرگہرائی وگیرائی پیداہوجاتی ہے؟ اس کے لیے ضروری ہے کہ فراغت کے بعد ان کی تربیت کی جائے اور تربیت کی یہ مدت بھی نصاب کا ہی حصہ سمجھی جائے۔ اس عرصے میں انہیں صوفیانہ احوال و مقامات اور درجات و حسنات کی سیر کرائی جائے، وظائف کرائے جائیں، انہیں روحانی طور پر طاقتور بنایا جائے اور ان نوافل کا بھی سختی سے اہتمام کرایاجائے جن کوعام طور پر درخور اعتنا نہیں سمجھاجاتا۔ اللہ کے یہاں تقرب کا درجہ پانے میں ان نوافل کا نہایت اہم رول ہوتا ہے۔ روحانی تربیت انسان کو اندر سے بہت مضبوط کرتی ہے اور اس کے اندر کی ساری کثافتیں دھو دیتی ہے۔ اس نصاب میں طلبہ کو بتایا جائے کہ اصلاح امت کا کام کیسے انجام دینا ہے۔ انہیں خاص طور پراس بات کی تلقین کی جائے کہ صوفیائے کرام کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے ہمیں لوگوں کوجوڑناہے، توڑنا نہیں ہے، بلکہ ٹوٹے ہوئے لوگوں کو پھر سے واپس لانا ہے۔ یہ تصوف کا ایک اہم عنوان ہے۔ تربیت کا یہ مرحلہ مشائخ اور صوفیاکے ذریعے ان کی زیرنگرانی انجام پائے۔ جب نصاب کی یہ مدت مکمل ہوجائے تب انہیں میدان عمل میں اترنے کے لائق سمجھا جائے اوراس کی بھی سند جاری کی جائے۔
طلبہ کے ذہنوں میں یہ حقیقت راسخ ہونی چاہیے کہ نظریات اور عملیات میں بہت فرق ہوتا ہے، ہاں عملیات کی ڈور نظریات سے بہت مضبوطی کے ساتھ بندھی ہوتی ہے۔ طالب علم 10 سال تک مدرسے میں درس نظامی کا کورس پورا کرنے کے بعد ابھی علم کی ایک ہی شاخ تک رسائی حاصل کر پاتا ہے یعنی ابھی وہ میدان عمل میں اترنے کے لیے کارآمد نہیں ہوتا۔ اس کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ تجربہ کار حضرات جو میدان عمل کے شہسوار رہ چکے ہوں، ان کی تربیت میں کچھ دن گزارے اور جب شخصیت کندن بن جائے جب کھوٹا سکہ کھناکھن بجنے لگے تب سمجھاجائے کہ اب یہ بازار میں چلنے کے لائق ہوگیا ہے۔ اس کو ایک مثال سے سمجھتے چلیں۔ آج دنیا کی چھوٹی بڑی کمپنیاں جب کسی امیدوار کو ملازمت کے لیے بلاتی ہیں تو پہلے اسے ٹریننگ دیتی ہیں۔ اس کا ایک طریقہ یہ ہوتا ہے کہ ٹریننگ کی مدت کے دوران اسے مستقل ملازم کی حیثیت نہیں دیتیں بلکہ پہلے اسے اپنی کمپنی کے لائق بناتی ہیں اور جب وہ اچھی طرح پختہ ہو جاتا ہے تب اسے مستقل ملازم بنا لیا جاتا ہے، اس کی حیثیت بھی بڑھ جاتی ہے اور مشاہرہ بھی۔ پہلے ڈگری کوئی نہیں دیکھتا، اچھے اچھے مارکس کی طرف کسی کی توجہ نہیں ہوتی۔ ہاں اگر امیدوار تربیت یافتہ ہے تو پھر وہ کمپنی میں کام کرنے کا اہل قرار دیا جاتا ہے۔ جب دنیاوی معاملات حل کرنے کے لیے تربیت یافتہ امیدواروں کو ہی قابل اعتبار سمجھا جاتا ہے تو ہمارے دینی معاملات کے حل کے لیے ایسے اشخاص کی ضرورت کیوں نہ ہوگی جبکہ دینی معاملات دنیوی معاملات سے زیادہ حساس ہیں تو کیا غیر تربیت یافتہ شخص سے خاطرخواہ کامیابی کا حصول متوقع ہو سکتا ہے؟
چوتھی تجویز:
طلبہ کو یہ بتایا جانا ضروری ہے کہ اخلاقیات و اقدار دراصل ہیں کیا، ان کی ہمارے دین میں اہمیت کیا ہے اور ہمارے دین میں اخلاقیات و معاملات کے احکام عبادات کے احکام سے زیادہ کیوں ہیں۔ ان کے دماغوں میں یہ بات گہرائی کے ساتھ پیوست ہو کہ صوفیوں کی طرح القاب لگانے، کسی خانقاہ سے وابستہ ہو جانے، کسی شیخ طریقت سے خلافت مل جانے اور کسی شیخ طریقت کی قربت حاصل ہو جانے سے کوئی بھی انسان صوفی نہیں بن جاتا، اس کے اندر صوفیانہ اقدار نمونہیں پاتے بلکہ اس کے لیے عملی بننا پڑتا ہے کیونکہ تصوف کوئی فکری و نظریاتی چیز نہیں، خالص عملی چیز ہے، یہ احساس کا نام ہے، شعور کا نام ہے، باطن سے عبارت ہے، یہ قال نہیں حال ہے، یہ جذبہ ہے۔ صوفیانہ قدروں کا حامل انسان تصوف کا مظاہرہ نہیں کرتا بلکہ اس کی عادات و اطوار خود بخود تصوف کے رنگ میں ڈھلتی چلتی جاتی ہیں۔
یقینا ہر طالب علم کے شعور میں یہ باتیں پوشیدہ ہوتی ہیں لیکن کسی چیز کا علم اور شے ہے اور اسے برتنا دیگر شے ہے۔ جو اخلاقیات و اقدار ہمارے مذہبی اشرافیہ کے دماغوں میں عموماً جا گھسی ہیں، کیا وہ واقعی ہماری اخلاقیات ہیں؟ کیاان پر صوفیانہ رنگ چڑھا ہوا ہے؟ کیایہ تصوف کی اقدار ہیں؟ بات بات پر فتاوی صادر کرنا، اختلاف کو مخالفت کے ہم معنی تصورکرنا، فروعی مسائل پر آسمان سر پر اٹھا لینا، سنی سنائی بات پر طوفان کھڑا کر دینا اور محض غلط فہمی کی بنیاد پر آپے سے باہر ہو جانا اور ان جیسی دیگر منفی حرکات کو کس زمرے میں رکھا جا سکتا ہے؟ جس معاشرے میں اخلاق کی یہ سطح ہو وہ زوال کے بدترین راستے سے گزر رہا ہوتا ہے۔ ہمارے رویوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم نے اخلاقیات کی اک نئی تعریف گڑھ رکھی ہے۔ اس تناظرمیں ہمیں اخلاقیات و اقدار کو Ridifene کرنا چاہیے۔ اخلاقیات و اقدارکے اس قحط اور کردار کے اس بحران میں اگر ہم اسے Ridifene نہ کرسکے تواس کے بڑے بھیانک نتائج برآمد ہوں گے۔ Ridifene کے لفظ سے کسی کو یہ شبہ نہ ہوکہ اخلاقیات کی کوئی نئی تعریف از سر نو وضع کی جائے بلکہ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جو تعریف سیرت و حدیث کی کتابوں میں ہے یا جو اس سے ماخوذ ہے اسی کو Apply کیا جائے۔
ہم جسے اقدار و روایات کہہ رہے ہیں، یہ دراصل ہمارے تصوف کی اقدار ہیں اورانسانی فطرت سے متعلق ہیں، اور یہ پہلے ہی عرض کیا جا چکا کہ ان اقدار کا ماخذ یا تو خانقاہیں ہیں یامدارس۔گویا بالواسط یا بلاواسطہ ہمارے زوال کا سرا، ہمارے اخلاقی ادبار کا رشتہ مدارس سے جڑا ہوا ہے مگر ہم کو اس ہلاکت خیز بحران کا اندازہ اس لیے نہیں ہو رہا ہے کہ یہ معاملہ اخلاقیات کا ہے، صوفیانہ اقدار کا ہے۔ یہ جب زوال پذیر ہوتے ہیں تو99 فیصد لوگوں کو احساس ہی نہیں ہوتا۔ یہ سیاسی، عسکری اور اقتصادی معاملات کی طرح نہیں ہوتا کیونکہ یہ معاملات جب زوال پذیر ہوتے ہیں تو اس کے نتائج بھی جلد سامنے آنے لگتے ہیں مگر اخلاقیات دھیرے دھیرے اپنا اثر دکھاتی ہے۔ کم سے کم سوسال، زیادہ سے زیادہ تین سوسال اور استثنائی صورت میں چھ سوسال۔ یہ تاریخ کا اصول ہے۔ اخلاقیات نہ ہو تو معاشرے اور قومیں، معاشرے اور قومیں رہتی ہی نہیں کیونکہ ان کی روح نکل چکی ہوتی ہے۔ ہمیں احساس تب ہوتا ہے جب بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے اور جب چڑیاں کھیت چگ جائیں تو پھر پچھتانے سے کچھ نہیں ہوتا۔
ایک نمونہ:
ہم میں سے اکثر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے اپنے صحابہ کے بارے میں ارشاد فرمائے گئے اس ارشاد باری تعالی: اَشِدّاء عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَاء بَیْنَہُم (یعنی صحابہ کی خصوصیت یہ ہے کہ منکرین پر سخت اور اپنوں پر رحم دل ہیں) کوپیش کرتے ہوئے اسے دین کے ساتھ شدت کو نتھی کرنے کی سند تصور کرتے ہیں۔ ہمارے فہم ناقص میں یہاں مطلب کچھ اور ہے۔ صحابہ کی یہ خصوصیت دراصل اسلام کا ایک اصول اور ان کی معاملاتی زندگی کاشفاف آئینہ ہے۔ کافروں پر سختی کا مطلب یہاں یہ ہے کہ وہ کسی کا دبائو قبول نہیں کرتے، کسی کی لالچ میں نہیں آتے۔ اگر اس ارشاد کا مفہوم ظاہری الفاظ سے مستعار لیا جائے تویہ خلافِ عقل اور خلافِ فطرت بات ہوگی۔ دنیا میں انسان کا ہر ایک سے واسطہ پڑتا ہے، اپنے بھی غیر بھی، موافق بھی مخالف بھی، مومن بھی کافر بھی۔ اگر کوئی انسان غیروں، مخالفوں اور کافروں سے اچھا سلوک نہیں کرتا تو معاشرے میں اس کی ساکھ تو متاثر ہوگی ہی، دین میں بھی وہ نہایت غیراخلاق قرار دیا جائےگا۔ یہاں پر اخلاق کی معنویت اور اہمیت بھی سامنے آتی ہے کہ انسان اپنوں کے ساتھ تو اچھا سلوک کرتا ہی ہے مگر کیا غیروں کے ساتھ بھی اچھا برتائو اور اچھے تعلقات برقرار رکھتا ہے؟ اسلام نے اخلاقیات کا ادارہ اسی لیے قائم کیا تاکہ اس کے ذریعے انسان کے اچھا یا برا ہونے کا فیصلہ کیا جاسکے لہٰذا جو حضرات اس کاحوالہ دیتے ہیں اولاً وہ اس کے مفہوم کوسمجھنے سے قاصر رہے ہیں اور ثانیاً وہ اس پر عمل پیرا ہو ہی نہیں سکتے، کیونکہ وہ دنیا میں رہتے ہیں، انسانی آبادی میں معاملاتی زندگی میں جکڑے ہوئے ہیں۔ وہ کسی صحرامیں نہیں رہتے، کسی جنگل میں بسیرا نہیں کرتے۔ یہ فطری بات ہے کہ جب تک مخاطب کے ساتھ محبت کا معاملہ نہیں کیا جاتا تب تک وہ کسی کی بات سننا تو درکنار اس کے پاس بیٹھنا بھی گوارا نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ دین کو فطرت سے نہایت قریب تر اور آسان بنایا گیا، اس کا کوئی بھی حکم کسی بھی انسان پر تکلیف مالایطاق نہیں بنتا۔ اگر یہ سخت ہوتا تو تیئس سال کے کم عرصے میں جزیرۃ العرب سے نکل کر عجم کی سرحدوں میں نہ داخل ہوپاتا مگر جب سے دین کے احکام کو شدت کے غلاف میں لپیٹ کر پیش کیاجانے لگا اس کی نمو رک گئی۔
اس نمونے کو پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس ارشاد کو پیش کرنے والے ہم ہی لوگ ہیں یعنی مدارس کے پروردہ۔ ہم اگر اپنی عقل کا تھوڑا سا بھی استعمال کریں تو بہت سارے معاملات میں ہمیں محسوس ہوگا کہ ہمیں اپنی قوم کی اصلاح کیسے کرنی ہے، دوسروں کو قریب کیسے کرنا ہے اور اسلامی تعلیمات اور متوارث عقائد کے تحفظ کے لیے کیا پالیسی بنانی ہے۔ ہمارا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم غلط کو صحیح سمجھ رہے ہیں اور اسے صحیح سمجھ کرعمل میں بھی لا رہے ہیں۔ انسان اگر غلط کرے اور اسے اس کا احساس بھی ہو تو اس کی واپسی کا امکان ہوتا ہے لیکن جب احساس ہی مردہ ہوجائے تو پھر واپسی کا سوال ہی نہیں ہوتا۔ دانشور کہتے ہیں کہ غلط پریکٹس کچھ بھی پریکٹس نہ کرنے سے بہتر ہے۔کچھ نیا سیکھنا آسان ہوتا ہے لیکن اگر آپ نے غلط سیکھ لیا ہے تو اسے Unlearn کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ ہم آج اسی عذاب میں مبتلا ہیں۔ ساری تحریریں، ساری تقریریں، ساری کتابیں اسی لیے شاید اپنے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام ہیں کہ اس Wrong Learning کو Unlearn کریں تو کیسے؟یہ تو ہمارے شعور کی حد تک بس چکی ہیں۔
تاریخ کااصول:
کسی بھی قوم کے زوال کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ سیاسی، عسکری اور اقتصادی حیثیت سے کمزور ہوگئی ہو۔ وہی قومیں ترقی کے مینار پر چڑھتی ہیں جنہیں اخلاقی برتری حاصل ہوتی ہے۔ ہمارے مصنفین و مقررین عام طور پر لکھتے اور بولتے رہے ہیں کہ ہمارے زوال کی بنیادی وجہ قرآن و حدیث سے ہماری دوری ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ پھر وہ اقوام کیوں ترقی پر ہیں جو مسلمان نہیں ہیں بلکہ جو ملحد بھی ہیں۔ کیاان کی ترقی ان کے علمی اور ذہنی بلندیوں کی وجہ سے ہوئی ہے؟ نہیں۔ بلاشبہہ قرآن کریم سے دوری بھی ہمارے زوال کی ایک وجہ ہے مگر ضمنی اور فروعی، سب سے بڑی وجہ اخلاقی زوال ہے۔ الناس علی دین ملوکھم ۔ جب معاشرے کے سربرآوردہ اور نمائندہ حضرات اس بیماری میں پھنسے ہوں توعوام الناس بدرجہ اولیٰ پھنس جائیں گے۔ ہمیں اس حقیقت کا گھونٹ پی لینا چاہیے کہ مغربی اقوام کو اخلاق و معاملات میں ہم سے برتری حاصل ہے۔ جن معاشروں کو ہم بےراہ رو قرار دے کر ان میں کیڑے نکالتے رہے ہیں وہ توخلائوں کا سفر کر رہے ہیں، وہ مریخ کے ساتھ اٹھکھیلیاں کر رہے ہیں اور ہم ان کی اخلاقیات میں کیڑے نکالنے کے باوجود ان کی مصنوعات سے استفادے پر مجبور ہیں۔ ہمارے اندر اخلاقی برائیوں کے پیدا ہوجانے کا مطلب ہے کہ ہم عملی تصوف سے بہت دور ہوگئے ہیں، ہم نے صوفیانہ اقدار کو کنارے رکھ دیا ہے۔ ہم اس وقت تک عروج کی سیڑھی نہیں چڑھ سکتے یا یوں کہہ لیجیے کہ ہماری ملت اس وقت ترقی کے قدم آگے نہیں بڑھا سکتی جب تک ہم تصوف کوگلے نہ لگائیں اور یہ کام صرف اور صرف فرزندان مدارس ہی صحیح طور سے کرسکتے ہیں، اس لیے ان کوعملی تصوف سے مزین ہونا کس قدر ضروری ہے، اب یہ بتانے کی ضرورت ہی نہیں۔
پانچویں تجویز:
قرآن کریم بار بار انسان کو تعقل و تفکر پر ابھارتا ہے، درجنوں آیات میں مختلف حوالوں سے غور و فکرکی دعوت دی گئی ہے۔ تصوف کے مراحل پر اگر آپ غورکریں گے تو پتہ چلے گا کہ انسان تصوف کے اعلیٰ معیار پر اسی وقت چڑھتاہ ے جب وہ غوروخوض کا عادی ہو جاتا ہے، کائنات کی نشانیوں میں تدبر و تفکر کرتا ہے۔گویا تفکر و تعقل تصوف کی بنیاد ٹھہرا۔ صوفیا کے مطابق یہ خدائے تعالیٰ کی قربت کا ذریعہ ہے، رب کی حقیقی معرفت کا وسیلہ ہے۔ جو انسان غور و فکر کا عادی ہو جاتا ہے، وہ واقعی حقیقت پسند بن جاتا ہے اور اس کا ذہن تخلیقی ہو جاتا ہے، وہ ہرکس و ناکس کی بات من و عن قبول نہیں کرلیتا اور اسے یہ اصول ازبر ہوجاتا ہے Changing rules for changing needs and unchanging rules for unchanging needs اور جسے یہ اصول ازبر ہو جاتا ہے تواسے قائد بننے، فاتح زمانہ کا اعزاز پانے اور صحیح عالم دین و دانشور بننے کا شرف بھی حاصل ہو جاتا ہے۔انگریزی کے اس مفہوم کو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں اس طرح بیان فرمایا: علی العاقل ان یکون بصیرا بزمانہ (مسنداحمد ابن حبان:حدیث نمبر361) یعنی عقل مند کے لیے ضروری ہے کہ وہ زمانے کے حالات سے باخبر ہو۔ حقیقی صوفی وہی ہوتا ہے جو لوگوں کی نفسیات سے آشنا ہوتا ہے اور اسی کے مطابق اس کا علاج کرتا ہے۔جب انسان کا تزکیہ ہوجاتا ہے، اس کا نفس مزکی ہو جاتا ہے تو وہ صحیح معنوں میں تقوی شعار بن جاتا ہے اور عمدہ اخلاق کے اسلحوں سے لیس ہو جاتا ہے تو پھر وہ خدا کی شاہکار تخلیق انسان سے ویسا ہی معاملہ کرتا ہے جیسا خدا چاہتا ہے، وہ ان کی بھلائی کا ہر وقت خواہاں رہتا ہے۔ وہ دلوں میں محبت پیدا کرتا ہے، انہیں قریب کرتا ہے، ٹوٹے ہوئے کوجوڑتا ہے، اگر انسان بگڑ جائے تو وہ یکلخت اسے بھگاتا نہیں اسے قریب کرتاہے، اسے سمجھاتاہے، اس کی غلط فہمی دور کرتا ہے۔ وہ معاشرے کو امن وامان کا تحفہ دیتا ہے، وہ اضطراب نہیں پیدا کرتا، نفرت نہیں پیدا کرتا، کسی کے درپے آزار نہیں ہوتا۔ اس کے برخلاف جو انسان تقوی و پرہیزگاری کے منصب پر فائز نہیں بلفظ دیگر جس انسان کا دل تذکیر و تزکیہ سے خالی ہوتاہے، وہ خدا کے تخلیقی پلان کے نقشے کو نہیں سمجھ سکتا، اسے سواداعظم کی معنویت کا ادراک نہیں ہوتا، اسے اجتماعیت سے ناآشنائی ہوتی ہے۔ ایسا انسان اپنے معاشرے میں پنپ رہے رجحانات سے ہی غذاحاصل کرتا رہتا ہے اور یہ غذا کھاتے کھاتے ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ وہ عالم و صوفی ہونے کے باوجودع الم و صوفی نہیں ہوتا بلکہ عالم نما اور صوفی نماہوتا ہے۔ ظاہر ہے ایسا انسان بلکہ یوں کہیے کہ ایساعالم ہمارے معاشرے کے لیے کیسے کارگر ہو سکتا ہے۔ اس لیے طلبہ میں غور و فکر کی عادت شروع ہی سے ڈالنی چاہیے، اختلاف رائے ہوجانے پر ان کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے تاکہ ان کا تخلیقی ذہن برابر ارتقا پذیر رہے۔ حالات بڑی تیزی سے پلٹا کھا رہے ہیں، روز نئے نئے رجحانات کاسامنا ہو رہا ہے۔ اس ماحول میں تخلیقی فکر کاحامل انسان ہی معاشر ے کی اصلاح کے حقیقی فرائض انجام دے سکتا ہے۔
چھٹی تجویز:
اگر مدارس اسلامیہ میں صوفیانہ اقدار اور تذکیر و تزکیہ پر بھی زور دیا جانے لگے تو دعوت و تبلیغ کا کام جوعرصے سے بند پڑا ہے، ایک بار پھر چل نکلے۔ ارباب نظر جانتے ہیں کہ اصلاح امت اور تبلیغ و دعوت دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ ہماری فکری بےکسی کا حال تویہ ہے کہ ہم میں سے بیشتر آج تک اصلاح امت اور تبلیغ و دعوت میں فرق ہی نہیں کرسکے۔ اصلاح کا فریضہ اپنوں میں انجام دیاجاتا ہے اور دعوت کا فریضہ غیروں میں، جو اسلام سے دور ہیں۔ نفس کا تزکیہ انسان کو اندر تک بدل دیتا ہے، وہ اسے مصفی و مجلی کر دیتا ہے۔ اسلام ظاہری تبدیلی سے زیادہ اندرونی تبدیلی کا خواہاں ہے۔ قرآن کریم اس کا واضح طور پر اعلان فرماتا ہے: ان اللہ لایغیر مابقوم حتی یغیر مابانفسہم یعنی اللہ عزوجل اس وقت تک کسی قوم کو تبدیل نہیں فرماتاجب تک کہ وہ خود اپنے آپ کو تبدیل نہیں کرتی۔ یہاں انفسہم سے مراد داخلی و روحانی اور باطنی تبدیلی ہے کیونکہ باطنی تبدیلی ہی کے ذریعے انسان معراج کمال پر پہنچتا ہے ورنہ ظاہری تبدیلی تو انسان کومنافق بنا دیتی ہے، اسے کسی کام کو انجام دینے میں تکلف سے کام لینا پڑتا ہے جبکہ باطنی تبدیلی کے حامل انسان کی عادات اس کی فطرت ثانیہ بن جاتی ہیں۔ یہ اصولی سبق بھی فارغین کو یاد رکھنا چاہیے۔
روحانیت اور باطنیت کے باب میں ایک بات اور خاص توجہ کی طالب ہے۔ ہمارے معاشرے میں آج بھی ایسے صوفی حضرات مل جاتے ہیں جو روحانی طور پر بڑے مضبوط ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے کام لیتا ہے، عوام الناس کی ایک کثیر تعداد ان سے مستفید ہوتی ہے۔ ہمارے ہندوستان کے عوام الناس کی زبان میں انہیں بابا کہاجاتا ہے۔ ہم یہاں اچھے اور سچے بابائوں کا تذکرہ کر رہے ہیں، جھوٹے اور جعلی عاملین اور بابائوں کا نہیں۔ سچے اور اچھے بابا بلاشبہ روحانی شخصیت ہوتے ہیں لیکن یہ علم و فن میں کامل نہیں ہوتے، یہ اپنے معتقدین کے لیے طمانیت قلب کا سامان تو کرسکتے ہیں، انہیں روحانی غذا تو فراہم کر سکتے ہیں لیکن انہیں دینی معلومات سے آشنا نہیں کراسکتے۔ یہ چھوٹے موٹے مسائل تو بتا سکتے ہیں مگر مذہبی معاملات کو گہرائی سے نہیں سمجھ سکتے۔ اس کے برعکس مدارس اسلامیہ کے فارغین اس کے اہل ہوتے ہیں کہ وہ مسائل شرعیہ کو نہایت گہرائی سے سمجھ سکیں۔ وہ عوام الناس کی علمی تشنگی دور کرسکتے ہیں۔ مدارس کے طلبہ کو اگر روحانی طور پر بھی مضبوط کر دیا جائے تو ایک ہی شخص سے عوام کی دونوں ضرورتیں پوری ہوجائیں گی، علمی بھی، روحانی بھی۔ طلبہ کو یہ سبق بھی یاد کرانا ضروری ہے کہ اسلام صرف مذہب نہیں دین ہے۔ مدارس کے طلبہ صرف مساجد و مدارس کے لیے نہیں بلکہ زندگی کے ہرشعبے میں رہنمائی کے لیے ہوتے ہیں۔
مدارس میں تصوف کی روایتوں کوفروغ دینے کے لیے الگ سے تصوف کی کتابیں بھی شامل کرنے کی ضرورت پر بعض لوگ زور دیتے رہے ہیں۔ ہمارے فہم ناقص میں یہ ایک لایعنی مشورہ ہے۔ مدارس کے نصاب میں الگ سے تصوف کی کتابیں داخل کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ قرآن کریم، حدیث، تفسیر، سیرت کیاہے؟ اسے تصوف نہ کہاجائے تو اور کیا کہا جائے۔ یہی چیزیں تو تصوف کا ماخذ ہیں۔ گویا مدارس میں نظری تصوف پڑھایا جاتا ہے بس کسر یہ باقی رہ گئی ہے کہ یہ وہاں کے ماحول میں عام طور پر Apply نہیں ہو رہا ہے، اس لیے ضرورت صرف ایساماحول پیدا کرنے کی ہے۔
مدارس میں صوفیانہ اقدار کے فروغ کا مسئلہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں کہ اسے بس موضوع سخن بنا کر یوں ہی چھوڑ دیا جائے۔ اس مسئلے کی جڑیں سماج کی تشکیل، افکار کی تطہیر، قوموں کی تقدیر اور امت کے مسائل کی تدبیر سے وابستہ ہیں۔ مساجد و مدارس کے جتنے گہرے اثرات معاشرے پر ہوتے ہیں اتنے اور کسی کے نہیں ہوتے اور ہو بھی نہیں سکتے۔ مساجدکے ائمہ بھی مدارس ہی سے آتے ہیں اس لیے مدارس ہی ہیں جو معاشرے کی روح ہیں اور مدارس کی روح صوفیانہ اقدار ہیں۔ اگر اپنے معاشرے کوبچانا ہے تو مدارس کو بچانا ہوگا اور اگر مدارس کو بچانا ہے تو اس کی روح یعنی صوفیانہ اقدار اور اس کی روایات کو بچانا ہوگا۔ صوفیانہ اقداراسلام کی اقدار ہیں، اسلامی تہذیب کی اقدار ہیں، ہمارے اسلاف کی اقدار ہیں اور ہمارے معاشرے کی اقدارہیں، اور ہمارے مذہب، ہمارے معاشرے، ہماری تہذیب کی بقا کا دارومدار صرف اور صرف مدارس پر ہے، اس لیے ہمارے مدارس کی روح کا فنا ہوجانا گویا ہماری تہذیب و ثقافت کا بھی فنا ہوجانا ہے اور ہماری قوم و معاشرے کا بھی۔ یقین نہ آئے تو معاشرے میں جھانک کر دیکھ لیجیے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا معاشرہ مردار ہو چکا ہے، اس کی روح نکل چکی ہے، اس کی جڑیں کٹ چکی ہیں۔ پانی ابھی سر سے اونچا نہیں ہوا ہے لیکن ہمارامعاشرہ جس سمت جا رہا ہے، اس سے بآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس کا انجام کیا ہوگا، اس لیے مدارس میں صوفیانہ اقدار کا فروغ وقت کا اہم تقاضا ہے۔