اسلام ایک آفاقی مذہب ہے جو قیامت تک باقی رہے گا۔ یہ دین دنیا میں امن، عدل اور ترقی کا پیغام لے کر آیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب مسلمانوں نے اسلام کی اصل تعلیمات پر عمل کیا، تو وہ دنیا کی سب سے بڑی قوت بن کر ابھرے۔
لیکن جب انہوں نے اپنے دین کی روح کو فراموش کر دیا، تو زوال کا شکار ہو گئے۔ آج امتِ مسلمہ سیاسی، سماجی، اخلاقی اور علمی لحاظ سے پستی میں جا چکی ہے۔ اس زوال کے پیچھے کئی وجوہات ہیں، جن کا تجزیہ کرنا اور ان کا حل تلاش کرنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔مسلمانوں کا سنہری دور وہ تھا جب انہوں نے قرآن و سنت کو اپنا رہنما بنایا۔ خلفائے راشدین، بنو امیہ، بنو عباس اور سلطنتِ عثمانیہ کے ادوار میں مسلمان نہ صرف دنیا پر حکومت کر رہے تھے بلکہ علم، فلسفہ، سائنس اور تہذیب میں بھی سب سے آگے تھے۔ بغداد، قرطبہ، دمشق اور قاہرہ جیسے شہر علم و حکمت کے مراکز تھے۔علامہ اقبال نے کہا تھا:
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
لیکن جب مسلمانوں نے اسلامی اصولوں سے روگردانی کی، تو زوال کا آغاز ہوا۔
زوالِ اسلام کی وجوہات
1. دین سے دوری: مسلمانوں کے زوال کی سب سے بڑی وجہ ان کا اپنے دین سے دور ہونا ہے۔ اللہ تعالیٰ نح فرمایا:
"وَمَنۡ أَعۡرَضَ عَن ذِكۡرِی فَإِنَّ لَهُۥ مَعِيشَةࣰ ضَنكࣰا" (طٰہٰ: 124)
(ترجمہ: اور جو میرے ذکر سے منہ موڑے گا، اس کے لیے دنیاوی زندگی تنگ ہو جائے گی۔)
جب تک مسلمان قرآن و سنت پر عمل پیرا رہے، وہ کامیاب رہے، لیکن جب انہوں نے اسلامی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا، تو ان پر زوال آ گیا۔
2. علمی انحطاط: اسلامی تاریخ میں مسلمان علم کے میدان میں سب سے آگے تھے۔ جابر بن حیان، ابنِ سینا، البیرونی اور الخوارزمی جیسے سائنسدانوں نے دنیا کو نئی راہیں دکھائیں۔ لیکن آج مسلمان علمی میدان میں پسماندہ ہیں۔ تعلیم کی کمی نے انہیں پستی میں دھکیل دیا ہے۔حکیم الامت فرماتے ہیں:
"گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا"
3. اتحاد کا فقدان : آج امتِ مسلمہ فرقہ واریت، لسانیت اور قومیت کی بنیاد پر تقسیم ہے۔ مسلمان آپس میں دست و گریباں ہیں، جبکہ دشمن متحد ہو کر مسلمانوں کو مزید کمزور کر رہا ہے۔قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا" (آلِ عمران: 103)
(ترجمہ: اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقے میں نہ پڑو۔)
لیکن بدقسمتی سے آج مسلمان قرآن کے اس حکم کو نظر انداز کر رہے ہیں۔
4. اخلاقی پستی: اسلام نے اخلاقیات پر بہت زور دیا ہے، لیکن آج مسلمان خود اسلامی اخلاقیات سے دور ہو چکے ہیں۔ جھوٹ، دھوکہ، بے ایمانی اور ظلم عام ہو چکا ہے۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں:"معاشرہ کفر کے ساتھ تو زندہ رہ سکتا ہے لیکن ظلم کے ساتھ نہیں۔"مسلمان جب تک دیانت، صداقت اور انصاف کو اپنائے رکھیں گے، تب تک وہ دنیا میں کامیاب رہیں گے، لیکن جب انہوں نے بددیانتی کو اپنا شعار بنا لیا، تو زوال مقدر بن گیا۔
5. مغربی تہذیب کی نقالی : مسلمانوں نے اپنی اسلامی شناخت کو پس پشت ڈال کر مغربی تہذیب کی اندھی تقلید شروع کر دی۔ وہ ظاہری چمک دمک میں تو آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن اپنی دینی اور ثقافتی جڑوں سے کٹ رہے ہیں۔اقبال نے کہا تھا:
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی اسلامی تہذیب کو اپنائیں اور مغرب کی بے راہ روی سے بچیں۔
6. اسلامی قیادت کا فقدان :مسلمانوں کے پاس کوئی مضبوط قیادت نہیں جو انہیں متحد کرے اور صحیح راستہ دکھائے۔ ماضی میں صلاح الدین ایوبی، نورالدین زنگی اور محمد الفاتح جیسے حکمران تھے، جو اسلام کی سر بلندی کے لیے کام کرتے تھے۔ آج مسلم حکمران عیش و عشرت میں مصروف ہیں اور امت کے مسائل پر توجہ نہیں دے رہے۔
7. معاشی کمزوری: مسلمان ممالک وسائل سے مالا مال ہیں، لیکن اقتصادی لحاظ سے کمزور ہیں۔ مغربی طاقتیں ان کے وسائل کا استحصال کر رہی ہیں، اور مسلمان معیشت میں خود کفیل ہونے کے بجائے دوسروں پر انحصار کر رہے ہیں۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا ٱسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ" (الأنفال: 60)
(ترجمہ: اور ان کے مقابلے کے لیے جو طاقت میسر ہو، تیار رکھو۔)
لیکن مسلمان معاشی ترقی اور خود انحصاری کی طرف سنجیدگی سے نہیں بڑھ رہے۔
زوال سے نکلنے کا حل
1. قرآن و سنت کی طرف رجوع: مسلمانوں کو اپنی زندگیوں میں قرآن و حدیث کو عملی طور پر نافذ کرنا ہوگا۔
2. تعلیم اور تحقیق: جدید تعلیم اور تحقیق میں مہارت حاصل کرنی ہوگی تاکہ امت علمی میدان میں دوبارہ اپنا مقام حاصل کر سکے۔
3. اتحاد و یکجہتی: فرقہ واریت اور قوم پرستی سے نکل کر ایک ملت بننا ہوگا۔
4. اخلاقی اصلاح: سچائی، دیانتداری اور انصاف کو فروغ دینا ہوگا۔
5. مضبوط قیادت: ایسی قیادت پیدا کرنی ہوگی جو امت کی صحیح رہنمائی کرے۔
6. معاشی خود کفالت: اسلامی ممالک کو اقتصادی میدان میں خود مختار بننا ہوگا۔
7. جدید ٹیکنالوجی کا استعمال: سائنس و ٹیکنالوجی میں ترقی کیے بغیر مسلمانوں کا عروج ممکن نہیں۔
مسلمانوں کا زوال ان کی اپنی کمزوریوں کا نتیجہ ہے، لیکن یہ ہمیشہ کے لیے نہیں۔ اگر وہ اپنی غلطیوں کو تسلیم کر کے اصلاح کی کوشش کریں، تو دوبارہ دنیا کی قیادت کر سکتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جو قوم محنت اور ایمانداری کو اپنا شعار بناتی ہے، وہ کبھی زوال کا شکار نہیں ہوتی۔اقبال نے کہا تھا:
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
اگر مسلمان اپنی کھوئی ہوئی عظمت کو پانے کے لیے عملی اقدامات کریں، تو زوال کی جگہ عروج ان کا مقدر بن سکتا ہے۔
تبصرہ لکھیے