ہوم << ماورائے گماں - علی عبداللہ

ماورائے گماں - علی عبداللہ

مطالعے کے دوران ایک لفظ نظروں سے گزرا؛ "ماورائے گماں"۔ لحظہ بھر کے لیے کتاب کو ایک طرف رکھا اور اس لفظ کے مفہوم پر غور کرنے لگا کہ گماں کیا ہے؟ اور اس کی سرحد سے پرے کیا شے ہو سکتی ہے؟

گماں ایک داخلی کیفیت ہے، ایک ناتمام یقین، جو ظن و تخمین کے دھندلکوں میں بسیرا کرتا ہے۔ یہ وہ ناپختہ روشنی ہے جو یقینی علم کی صبح سے پہلے، شبِ جہالت کے آخری پہر میں ٹمٹماتی ہے۔ انسان جب کسی شے کے بارے میں مکمل آگاہی نہیں رکھتا، تو اس کے ذہن میں امکانات کی ایک دنیا بیدار ہونے لگتی ہے۔ وہ اپنی یادداشتوں، تجربات اور جذبات کے رنگوں سے ایک نقشہ تراشتا ہے، جسے وہ "گماں" کہتا ہے۔ کبھی یہ محض ایک خوش گمانی ہوتی ہے، تو کبھی وہم و وسوسے کا روپ دھار لیتی ہے۔

مگر ماورائے گماں! یہ ان حدوں کے پار کی دنیا ہے جہاں قیاس اور اندازے بے بس ہو جاتے ہیں، جہاں انسانی سوچ کے دائرے سمٹنے لگتے ہیں اور حقیقت اپنے تمام تر اسرار کے ساتھ جلوہ گر ہوتی ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں علم اپنی معراج کو پہنچتا ہے یا پھر عقل کی سرحدیں ختم ہو کر حیرت اور وجدان کی وادی میں داخل ہو جاتی ہیں۔ ماورائے گماں درحقیقت وہ حقیقت ہے جسے انسانی ذہن گرفت میں نہیں لے سکتا، جو گمان کی دنیا میں ایک دھندلے امکان کے سوا کچھ نہیں ہوتی، مگر جب ظاہر ہوتی ہے تو ذہن کے تمام نقشے بیک وقت بکھر بھی جاتے ہیں اور نئے افق بھی کھلتے ہیں۔

جیسے کوئی مسافر جو ریگستان میں کسی نخلستان کو محض ایک سراب سمجھ کر آگے بڑھتا ہے، مگر جب قریب پہنچتا ہے تو حیران رہ جاتا ہے کہ یہ تو واقعی ایک شاداب باغ ہے، ایک سچائی جو اس کے تخیل سے بھی زیادہ حسین ہے. ماورائے گماں حقیقت کا وہ زاویہ ہے جہاں دنیاوی منطق کے قدم رک جاتے ہیں، اور شعور ایک نئے جہان میں داخل ہوتا ہے، جہاں وحی، الہام اور وجدان کی حکمرانی ہوتی ہے۔ یہ محض ایک اصطلاح نہیں ہے، بلکہ یہ ایک ایسا جہان ہے جہاں منطق کے چراغ بجھنے لگتے ہیں اور ادراک کے نئے افق روشن ہوتے ہیں۔

غور کریں کیا حقیقت وہی ہے جو نظر آتی ہے؟ یا کوئی اور جہان بھی ہماری آنکھ سے اوجھل ہے؟ افلاطون کے "عالمِ مثال" کا نظریہ ہو یا کانٹ کا "نومینن"، یہ سب ماورائے گماں حقیقتوں کی کھوج ہی تو تھی۔ سقراط نے اپنے شاگردوں کو ہمیشہ اس گمان سے آزاد ہونے کی ترغیب دی جو انھیں محدود رکھے ہوئے تھا۔ ہیگل کے جدلیاتی طریقِ کار میں حقیقت مسلسل ایک نئی شکل اختیار کرتی ہے، جہاں ہر تھیسس (نظریہ) ایک اینٹی تھیسس (ضد) سے ٹکراتا ہے، اور ایک نئی سنتھیسس (تطبیق) جنم لیتی ہے، جو خود بھی ایک نئے تضاد کو جنم دینے کے بعد تحلیل ہو جاتی ہے۔ یہ سب ظاہر کرتا ہے کہ گمان کی سرحدوں سے آگے ایک ایسی دنیا ہے جو مسلسل ہماری نظر اور فکر سے اوجھل رہتی ہے، مگر حقیقت کے قریب تر ہوتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ کوانٹم میکینکس ایک ایسی دنیا کو ظاہر کرتی ہے جو ہمارے معمول کے مشاہدے کے دائرے میں نہیں آتی۔ ایک الیکٹران بیک وقت دو جگہوں پر ہو سکتا ہے، ایک ذرہ ناظر کے مشاہدے کے مطابق اپنی حالت بدل سکتا ہے، اور کائنات میں ایسی چیزیں موجود ہو سکتی ہیں جو مادی دنیا کے قوانین سے ماورا ہیں۔ بلیک ہولز کے بارے میں ہماری معلومات صرف ان کے اثرات کی بنیاد پر ہیں، مگر کیا ان کے اندر کوئی دوسری حقیقت موجود ہے؟ کیا کائنات میں ایسے نقاط ہیں جہاں وقت اور مکان ختم ہو جاتے ہیں؟

اسی طرح کچھ فلسفیوں اور سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ ہماری حقیقت بذاتِ خود ایک "سِمُولیشن" (Simulation) ہو سکتی ہے، جیسے کمپیوٹر میں چلنے والا کوئی پروگرام۔ نک بوستروم کے مطابق، اگر ایک ترقی یافتہ تہذیب حقیقت کی نقل(simulations) بنانے کے قابل ہو جائے، تو امکان ہے کہ ہم خود بھی کسی ایسی ہی تخلیق میں جی رہے ہوں۔ چناچہ "ماورائے گماں" محض ایک خیال نہیں، بلکہ ایک راہ ہے جو ہر سچائی کے متلاشی کو طے کرنی ہوتی ہے۔ فلسفہ اسے عقل کی کسوٹی پر پرکھتا ہے، سائنس اسے تجربے میں ڈھالتی ہے، ادب اسے تخیل میں پروتا ہے، اور تصوف اسے حقیقت میں جینے کی دعوت دیتا ہے۔

یہاں ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا "ماورائے گماں" کو اگناسٹک (Agnostic) قرار دیا جا سکتا ہے؟ چونکہ اگناسٹک ازم کا بنیادی مفہوم یہ ہے کہ کچھ حقیقتیں، خصوصاً خدا کے وجود یا وحی وغیرہ انسانی عقل اور علم کی دسترس سے باہر ہیں، یعنی ان کے بارے میں کوئی حتمی دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ہم "ماورائے گماں" کو اس زاویے سے دیکھیں تو بظاہر یہ اگناسٹک رویے کے قریب معلوم ہوتا ہے، کیونکہ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ کچھ حقیقتیں ہمارے تخمینوں، اندازوں اور قیاسات سے آگے کی چیز ہیں۔ انسانی عقل ایک حد تک جا سکتی ہے، مگر اس کے آگے جو کچھ ہے، وہ "ماورائے گماں" ہے؛ وہ دائرہ جہاں تجربہ، منطق، اور حواس بے بس ہو جاتے ہیں۔

لیکن اصل معاملہ یہ ہے کہ اگناسٹک رویہ عمومی طور پر کسی حقیقت کے ادراک میں شک اور عدمِ یقین پر قائم ہوتا ہے، جبکہ "ماورائے گماں" صرف عدمِ یقین کی بات نہیں کرتا بلکہ ایک ایسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے جو انسانی گمان اور فہم سے بالاتر ہے، مگر موجود ہے۔ اس لیے یہ محض ایک شک پر مبنی محدودیت نہیں بلکہ وجدان اور حقیقت کی وسعت کی علامت ہوتا ہے- لہذا اگر اگناسٹک ازم کسی چیز کو "ناقابلِ اثبات" یا "نامعلوم" کہہ کر رک جاتا ہے، تو "ماورائے گماں" اس مقام کی طرف دیکھنے کی دعوت دیتا ہے جہاں عقل کے پر جلنے لگتے ہیں اور وجدان کے دروازے کھلنے لگتے ہیں۔ یہ محض شک نہیں، بلکہ ایک فکری اور روحانی جست ہے جو آگے بڑھنے پر آمادہ کرتی ہے، نہ کہ محض کسی مقام پر رُک جانے پر۔
وہ عجب گھڑی تھی کہ جس گھڑی، لیا درس نسخہ عشق میں
کہ کتاب عقل کی طاق پر، جو دھری تھی یونہی دھری رہی

Comments

Avatar photo

علی عبداللہ

علی عبداللہ پیشے کے لحاظ سے آئی ٹی ٹرینر ہیں۔ دو دریاؤں کی سرزمین جھنگ سے تعلق رکھتے ہیں۔ کتب بینی اور لکھنے لکھانے کا شوق ہے۔ ادب، تاریخ، مذہب اور ٹیکنالوجی ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں. مختلف ویب سائٹس اور قومی و بین الاقوامی اخبارات میں ان کی تحاریر شائع ہو چکی ہیں۔

Click here to post a comment