ہوم << دریائے سندھ پر نہروں کی تعمیر ، عوام کے لیے خطرہ؟ راؤ محمد اعظم

دریائے سندھ پر نہروں کی تعمیر ، عوام کے لیے خطرہ؟ راؤ محمد اعظم

پاکستان میں پانی کی تقسیم ہمیشہ سے ایک حساس معاملہ رہا ہے، اور گرین پاکستان انیشی ایٹو کے تحت دریائے سندھ پر چھ نئی نہروں کی تعمیر نے سندھ میں شدید بے چینی پیدا کر دی ہے۔ سندھ کی سیاسی جماعتیں، طلبہ تنظیمیں، کسان تحریکیں، اور اب مذہبی جماعتیں بھی اس منصوبے کی مخالفت میں کھل کر سامنے آ چکی ہیں۔ سندھ کے عوام کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ اگر یہ نہریں بنائی گئیں تو ان کی زرخیز زمینیں بنجر ہو جائیں گی، پانی کی قلت مزید بڑھ جائے گی، اور ان کی روزمرہ زندگی شدید مشکلات کا شکار ہو جائے گی۔

سندھ کی مخالفت اور خدشات
سندھ کی مختلف جماعتیں، بشمول پاکستان پیپلز پارٹی، قوم پرست جماعتیں، طلبہ تنظیمیں اور کسان تحریکیں، اس منصوبے کے سخت خلاف ہیں۔ اب مذہبی جماعتیں جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام (ف) بھی سندھ کے عوام کے ساتھ کھڑی ہو گئی ہیں اور عوامی رائے عامہ کو ہموار کر رہی ہیں۔

بنیادی خدشات درج ذیل ہیں:
1. سندھ بنجر ہونے کا خطرہ: سندھ کی معیشت کا بڑا حصہ زراعت پر منحصر ہے، اور اگر ان نہروں کی وجہ سے دریائے سندھ سے سندھ کو ملنے والا پانی کم ہو گیا تو یہ زرخیز زمینیں رفتہ رفتہ بنجر ہو جائیں گی۔
2. ماحولیاتی بحران: دریائے سندھ میں پانی کی مقدار گھٹنے سے سندھ میں ماحولیات پر شدید منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ صحرائے تھر میں پانی کی قلت مزید بڑھ سکتی ہے، اور جنگلی حیات کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
3. عوام کے لیے مشکلات: سندھ میں پہلے ہی پانی کی کمی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اگر ان نہروں کی وجہ سے پانی کی مزید قلت پیدا ہوئی تو دیہی اور شہری علاقوں میں عوام پینے کے پانی کے لیے ترس سکتے ہیں، جس سے نقل مکانی اور بے روزگاری جیسے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔
4. وفاق پر عدم اعتماد: سندھ میں یہ تاثر مضبوط ہو رہا ہے کہ وفاقی حکومت، خاص طور پر پنجاب، سندھ کے حقوق سلب کر رہا ہے۔ اگرچہ حکومت کی جانب سے کوئی واضح مؤقف نہیں آیا، لیکن سندھ میں یہ احساس بڑھتا جا رہا ہے کہ یہ منصوبہ "سندھ دشمن" ہے۔

جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام (ف) جیسی مذہبی جماعتیں بھی اس منصوبے کے خلاف کھل کر میدان میں آ چکی ہیں۔ جماعت اسلامی نے اس معاملے پر واضح مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ دریائے سندھ سندھ کی زندگی کی علامت ہے، اور کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ سندھ کے عوام کے ساتھ زیادتی کرے۔ جمعیت علماء اسلام (ف) نے بھی کسانوں اور عوام کے احتجاج میں شمولیت اختیار کی ہے اور حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ سندھ کے خدشات کا فوری ازالہ کرے۔ یہ جماعتیں سندھ کے عوام کو متحد کر رہی ہیں اور جلسے، احتجاج اور پریس کانفرنسز کے ذریعے رائے عامہ کو حکومت کے خلاف ہموار کر رہی ہیں۔

حیران کن بات یہ ہے کہ وفاقی حکومت، جو کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں قائم ہے، نے اب تک اس مسئلے پر کوئی واضح مؤقف نہیں اپنایا۔ حکومت کا یہ مؤقف کہ یہ منصوبہ ملک کی زرعی پیداوار بڑھانے کے لیے بنایا جا رہا ہے، سندھ کے عوام کے لیے قابلِ قبول نہیں۔ سندھ کے عوام اور ان کی سیاسی قیادت کا مطالبہ ہے کہ انہیں اس منصوبے کی مکمل تفصیلات فراہم کی جائیں اور ان کے خدشات کا ازالہ کیا جائے۔

مسئلے کا حل کیا ہے:
1. سندھ کو اعتماد میں لینا: سندھ حکومت اور عوامی نمائندوں کو اس منصوبے کے فیصلے میں شامل کیا جائے، تاکہ کوئی بھی فیصلہ سب کے لیے قابلِ قبول ہو۔
2. شفاف تحقیقات: آزاد ماحولیاتی اور زرعی ماہرین سے اس منصوبے کے اثرات پر تحقیق کروائی جائے اور اس کے نتائج عوام کے سامنے رکھے جائیں۔
3. پانی کی منصفانہ تقسیم: پانی کی تقسیم کے حوالے سے ایک نیا اور منصفانہ معاہدہ کیا جائے، تاکہ کسی بھی صوبے کے ساتھ زیادتی نہ ہو۔

دریائے سندھ پر نئی نہروں کی تعمیر ایک انتہائی حساس معاملہ ہے، جس پر سندھ میں شدید ردعمل پایا جاتا ہے۔ سیاسی، مذہبی اور عوامی حلقے سب متفق ہیں کہ اگر یہ منصوبہ سندھ کے مفاد کے خلاف ہے تو اسے روکنا ضروری ہے۔ وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ سندھ کے عوام کے خدشات کو سنجیدگی سے لے اور اس منصوبے پر شفافیت سے کام لے، ورنہ سندھ میں بڑھتی ہوئی بے چینی ایک بڑے عوامی احتجاج کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔