پاکستان کا شمار دنیا کے ان چند ممالک میں ہوتا ہے جس نے مسلم فرقوں، ذیلی فرقوں اور مذہبی سیاسی تنظیموں کی فرقہ وارانہ وجودکو وراثت میں حاصل کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں فرقہ وارانہ رجحانات ابتدا سے ہی موجود رہے ہیں ۔اس بات کا ثبوت قائداعظم محمد علی جناح کا 1948 میں ڈھاکا میں دیاجانے والا کا خطاب ہے جس میں انھوں نے فرمایا تھا، "اگر آپ اپنے آپ کو ایک قوم بنانا چاہتے ہیں، تو خدا کے لیے اس صوبائیت کو ترک کر دیں۔ صوبائیت ایک لعنت ہے جس طرح فرقہ واریت ، سنی، شیعہ وغیرہ۔" قائداعظم کا یہ خطاب اس بات کی واضح تصدیق کرتا ہے قیام پاکستان کے وقت فرقہ وارانہ اختلافات موجود تھے اور انہیں نئے ملک کے لیے ایک اندرونی خطرہ سمجھا جاتا تھا، اس لیے قائداعظم کو عوامی طور پر اپنے تحفظات کا اظہار کرنا پڑا۔
پاکستان میں مسلم کمیونٹی دو اہم فرقوں میں تقسیم ہے: سنی اور شیعہ، جوعرصہ دراز سے ملک کے مذہبی وسیاسی منظرنامے پر حاوی ہیں۔ فرقہ وارانہ بنیادوں پر آبادی کی تقسیم کے حوالے سے، ایک محتاط انداز ے کے مطابق سنیوں کی تعداد 80 سے 85 فیصد اور شیعوں کی تعداد 15 سے 20 فیصد ہے۔ ان فرقوں کے درمیان غیر مستحکم تعلقات کی وجہ سے فرقہ واریت پاکستان کی سالمیت کے لیے ایک سیکیورٹی چیلنج بن گئی ہے۔
یہ مضمون پاکستان میں شیعہ سنی فرقہ واریت کی ارتقاء اور نوعیت کا ایک مختصر تاریخی تناظر پیش کرتا ہے۔ میرا قطعی مقصد نہیں کہ کسی فرقے کو تنقید کا نشانہ بناؤں یااس کو غلط رنگ دے کر پیش کروں بلکہ تاریخ کاادنیٰ طالب علم ہو نے کی حیثیت سے میری یہ کوشش ہے کہ پاکستان میں فرقہ واریت کے موضوع کے حوالے سے چند مروجہ غلط فہمیوں کو اجاگر کروں تاکہ اس موضوع سے متعلق تاریخ نویسی کو صحیح خطوط پر استوار کیا جاسکے۔
پاکستان میں فرقہ واریت کو عموماً سنی اکثریت اور شیعہ اقلیت کے درمیان تصادم کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ تاہم، یہ بیانیہ مبہم اور غیر واضح ہے، کیونکہ اس میں یہ واضح نہیں ہو رہا کہ کون کس کے ساتھ لڑ رہا ہے؟ در حقیقت یہ دونوں فرقے اپنی ساخت ، شناخت اور عقائد کے حساب سے غیر ہم آہنگ ہیں بلکہ ہر ایک کے اپنے ذیلی فرقے ہیں جو مختلف مکاتب فکر رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر، سنی فرقہ مختلف ذیلی فرقوں پر مشتمل ہے ، جس میں بریلوی، دیوبندی، وہابی اور اہل حدیث شامل ہیں ۔ دوسری طرف، اثنا عشری، زیدی ، اسماعیلی اور بوہری شیعہ فرقے کے ذیلی فرقے ہیں۔ اگرچہ سنی اور شیعہ دونوں فرقے سیاسی اور مذہبی طور پر ایک دوسرے کے مخالف ہیں، تاہم دلچسپ امر یہ ہے کہ سنیوں کے اندر فرقہ واریت کی تقسیم بھی اتنی ہی وسیع ہے جتنی کہ شیعہ و سنی فرقوں کے درمیان ۔ اور جو تشدد "فرقہ واریت" کے طور پر بیان کیا جاتا ہے، وہ زیادہ تر دیوبندیوں اور شیعوں کے درمیان دیکھا گیا ہے، تاہم بریلویوں اور دیوبندیوں کے درمیان تشدد کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
قیام پاکستان سے لے کرآج تک، پاکستان دو طرح کے فرقہ وارانہ اختلافات اور تشدد کا شکار رہا ہے،پہلا بریلوی۔شیعہ اور دیوبندی۔شیعہ فرقہ واریت اور دوسرابریلوی۔دیوبندی فرقہ واریت ۔ اس تاریخی حقیقت کو ،جو پاکستان میں فرقہ واریت کے حوالے سےملتی ہے، محققین اور حکام نے مناسب طور سے اجاگر نہیں کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ غلط فہمیاں وقت کے ساتھ تاریخی حقائق کو بگاڑنے کا باعث بنی ہیں۔ پاکستان میں فرقہ واریت کی تاریخ ایک پیچیدہ اور متنوع معاملہ ہے جس میں مختلف فرقوں کے درمیان تعلقات کی نوعیت وقت کے ساتھ بدلتی رہی ہے۔ابتدا میں یہ اختلافات صرف فروعی نوعیت کے تھے ، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ داخلی اور بیرونی عوامل نے ان اختلافات کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ پاکستان کے ابتدائی سالوں میں فرقہ وارنہ اختلافات اور جھگڑے عموماً بریلویوں اور شیعوں کے درمیان ہوتے تھے، لیکن بعد میں بریلویوں اور دیوبندیوں کے درمیان بھی اس مسئلے نے سر اٹھایا۔ یعنی ہر دہائی میں فرقہ واریت کی نوعیت تبدیل ہوتی رہی، جس کی شدت اور اثرات میں بھی فرق رہا۔
تاریخ کا جائزہ لینے سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ پاکستان میں فرقہ واریت اور اس کے نتیجے میں پیدا ہو نے والے تشدد کے محرکات میں سیاسی، سماجی، مذہبی اور اقتصادی عوامل بھی شامل ہیں، جس کے نتیجے میں ملک میں داخلی امن و امان کی صورت حال بھی متاثر ہوئی ہے۔لہذا، پاکستان میں فرقہ واریت کے بدلتے ہوئے رجحانات اس بات کے غمازی بھی ہیں کہ یہ مسئلہ صرف سنی اور شیعہ کے درمیان نہیں، بلکہ دونوں فرقوں کے ذیلی گروہوں کے اندر بھی رہا ہے جس نے اس معاملے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے ۔
جناح کی 1948 میں وفات کے بعد، مذہبی سیاسی جماعتیں، جو پاکستان تحریک میں مسلم لیگ کے ہاتھوں پس منظر میں چلی گئی تھیں، اپنے فرقہ وارانہ تعصبات کے ساتھ دوبارہ ابھریں اور انہوں نے سنی مکتبہ فکر کو ریاستی نظریہ کے طور پر فروغ دینے کا مطالبہ شروع کر دیا، جس سے شیعہ کمیونٹی میں اقلیتی ہونے کا خدشہ پیدا ہوا۔ یہ فرقہ وارانہ شناختوں کی دوبارہ ابھرتی ہوئی صورت حال کا آغاز تھا، جس نے دونوں فرقوں کے درمیان قدیم فرقہ وارانہ دشمنی کو دوبارہ زندہ کیا، یوں پاکستان میں فرقہ واریت کی سیاست کا آغاز ہوا۔
شیعہ سنی فرقہ وارانہ تشدد کا پہلا واقعہ 1951 میں رپورٹ ہوا۔ جسٹس منیر رپورٹ (1954) کے مطابق: "اس مرحلے پر فرقہ وارانہ تنازعات نے مزید سنگین رخ اختیار کیا۔ سنی-شیعہ اختلافات مختلف جگہوں پر ظاہر ہونا اور بڑھنا شروع ہوئے۔ کرشن نگر لاہور میں امام بارگاہ کی تعمیر پر تنازعہ تھا اور بھکر سے تعزیہ کے جلوس کے حوالے سے امن کے ٹوٹنے کا شدید خدشہ رپورٹ کیا گیا۔ شاہ پور کانجرا، جو لاہور سے سات میل کے فاصلے پر ہے، میں سنی-شیعہ فسادات ہوئے جس میں دو شیعہ افراد ہلاک ہوئے، جن میں ایک خاتون اور دوسرا تین سالہ بچہ تھا۔ [یہ] پہلا واقعہ تھا جس میں شیعہ کمیونٹی فرقہ وارانہ تشدد کا شکار ہوئی۔" جہاں تک سنی-شیعہ کشیدگی کا تعلق ہے، یہ بات نوٹ کی جانی چاہیے کہ 1947 سے 1960 کے درمیان، فرقہ وارانہ تصادم زیادہ تر بریلویوں اور شیعوں کے درمیان ہوتے تھے اورعموماً یہ مسئلہ محرم کے مہینے میں ابھرتا تھا۔جبکہ دوسری طرف ، دیوبندی-شیعہ اختلافات بھی موجود تھے، تاہم یہ کہنا مبالغہ آرائی نہ ہوگا کہ ان کے درمیان تعلقات نسبتاً زیادہ سنگین تھے اور اکثر دیوبندی علما اور رہنماؤں کی جانب سے شیعہ فرقے اور اس کی مذہبی عبادات پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا جاتا تھا۔ خاص کر دیوبندی علما نے محرم کے جلوسوں پر پابندی کا مطالبہ کیا تھا کیونکہ وہ انہیں اسلام کے خلاف سمجھتے تھے۔ مزید فرقہ وارانہ جھگڑوں سے بچنے کے لیے اس مسئلے کو دوستانہ طریقے سے حل کرنے کی کوشش کی گئی۔ تاہم، سنیوں کے اس عمل نے شیعہ کمیونٹی پر کافی منفی اثرات ڈالے۔ سنی-شیعہ اختلافات کے علاوہ، بریلوی۔وہابی تعلقات بھی اس وقت خوشگوار نہیں تھے۔ 1951میں گوجرانوالہ میں بریلویوں اور وہابیوں کے درمیان فرقہ وارانہ تناؤ کی رپورٹ ملی۔ حقیقت میں، یہ اختلاف رمضان کے مہینے میں تراویح کی تعداد کے مسئلے پر ہوا تھا۔
دوسرا اہم اور بڑا فرقہ وارانہ واقعہ جرنل ایوب خان کے دور میں ہوا۔ ایک رپورٹ کے مطابق، جون 1963 میں سندھ کے خیرپور ضلع کے قریب ٹھری کے چھوٹے شہر میں کچھ سنی انتہا پسندوں نے محرم کے ایک جلوس پر حملہ کیا، جس میں 100 سے زائد شیعہ افراد کو بہیمانہ طور پر قتل کر دیا گیا۔ عالمی بحران گروپ کی رپورٹ کے مطابق، "1963 میں ہونےوالی ہلاکتوں کو فسادات کہنا مناسب نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک بڑے پیمانے پر قتل کا واقعہ تھا۔ قتل عام کو چھپانے کے لیے مردہ جسموں کو ایک کنویں میں پھینک دیا گیا۔ اگر میڈیا کی بروقت نشاندہی اور پولیس کی مضبوط مداخلت نہ ہوتی، تو یہ واقعہ کبھی عوامی علم میں نہیں آتا۔"
جنرل ایوب خان کے دور میں بھی سنی -شیعہ تعلقات کافی کشیدہ رہے۔ اے ایس پیرزادہ کے مطابق ، " فوجی حکومت نے مولویوں کو بھی اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی۔ اگرچہ ایوب نے سیاسی آزادیوں کو مسترد کیا، لیکن انہوں نے اپنے مجوزہ آئین پر مذہبی جماعتوں کی رائے لی اور جے یو آئی نے شیعہ عزاداری کے جلوسوں اور دیگر رسومات پر پابندیاں لگانے کا مطالبہ کیا۔ دیوبندی علماء نے آئین کا استعمال کرتے ہوئے شیعہ سرگرمیوں کو امام بارگاہوں (شیعہ مساجد) کے حدود تک محدود کرنے کی کوشش کی۔" اسی طرح 1970 اور 1980 کی دہائی میں سنی-شیعہ فرقہ وارانہ اختلافات مزید گہرے ہوئے جن میں بنیادی طور پر داخلی اور خارجی دونوں عوامل کا کردار رہا ۔ داخلی سطح پر، یہ مسائل جنرل ضیا الحق کی "اسلامائزیشن کی پالیسیوں" اور فرقہ وارانہ تنظیموں اور ان کے عسکری لشکروں کے سامنے آنے کی وجہ سے پیدا ہوئے۔ جنرل ضیاء کے ‘اسلامائزیشن’ کے پالیسی کا مقصد پاکستان کو سنی اسلام کے ایک قدامت پسند ورژن کے تحت چلانا تھا، جس میں سنی بریلوی اور شیعہ فرقوں کے لئے کوئی جگہ نہیں تھی۔ ضیاء کی حکومت نے اسلامی قوانین کو نافذ کرنے پر توجہ مرکوز کی، جیسے زکوة اور عشر کے متعلقہ قوانین، جو کہ بنیادی طور پر سنی فقہ (فقہ حنفی) کے تحت تھے۔ اس پالیسی نے شیعہ کمیونٹی میں شدید مایوسی پیدا کی، اور ان کو نئی تبدیلیوں کے خلاف مزاحمت کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ اپنے تحفظات کے جواب میں، شیعہ کمیونٹی نے 1979 میں اپنی سیاسی تنظیم "تحریک نفاذ فقہ جعفریہ"قائم کی تاکہ پاکستان میں اپنی شیعہ اقلیت کا تحفظ کیا جا سکے۔ یہ تنظیم 1980 میں زکوة اور عشر کے آرڈیننس کے خلاف ایک بڑی احتجاجی تحریک کا آغاز کرنے میں کامیاب ہوئی۔
شیعہ رہنما مفتی جعفر حسین نے مطالبہ کیا کہ اگر پاکستان کو اسلامی قوانین کے تحت چلایا جا رہا ہے، تو شیعہ کمیونٹی کو اپنے فقہ جعفریہ کے مطابق آزادانہ طور پر عمل کرنے کا حق دیا جائے۔ اس تحریک کو بڑی پذیرائی ملی، اور جولائی 1980 میں تقریباً 100,000 شیعہ مظاہرین اسلام آباد کی طرف مارچ کرتے ہوئے اپنے مطالبات پیش کرنے کے لیے پہنچے۔ اس بڑی احتجاجی تحریک کے دباؤ میں آ کر ضیاء حکومت کو اپنے فیصلے کو واپس لینا پڑا اور شیعہ کمیونٹی کو سنّی فقہ کے مطابق زکوة دینے سے مستثنیٰ قرار دیا۔ تاہم، اس فیصلے کی واپسی کو سنی انتہاپسندوں نے شیعہ کمیونٹی کو ایک بڑا فائدہ قرار دیا، جس سے دونوں فرقوں کے درمیان مزید کشیدگی بڑھ گئی۔
اس تبدیلی کو دیکھ کر سنی رہنماؤں خاص طور پر دیوبندیوں نے شیعہ کمیونٹی کو کافر اور مرتد قرار دینے کا مطالبہ کیا۔ وہ سمجھتے تھے کہ شیعہ کمیونٹی کی بڑھتی ہوئی طاقت ایک خطرہ بن سکتی ہے۔ ضیاء حکومت سے ان کی مایوسی اور شیعوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے پیش نظر، انتہاپسند سنی دیوبندی گروہ سیاسی اور مذہبی طور پر خود کو منظم کرنے لگے۔
دوسری طرف ، 1985 میں سپاہ صحابہ پاکستان، دیوبندی عسکریت پسند تنظیم اور اس کے رد عمل میں پیدا ہو نے والی سپاہ محمد ، شیعہ عسکریت پسند تنظیم کے قیام نے دیو بندیوں اور شیعوں کے درمیان فرقہ وارانہ تصادم کو نہ صرف بڑھوتی بلکہ عدم اعتماد اور تعصب کو بھی مزید فروغ دیا۔ جبکہ دوسری طرف 1980 کی دہائی سےبریلویوں اور شیعوں کے درمیان فرقہ وارانہ تصادم کی مثالیں بہت کم ملیں، بلکہ دونوں نے دیوبندیوں کو اپنے مشترکہ فرقہ وارانہ حریف کے طور پر دیکھا۔اس طرح کے حقائق عموماً اسکالرز اور محققین نے یکسر نظر انداز کیے ہیں ان کے اجاگر نہ ہو نے کی وجہ سے ہمیں پاکستان میں فرقہ وارانہ تصادم اور تشدد کی تاریخ کے حوالے سے مبہم بیانیے ملتے ہیں۔یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ مستندحوالوں کے بغیر بیان کردہ حقائق تاریخی غلط فہمیوں کو جنم دے سکتے ہیں۔
خارجی سطح پر ، پاکستان کا افغان۔سوویت جنگ میں فعال کردار، 1979 میں ایرانی انقلاب کے بعد شیعہ قوت کا ابھرنا، اور سب سے بڑھ کر سعودی-ایران پراکسی جنگ نے پاکستان میں فرقہ وارانہ منظرنامے کو شدید متاثر کیا۔ایرانی انقلاب نے پاکستان میں شیعہ کمیونٹی میں فرقہ وارانہ قوم پرستی اور شناخت کے حوالے سے اعتماد پیدا کیا۔ چونکہ شیعہ سیاسی تنظیم تحریک نفاذ فقہ جعفریہ پہلے ہی ایک پریشرگروپ کے طور پر اپنی جگہ بنا چکی تھی، اس لیے شیعہ کمیونٹی نے اپنی فرقہ وارانہ بنیادوں پر سیاست میں تبدیلی لانے کے لئے ایرانی اور عراقی مدارس سے تعلیم حاصل کرنے والے علما کے زیر سرپرستی اپنے فرقہ کو منظم کرنا شروع کیا۔ ایران کی حمایت سے، شیعہ کمیونٹی مزید منظم اور متحد ہو گئی، جو اپنے سنی حریفوں کے خلاف متحد تھی۔ اس تحریک نے پاکستان میں شیعہ کمیونٹی کے اندر ایسی تبدیلیاں کیں جو جنوب ایشیائی روایات سے متاثر تھیں، اور یہ شیعہ کمیونٹی کو ایک جدید اور سنی مخالف شناخت کے طور پر سامنے لایا۔دوسری طرف، سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے پریشان ہو گئے اور انہوں نے سنی۔وہابی اسلام کو دنیا بھر میں پھیلانے کے لیے بڑی کوششیں کیں تاکہ ایرانی خطرے کا مقابلہ کیا جا سکے۔ اس کے نتیجے میں، شیعہ اور سنی کے درمیان فرقہ وارانہ تناؤ میں مزید اضافہ ہوا۔ اس نئی تبدیلی کے عمل نے اولیور رائے کے مطابق ، "ایک قدامت پسند نیو-فنڈامینٹلسٹ سنی اسلام" کو دوبارہ زندہ کیا۔ پاکستان میں شیعوں کے لیے حالات مزید تباہ کن ثابت ہوئے۔ مثال کے طور پر، ان کی مذہبی آزادی خطرے میں پڑ گئی، پاکستان کے ساتھ ان کی وفاداری مشکوک بن گئی، اور وقت کے ساتھ ساتھ متعدد شیعہ مخالف انتہاپسند تنظیموں نے ان پر ظلم و ستم ڈھایا۔ان کشیدہ تعلقات کی وجہ سے سنی ازم اور شیعہ ازم نے ایک نیا روپ اختیار کیا۔ اس ضمن میں ممتاز احمد کا کہنا ہے، "پاکستان میں شیعہ ازم زیادہ مرکوز، زیادہ علما پر مبنی، زیادہ ایرانی اثرات سے متاثر، اور بین الاقوامی شیعہ کمیونٹی سے زیادہ مربوط ہو گیا۔ اسی دوران سنی زیادہ ترعرب اثرات سے متاثر ہوئے کیونکہ پاکستانی محنت کشوں کی بڑی تعداد خلیجی ریاستوں میں گئی اور سعودی عرب نے پاکستانی سنی(دیوبندی) مدارس اور جہادی تنظیموں کو بڑی مالی امداد فراہم کی۔"
نتیجتاً دونوں فرقوں کے درمیان اختلافات مزید بڑھے اور فرقہ وارانہ تشدد پاکستان کی شناخت بن گیا۔ مزید برآں، پاکستان کی تاریخ کے بعد کی دہائیوں میں، جیسے 1990 کی دہائی، 2000 کی دہائی اورستمبر 11کے بعد کے حالات، فرقہ وارانہ تنظیموں اور مرکزی مذہبی و سیاسی جماعتوں کے درمیان تعلقات نے سنی -شیعہ فرقہ وارانہ دہشت گردی کو مزید تیز کیا۔ ان ادوار کے زیادہ تر عوامل 70 اور 80 کی دہائیوں کی باقیات پر مبنی تھے ۔ اس دوران پاکستان ایک مسلسل فرقہ وارانہ تشدد کے دائرے میں گھرا رہا ، جس میں ہزاروں لوگوں کی ہلاکتیں ہوئیں اور دونوں فرقوں کے رہنماؤں کا قتل ہوا۔ یہ دور پاکستان میں فرقہ وارانہ تشدد کے ایک نئے دور کی بنیاد بن گیا، جس کے اثرات آج تک محسوس کیےجاتے ہیں ۔
شواہد یہ ظاہر کرتے ہیں کہ دونوں فرقوں کے درمیان فرقہ وارانہ اختلافات نے پاکستان کی تاریخ کے ہر دہائی میں تشدد کی صورت میں اثرات مرتب کیےلیکن اس کا درجہ اور شدت مختلف دہائیوں میں مختلف رہی، کبھی کم تو کبھی زیادہ۔ تاریخی ذرائع اس بات کی تصدیق بھی کرتے ہیں کہ پاکستان ابتدا سے ہی مختلف طرح کے فرقہ وارانہ تصادم کا شکار رہا ہے ، مثلاً فرقوں کے مرکزی سطح پر بریلوی ۔شیعہ اور دیوبندی۔شیعہ تصادم اور ذیلی سطح پر بریلوی۔وہابی اوربریلوی ۔دیوبندی تصادم نظر آیا ۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جسے پاکستان میں فرقہ واریت پر تحقیق کرنے والے اسکالرز اور حکام نے مناسب طور پر اجاگر نہیں کیا۔
(مصنف وفاقی جامعہ اردو میں تاریخ کے استاد ہیں۔)
تبصرہ لکھیے