آج کے ڈیجیٹل دور میں، معلومات کا ایک طوفان ہر طرف بہہ رہا ہے۔ مذہبی بیانات، دینی رہنمائی، اور نصیحتوں کے نام پر انٹرنیٹ پر بے شمار مواد موجود ہے، لیکن افسوس کہ اس میں سے بہت کچھ غیر مصدقہ، مبالغہ آمیز، یا پھر محض پروپیگنڈا ہوتا ہے۔ ایسے میں ’’کلک بیٹ ملاؤ ں‘‘ کی صورت میں ایک نیا فتنہ سامنے آیا ہے۔ یہ وہ افراد ہیں جو دینی مسائل کو ایک سنسنی خیز، متنازعہ، اور جذباتی رنگ دے کر خاص طور پر سوشل میڈیا اور ویڈیو پلیٹ فارمز پر پیش کرتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ ناظرین حاصل کیے جا سکیں۔
کلک بیٹ ملا کیا ہیں اور ان کلک بیٹ ملاؤں سے کیسے بچا جائے؟ دین سیکھنے کے لیے کون سے ذرائع اختیار کیے جائیں؟ اور حقیقی علم کے لیے کیا طریقہ اپنانا ضروری ہے؟ کوشش کروں گا کہ ان تمام سوالات کا جواب دے سکوں۔
کلک بیٹ ملا ایک منفرد اصطلاح ہے، اور میری ذاتی ایجاد ہے اس لیے اس کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں۔
اس اصطلاح کا مقصدہے کہ فقط ایک لفظ میں اس جدید مسئلے کی صحیح نشاندہی کی جا سکے۔ ’’کلک بیٹ" کا مطلب ایسی چیز ہوتی ہے جو لوگوں کی توجہ کھینچنے اور انہیں کسی خاص مواد کو دیکھنے یا پڑھنے پر مجبور کرے، چاہے وہ مواد درست ہو یا نہ ہو ،جیسا کہ اکثر یوٹیوب ویڈیوز کے تھمب نیل آپ نے دیکھے ہوں گے، جن میں ایک بہت پرمزاح تھا ، سرخی پیش خدمت ہے ’’ارجنٹینا کی فتح، تمام کھلاڑی سجدے میں گر گئے۔ لیونل میسی نے گراونڈ میں اذان دے کر سب کو حیران کر دیا‘‘ وغیرہ جبکہ حقیقت اس سے بہت دور ہوتی ہے۔ اصل تصویر کو ایک غیر حقیقی رنگ و شکل دے کر ناظرین کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ اس ویڈیو یا مضمون پر کلک کریں۔ کلک بیٹ ملا وہ افراد ہوتے ہیں جو دین کے مسائل کو ایسا بنا کر پیش کرتے ہیں کہ لوگ غصے یا جذبات کی رو میں بہہ جائیں اور بغیر تحقیق کے ان کی بات مان لیں، یاکم از کم ان کی ویڈیو پر لازمی کلک ہو۔ ایسے افراد مذہبی، فقہی، یا سیاسی معاملات میں الجھا کر ایک دوسرے کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کرتے ہیں، خصوصی طور پر یہ بظاہر "لاجیکل" یا "سائنسی" گفتگو کرتے ہوئے، دین کی اصل تعلیمات میں رد و بدل کر دیتے ہیں تاکہ ان کے ذاتی بیانیے کو تقویت ملے اور ایسے موضوعات چھیڑتے ہیں جن پر اختلاف ہو، ایسی رائے دیتے ہیں جو نرالی اور چونکا دینے والی ہو، تاکہ ان کی ویڈیوز یا تحریریں زیادہ دیکھی جائیں۔
یہ تو ہوئی کلک بیٹ اور کلک بیٹ ملاؤں کی ’’تعریف‘‘، اب ذرا ان محترمین کا ’’طریقہِ واردات‘‘ دیکھتے ہیں. ان کے بیانات اکثر جذبات سے بھرپور اور رونگٹے کھڑے کر دینے والے ہوں گے، اور سرخیوں پر زور کچھ یوں ہوگا
’’ فلاں چیز حرام ہے، جو کرے گا جہنم میں جلے گا‘‘،
’’ دین پر حملہ ہو رہا ہے، ہمیں جاگنے کی ضرورت ہے اور اس کا حل صرف یہ ہے‘‘،
’’ یہ سازش ہے، اس کے پیچھے فلاں ملک، فلاں گروہ یا فلاں فرقہ ہے‘‘ وغیرہ۔
اس کے علاوہ کلک بیٹ ملا اکثر کسی ایک فرقے، عالم، یا مخصوص طبقے کو نشانہ بناتے ہیں تاکہ تنازعہ پیدا ہو اور یہ توجہ حاصل کر سکیں۔ اس طرح، لوگ ان کے مواد پر زیادہ ردعمل دیتے ہیں، اور ان کی شہرت بڑھتی ہے مگر زیادہ نے نشانہ نوجوان نسل کے پسندیدہ موضوعات کو بنا لیا ہے، جس بھی موضوع سے نوجوان بہت مرغوب ہوتے نظر آئیں وہی ان کا موضوعِ خطابت ہوگا بعض اوقات وہ موضوع اخلاقی طور پر منبرِ رسول ﷺ زیرِ بحث لانا بھی جائز نہیں ہوتا مگر ان حضرات کے لئے یہ کوئی بڑی بات نہیں۔ پھر یہ لوگ مستند حوالہ جات دینے کے بجائے، غیر مصدقہ روایات، سنی سنائی باتیں، یا غلط تشریحات پیش کرتے ہیں۔ بعض اوقات قرآن و حدیث کی آیات کو سیاق و سباق سے ہٹا کر بیان کیا جاتا ہے تاکہ ان کے ذاتی موقف کو تقویت ملے۔ اسلام ایک آسان اور فطری دین ہے، لیکن یہ افراد اسے غیر ضروری طور پر پیچیدہ بنا کر عوام کو الجھا دیتے ہیں۔ خصوصاً ایسے مسائل اٹھاتے ہیں جن کا عام زندگی میں کوئی خاص تعلق نہیں، مگر اس طرح بیان کرتے ہیں کہ جیسے یہی سب سے بڑا مسئلہ ہو۔ انٹرنیٹ پر زیادہ ویوز اور فالوورز حاصل کرنے کے لیے، یہ افراد اپنی ویڈیوز کے تھمنیلز اور عنوانات کو حد سے زیادہ جذباتی اور سنسنی خیز بناتے ہیں، جیسے کہ ’’دین خطرے میں ہے! سب جاگ جائیں‘‘ ، ’’ فلاں عالم نے ایسا کیوں کہا؟ سچ جان کر حیران رہ جائیں گے‘‘۔ ’’ایک ایسی بات جو کوئی نہیں بتاتا مگراس کے بنا ایمان نامکمل ہے۔‘‘ وغیرہ وغیرہ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک عام مسلمان ان کلک بیٹ ملاؤں کے اثر سے کیسے بچیں اور صحیح دینی علم کہاں سے حاصل کریں؟ اس معاملے میں میری ناقص رائے حاضرِ خدمت ہے۔
پہلے تو یہ کہ ہمیشہ ایسے علما سے دین سیکھیں جو علمی طور پر مضبوط ہوں، جن کا سلسلہ تعلیم معتبر ہو، اور جن کا دینی کردار معروف ہو۔ اپنے امام، خطیب، یا کسی مستند عالم سے مشورہ کریں اور خود بھی تحقیق کریں۔ جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں کہ اسلام ایک آسان اور فطری دین ہے۔ اللہ رب العزت نے قرآن میں واضح لکھا ہے ’’ اور ہم نے تو اس قرآن کو آسان کردیا ہے سمجھنے کے لیے تو ہے کوئی سوچنے سمجھنے والا ؟‘‘۔ (سورۃ القمر۔ ۳۲) تو اس میں اتنی مشکلات و تنگیاں ہیں نہیں کہ جتنی بیان کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ ہمیشہ مستند اسلامی کتب کا مطالعہ کریں، قرآن و حدیث کے ترجمے اور تشریحات معتبر علما کی لکھی ہوئی دیکھیں۔ فقہ، عقیدہ، اور اسلامی تاریخ کے لیے ایسی کتابیں پڑھیں جو مستند ذرائع سے لی گئی ہوں۔ ایسے مسائل جن پر اہل علم کے درمیان رائے کا اختلاف ہو، ان میں پڑنے کے بجائے بنیادی دینی تعلیمات، کردار سازی اور اخلاقیات پر توجہ دیں۔
میں کمپیوٹر کے شعبے سے منسلک ہوں، انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجی کا مجھ سے بڑا حامی شاید ہی ہو مگر اس معاملے میں، میں یہ عرض کروں گا کہ اگر کسی مسئلے پر شک ہو تو کسی معتبر عالم سے رجوع کریں، نہ کہ انٹرنیٹ پر نامعلوم ذرائع پر بھروسہ کریں۔ انٹرنیٹ کی زیادہ تر، بلکہ تمام ہی معلومات پر مکمل اختیار ان کو ہے جو کہ بہرحال اسلام کے دوست کبھی نہیں رہے۔ خیر، مزید احتیاط میں یہ کہ اگر کوئی ویڈیو یا بیان بہت زیادہ اشتعال انگیز یا سنسنی خیز ہو تو اس پر اندھا اعتماد نہ کریں۔ کسی بھی دینی دعوے کی تصدیق کرنے کی کوشش کریں، خاص طور پر اگر وہ بہت زیادہ حیران کن یا نیا لگے۔ کسی بھی عالم یا مقرر کی ہر بات کو آخری اور حتمی نہ سمجھیں، بلکہ تحقیق اور تدبر کریں۔
اب اس سب کے پیچھے ایسے حضرات کا مقصد کیا ہے؟
لازمی نہیں کہ سبھی براہ راست ہمارا دین اور تعلیمات خراب کرنے پر ڈٹے ہیں، خصوصاً وہ افراد جو ہمارے درمیان ہی موجود ہیں، مگر وہ نادانستہ طور پر اس غلطی کا ارتکاب اپنے ایسے مقاصد کے لیے کر رہے ہیں جو کہ سراسر ذاتی ہیں، جیسا کہ اکثر یہ افراد دین کو ایک "پروڈکٹ" کے طور پر بیچتے ہیں، جہاں ان کا اصل مقصد زیادہ سے زیادہ ویوز، لائکس، اور مونیٹائزیشن ہوتا ہے۔ اور یہاں ایک موضوع سے ذرا ہٹ کر مگر ملتی جلتی ایک اور مثال دیتا چلوں. آپ نے اکثر فیس بک اور ایسے سوشل میڈیا پر دیکھا ہوگا کہ بچوں کی تصاویر لگا کر لکھا ہوتا ہے ’’چاچو! مجھے کوئی لائک نہیں کرتا، ایک لائک کر دیں‘‘، یا ’’ایک غریب کو کوئی لائک نہیں دے گا، کوئی ایکٹر ہوتا تو بہت لائک شیئر ملتے‘‘۔ یہ حضرات بھی بالکل اسی درجے میں شامل کیے جا سکتے ہیں جن کا مقصد صرف اور صرف اپنے لیے لائک، شئیرز اور کمائی بڑھانا ہوتا ہے۔ بظاہر یہ جملے شاید مذاق لگیں مگر ایسی ہزاروں پوسٹس انٹرنیٹ پر گردش کرتی ہیں، جو ہمارے جذبات کا خوب فائدہ لیتی نظر آتی ہیں۔ واپس موضوع کی طرف جائیں تو ان کے مقاصد میں متنازعہ یا سنسنی خیز بیانات دینے کا ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ لوگ زیادہ بحث کریں، جس سے ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی ریچ بڑھتی ہے، جو بالآخر ان کے لیے زیادہ رقم کمانے کی وجہ بنتی ہے۔ انٹرنیٹ کے اس دور میں ہر انسان کے پاس موبائل ہے، اور لوگ اکثر تحقیق کے بغیر جذباتی بیانات پر یقین کر لیتے ہیں اسی لیے یہ افراد الگورتھم کو سمجھ کر اپنی ویڈیوز کو اس انداز میں ڈیزائن کرتے ہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچیں، چاہے مواد غیر مستند ہو۔ فیک نیوز، ایڈیٹ شدہ ویڈیوز، اور سیاق و سباق سے ہٹے ہوئے کلپس کو دین کے نام پر پھیلایا جاتا ہے، جو عام مسلمان کو گمراہ کر سکتا ہے۔ یہ سب چیزیں ان افراد کو براہ راست مالی فائدہ ضرور دے رہی ہوتی ہیں جس کی وجہ سے ہمارے اردگرد رہنے والے لوگ بھی نادانستگی میں اس میں شامل ہو چکے ہیں اس لئے سبھی کو ’’سازشی‘‘ نہ سمجھا جائے۔
اب ایسا بھی نہیں کہ انٹرنیٹ پر بالکل ہی دین کی کوئی بات نہیں سیکھ سکتے، اس کے لیے کچھ احتیاطی تدابیر کے بعد آپ انٹرنیٹ کی مدد سے بھی دین کے متعلق بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ اگر کوئی شخص انٹرنیٹ سے دینی علم لینا چاہے تو اسے چند اصولوں پر عمل کرنا چاہیے۔ معتبر علمائے کرام کے لیکچرز سننا، جو علمی پس منظر رکھتے ہوں اور ان کے فتوے اسلامی اصولوں پر مبنی ہوں(اس کے بعد بھی کتابوں سے تصدیق ضروری ہے، کیوں؟ اس کی وضاحت آخر میں پیش کرتا ہوں)۔ متعدد ذرائع سے تصدیق کرنا، یعنی ایک ہی مسئلے پر مختلف مستند علما کی رائے لینا تاکہ متوازن نقطہ نظر حاصل ہو۔ نامعلوم یا غیر معروف افراد کے بیانات پر فوراً یقین نہ کرنا، بلکہ ہمیشہ تحقیق کرنا۔ یوٹیوب یا سوشل میڈیا کے متنازعہ بیانات سے متاثر نہ ہونا، خاص طور پر اگر وہ جذباتی یا شدت پسندانہ ہوں۔ اب اس سب کے بعد بھی کتابوں سے تحقیق کیوں ضروری ہے تو محترم قارئین اگر چھ یا سات سال پہلے کی بات ہوتی تو شائد ان تدابیر کے بعد کتب سے تحقیق کی ضرورت نا پڑتی مگر اب ٹیکنالوجی کی مہربانی سے اور مصنوعی ذہانت کی شاہکاریوں کے ذریعے کسی بھی عالم دین کی آواز اور نقلی ویڈیو بنانا اتنا آسان ہے اور اتنی درست تشبیہ بنتی ہے کہ خود وہ شخص بھی یقین نہ کر پائے تو اسی لئے اب اس نقطہ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
محترم قارئین! دین اسلام علم، تحقیق، اور استدلال کا نام ہے، نہ کہ صرف جذباتی نعروں کا۔ بدقسمتی سے، کلک بیٹ ملاؤں نے دین کے نام پر ایک کاروبار بنا لیا ہے، جہاں سنسنی خیز بیانات، جھوٹے پروپیگنڈے، اور غیر ضروری تنازعات سے لوگوں کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔ ہم سب پر لازم ہے کہ ہم دین کو صحیح ذرائع سے سیکھیں، تحقیق اور تدبر کی عادت ڈالیں، اور کسی بھی جذباتی یا سنسنی خیز مواد کو بغیر تصدیق کے قبول نہ کریں۔ صرف اسی طریقے سے ہم اپنی دینی زندگی کو سنوار سکتے ہیں اور ایک متوازن اور حقیقی اسلامی طرزِ حیات اپنا سکتے ہیں۔ اللہ رب العزت ہمیں دین کو درست طریقے سے سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
تبصرہ لکھیے