رمضان شروع ہوچکا ہے، میرے اندر کا شیطان بھی عموماً قید ہی ہوجاتا ہے، اِدھر اُدھر کی ریلس دیکھنے کے بجائے رات خیال آیا کہ کچھ پڑھوں، ڈھونڈنے پر شمس بھائی کی کتاب ہاتھ لگ گئی۔ ایک دو ہی افسانے پڑھ سکا تھا کہ خیال آیا کہ کم وبیش دہائی قبل ایک مشہور شخصیت کے قبول اسلام کا چرچا یورپ اور باقی دنیا میں بھی بہت زیادہ ہوا تھا، اور اس کی دو اہم وجوہات تھیں۔۔۔ ایک سابق برطانوی وزیراعظم سے ان کا رشتہ اور دوسرے فلسطینیوں کا ان پر گہرا اثر۔ ۔۔۔۔۔۔۔ یوں تو ان کے قبول اسلام اور اس کے بعد ان کی خدمات کی کہانی طویل ہے، ان سب کا احاطہ یہاں مقصود بھی نہیں، بس آپ ان کے قبول اسلام میں فلسطینیوں کا ایک معمولی سا حصہ پڑھیں، اور دیکھیں کہ آخر وہ قوم اتنے سالوں سے کسی کے ہاتھوں نِگوں کیوں نہ ہوپائی ہے۔
یہ ہیں سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر Tony Blair[/english کی سالی یعنی ان کی اہلیہCherie Blair[/english کی بہن اور مشہور برٹش ایکٹر ٹونی بوتھ کی بیٹی Lauren Booth[/english جو اب Sarah Jane Booth[/english بن چکی ہیں۔ آپ ۱۹۶۷ میں شمالی لندن میں پیدا ہوئیں، باپ عیسائی اور ماں ایک یہودی پھر عیسائی ماڈل تھیں۔ آپ نے LAPA[/english یعنی لندن اکیڈمی فار پرفارمنگ آرٹس سے فلم کی ٹریننگ لی اور کئی سالوں تک تھیئٹر سے بھی منسلک رہیں، خواب تھا ہالی ووڈ جاکر فلموں میں کام کرنا۔ فلمی کیرئیر چھوڑ کر ۱۹۹۷ میں صحافت سے جڑیں، اور London Evening Standard[/english اخبار میں About Town[/english کے نام سے اپنا کالم لکھا کرتی تھیں۔ دو سال بعد ۱۹۹۹ میں New Statesman[/english کے لیے سیاسی تجزیے لکھنے لگیں۔ 2006 سے بُوتھ اب پرنٹ جرنلزم کے علاوہ ٹی وی چینلوں پر آنے لگیں۔ اسکائی نیوز، دی ڈیلی میل، بی بی سی جیسے کئی مشہور پلیٹ فارمز کے ساتھ کام کیا۔ اپنے جرنلزم کے دوران بوتھ ہمیشہ جنگ کے خلاف رہیں خواہ وہ عراق کی رہی ہو یا فلسطین کی۔ ۲۰۰۵ سے ۲۰۰۸ کے دوران انہوں نے کئی بار فلسطین کا سفر کیا، شروعات میں صحافی کی حیثیت سے اور بعد میں ہیومن رائٹس کے رضاکار کے طور پر بھی۔
۲۰۰۵ میں جب یہ پہلی بار صحافت کے حوالے سے فلسطین گئیں تو بے حد خوش تھیں کہ وہ عیسی مسیح علیہ السلام کی سرزمین پر آگئی ہیں، انہیں ایسا لگا کہ مانو کوئی عیسائی اپنے حج پر آیا ہو۔ لوٹنے کے بعد انہوں نے وہاں سے جڑے ایک نوجوان دوست کی خواہش کے بموجب ٹی وی پر Remember Palestine[/english کے نام سے باقاعدہ ایک سیریز بھی شروع کیا۔ اتنا ہی نہیں انہوں نے لوٹنے کے بعد برطانیہ میں کئی چینلوں پر فلسطینیوں کے حقوق کے حوالے سے پروگرامز کیے، سڑکوں پر احتجاجات کیے، کئی رفاہی تنظیموں میں رضاکارانہ خدمات بھی انجام دیں۔ لارین بوتھ لمبے عرصے تک ایران PressTV [/englishسے بھی جڑی رہیں اور ایران میں مذیبی مقامات سے بھی کافی متاثر رہیں۔ الجزیرہ کے پروڈکشن بھی کچھ وقت تک حصہ رہیں۔
فلسطینیوں کے حسن اخلاق، ایثار، شکر و صبر اور حوصلے سے متعلق ان کی کہانی میں بے شمار اوراق ہیں۔ چند ایک آپ بھی ملاحظہ فرمائیں۔
میں صحافت کی غرض سے فلسطینی صدر محمود عباس سے ملنے جارہی تھی۔ ایک لفٹ میں کچھ مسلح عرب گارڈ تھے جو عربی میں کچھ بات کررہے تھے اور مجھے لگا کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم اس گوری عورت کو بعد میں مار دیں گے۔ وہ کچھ اور ہی بات کر رہے تھے پر اسلام کے تئیں میرے تعصب کے چلتے میرے ذہن میں انکی باتوں کا یہ منفی مطلب سمجھ آیا تھا۔ میں خود سے سوال کرنے لگی کہ میں یہاں اسرائیلیوں کو بھی نہیں جانتی، انکے تئیں میرے دماغ میں ایسا خیال تو نہیں آتا، میں خواہ مخواہ تعصب میں کیوں پڑ رہی ہوں، مجھے اپنے صحافت کے کام پر دھیان دینا چاہئے۔ مجھے فلسطینیوں کے جن معاملات نے متاثر کیا وہ کچھ یوں ہیں۔
۲۰۰۵ کے سفر کے اواخر میں میں ایک فلسطینی نوجوان کے ساتھ کچھ شاپنگ کر رہی تھی۔ میں نے اس سے ایک انگریزی قرآن چاہئے، مجھے لگا کہ بھلا ان کے پاس انگریزی میں کہاں ہوگا، وہ فوراً تقریباً چھ سو صفحات پر مشتمل ایک نسخہ لے آیا۔ میں نے قیمت پوچھی تو وہ یونہی قرآن اور دیگر چیزوں کی قیمتیں جوڑنے لگا پھر بولا کہ ان کے لئے آپ کو کچھ ادا کرنے کی ضرورت نہیں، بس واپس جانے کے بعد ہمیں اور ہمارے ملک کو یاد ضرور رکھئے گا۔ ۔۔۔ اور جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ بعد میں لارین نے لندن میں باقاعدہ ریمیمبر پالیستین کے نام سے ایک ٹی وی پروگرام بھی شروع کیا۔
مجھے شرق اوسط کی سردیوں کا اندازہ نہ تھا اسلئے میں نے گرم کپڑے بھی ساتھ نہ لے رکھے تھے۔ ایک دن میں جنوری کی سردی میں یونہی رمالہ کی ایک گلی سے گزر رہی تھی۔ ایک بوڑھی عورت نے مجھے بازو سے پکڑ کر عربی میں کچھ کہا، میں سمجھ نہ سکی۔ وہ مجھے پکڑ کر اپنے گھر میں لے گئی، مجھے ایک لمحے کو لگا کہ اس نے مجھے اغوا کرلیا ہے۔ پھر اس نے اپنی الماری سے ایک بڑا گرم کوٹ نکال کر مجھے پہنا دیا اور پھر کہا کہ اب تم جاؤ۔
لندن میں میرے پاس سب کچھ تھا، شاندار بنگلو، سوئمنگ پول، ایک ایکڑ پر پھیلا باغ، پیارے پیارے بچے، اچھا شوہر۔۔۔۔ پھر بھی ذرا بھی تکلیف ہو تو میں آپ سے باہر ہوجاتی تھی، آفس میں ذرا بھی تکلیف ہوجائے، کوئی کام اوپر نیچے ہوجائے تو مجھے ٹینشن ہوجاتا تھا۔ وہیں فلسطین کی گلیوں سڑکوں سے گزرتی تو وہ لوگ بھی جنکے پاس کھانے کو کچھ بھی نہیں، رہنے کو چھت تک نہیں، جنکی گھروں کے کئی کئی افراد فوج کے ہاتھوں مارے جاچکے تھے مجھے سلام کرتے، اپنے گھروں میں کھانے کی دعوت دیتے، میرا حال پوچھتے۔۔۔۔ اور جب میں ان سے پوچھتی کہ اس کسمپرسی میں بھی اتنا حوصلہ اور اتنی سخاوت انہیں کہاں سے ملتی ہے تو قرآن کی طرف اشارہ کرکے کہتے کہ یہ سب اس کتاب کی وجہ سے ہے، ہمیں اپنے رب پر یقین ہے، ان شاء اللہ ہمارے ساتھ بھی سب ٹھیک ہوجائے گا۔
۲۰۰۸ میں رفحاء کے ایک کیمپ میں میں گئی۔ رمضان کا مہینہ تھا، میں نے دیکھا کہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کا بہت خیال رکھ رہے ہیں حالانکہ انکے اپنے پاس خود کچھ نہ ہوتا تھا۔ میں نے بھی سوچا کیوں نا کچھ لیکر جاؤں اور پھر دنبے کا گوشت ساتھ لے گئ۔ ایک خیمے میں گئی تو اندر سے ایک ماں نکلی، سلام کیا۔ انکے پاس کھانے پینے کو کچھ نہ تھا، پھر بھی سب روزہ تھے۔ میں نے کہا کہ معاف کریں پر آپ لوگوں کا خدا آپ سے محبت نہیں کرتا، کیا ایسے ہی تیس دن بھوکا پیاسا رہنے سے اکتیسویں دن وہ آپ کو پانی دے دے گا، کیا رمضان بعد آپ کا فریج بھر جائے گا، اس بدحالی میں بھی بھوکا پیاسا رہنے کا مجھے کوئی ایک فائدہ بتا دو تو مجھے لگے کہ تمہارے رب کو تم سے محبت ہے۔ ۔۔۔۔ وہ بولی نہیں، ہمیں معلوم ہے کہ اکتیسویں دن نہ ہمیں پانی ملے گا اور نہ ہمارا فریج بھرے گا، ہم تو روزہ رکھتے ہیں ان غریبوں کو یاد رکھنے کے لئے جو بھوک و پیاس میں ہم سے بھی بدتر حالات میں ہیں، ہمیں یقین ہے کہ ایک دن اللہ سب کچھ درست کردے گا۔ ۔۔۔۔۔۔ گھر میں ایک ہی پلیٹ ہو اور اسے دوسروں کو دیتا دیکھ کر، پاس کچھ نہ ہوکر بھی غریبوں کے لئے انکا یہ جذبہ دیکھ کر اور اپنے خدا پر اس مفلسی و بے بسی کے عالم میں بھی ایسا پختہ یقین دیکھ کر میں سکتے میں آگئ اور اسی لمحے خیال آیا کہ اگر یہی اسلام ہے تو مجھے بھی مسلمان ہوجانا چاہیے۔
اکتوبر دو ہزار دس میں اپنے عملے کے ہمراہ ایران میں کسی کوریج کے لئے گئیں، وہاں کسی مزار / مسجد میں بیٹھی تھیں کہ انہیں اندر سے احساس ہوا کہ اب انہیں شہادہ پڑھ ہی لینی چاہیے۔ صبح کی فلائٹ تھی، لندن گئیں اور اسلام قبول کرلیا۔ پھر کچھ ہی بعد ایک دن وہ ”اسلام چینل“ کے ایک پروگرام جس میں کہ کم و بیش پچیس ہزار افراد کا مجمع تھا، حجاب پہن کر حاضر ہوئیں اور اپنی تقریر شروع کرتے ہی کہا ۔۔۔۔ ”میرا نام لارین بوتھ ہے، اور میں مسلم ہوں“۔
قرون اولیٰ سے کم سہی پر قبول اسلام کے بعد نومسلمین کے لیے مسائل و دشواریاں آج بھی ہیں۔ ان کے ساتھ بھی کافی مزاحمتیں ہوئیں، شوہر سے علیحدگی، اور پھر سہیل احمد نامی دوسرے شخص سے ان کا نکاح ہوا، والدین اور بچوں کی طرف سے مسائل پیش آئے۔۔۔ وغیرہ وغیرہ!۔
نوٹ: ان کی آٹوبائیوگرافی Finding Peace in Holy Land / In Search of Holy Land[/english امیزون پر موجود ہے۔ اس کے علاوہ انکی اپنی ڈاکیومنٹری فلم بھی ہے۔ ساتھ ہی ان کے انگریزی، عربی اور اردو میں تفصیلی انٹرویوز بھی یوٹیوب پر موجود ہیں جسے آپ دیکھ سکتے ہیں۔
تبصرہ لکھیے