ہوم << فرقہ وارانہ مکالمہ: مفہوم، نوعیت اور اہمیت - ڈاکٹر محمد عظیم

فرقہ وارانہ مکالمہ: مفہوم، نوعیت اور اہمیت - ڈاکٹر محمد عظیم

تنوع کو عموماً کسی ملک کی طاقت سمجھا جاتا ہے، تاہم پاکستان کے معاملے میں مذہبی اورفرقہ وارانہ تنوع ایک بوجھ بن چکا ہے اوروقت کے ساتھ اس نے فرقہ واریت کی صورت میں ایک بڑے سکیورٹی خطرے کی صورت اختیار کر لی ہے۔ فرقہ واریت کی سیاست کی وجہ سے ملک معتدل رویہ سے انتہا پسندانہ پوزیشن کی طرف بڑھ چکا ہےجس کے نتیجے میں فرقہ وارانہ تشدد پاکستان میں ایک تلخ حقیقت بن چکا ہے۔خاص کر سنی اور شیعہ فرقوں کے درمیان کشیدہ تعلقات نے تشدد کو جنم دیا ہے۔حالانکہ ماضی میں پاکستان کی مختلف حکومتوں نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کئی اقدامات کیے، جیسے کہ طاقت کا استعمال، مباحثے منعقد کرنا، مشترکہ تبادلہ خیال، ملاقاتیں، سیمینارز، کانفرنسز وغیرہ، تاکہ اس خطرےکو ختم کیا جا سکے اور شیعہ سنی بقائے باہمی کو فروغ دیا جا سکے تاہم اب تک مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکےہیں ۔

پاکستان میں سنی ۔شیعہ فرقہ واریت اتنی ہی پرانی ہے جتنا کہ اس کا اپنا وجود ۔تاہم مسئلے کی نوعیت اور شدت اتنی زیادہ نہیں تھی۔ ابتداء ہی سے پاکستان اس مسئلے سے نبرد آزما رہا ہے۔ اس کی اہم وجوہات میں مذہبی و تاریخی عوامل، فکری ، نظریاتی و فقہی اختلافات ، سیاسی و شناختی مسائل،وغیرہ شامل ہیں۔ فرقہ وارانہ مکالمے پر بحث کرنے سے پہلے میں یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں فرقہ واریت کے حوالے سے چند بنیادی مسائل کی نشاندہی کروں تاکہ اس فتنے کی اصل وجوہات کو سمجھا جا سکے ۔

پہلا، پاکستان میں ایک ایسا ذہن ہے جو تکفیر کو فروغ دیتا ہے اور دوسروں کے خلاف بے ایمان، کافر اور گستاخ ہونے کے فتوے جاری کرتا ہے۔ اس سوچ کے مطابق ، میرا مذہب اور میرا مسلک صحیح ہے باقی دوسرے غلط ہیں۔ میں حق پر ہوں اور باقی دوسرے باطل ہیں۔ دوسرا، پاکستان میں یہ بھی رجحان پایا جاتا ہے کہ مذہبی دلائل اور دینی استعاروں کا استعمال سے مخالفین کے خلاف تشدد کا جواز پیدا کیا جائے ۔ تیسرا، عقیدہ پر مبنی انتہاپسندی اور تشدد کی داخلی وجوہات بھی اس کا باعث بنتی ہیں مثلا مذہبی فرقوں کی بنیاد پر اداروں کا قیام، معاشی مفادات، ردعمل کی نفسیات، سماجی تقسیم، شناخت کے مسائل، ریاست کا مذہبی بیانیہ، عقیدہ پر مبنی تشدد کے ذرائع، وغیرہ۔ چوتھا، فرقہ وارانہ تنازعات میں عالمی اور خارجی عوامل کے کردار مثلا بین الاقوامی سازشیں، اسلامی دنیا میں فرقوں کی تقسیم، عالمی طاقتوں کے مفادات اور مقاصد، وغیرہ۔ آخری، مذہبی اداروں کے اندر سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی میں رکاوٹ کا خوف۔ایسی سوچ اور فکر نے سنی۔شیعہ تعلقات میں ایک وسیع خلا پیدا کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں یہ مسئلہ وقت کے ساتھ ملک کی سلامتی کے لیے ایک خطرہ بن چکاہے۔

مذہبی اور فرقہ وارانہ انتہاپسندی کو روکنے کے لیے "فرقہ وارانہ مکالمے" آج کے پاکستان کی اشداور فوری ضرورت ہے ، جو ایک قابلِ عمل اعتماد سازی کا قدم ہو سکتا ہے۔ یہ ریاست اور معاشرے کی سطح پر ایک اہم سیکیورٹی پالیسی ایجنڈا ہونا چاہیے۔منطقی طور پر دیکھا جائے تو اختلافات کو کلی طور پر ختم نہیں کیا جاسکتا لیکن ان کی شدت میں کمی لائی جاسکتی ہے۔ لہٰذا، مکالمہ کا ایک مسلسل عمل نہ صرف پرانی دشمنیوں، غلط فہمیوں اور اختلافات کو ختم کر سکتا ہے بلکہ مذہبی انتہاپسندی کو بھی روکنے میں مدد دے سکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ملک بھر میں پائیدار امن اور ہم آہنگی قائم رکھی جا سکتی ہے۔

عملی طور پر، پاکستان میں شیعہ اور سنی کے درمیان فرقہ وارانہ مکالمہ شروع کرنا آسان کام نہیں ہے کیونکہ دونوں فرقوں کے درمیان گہری تاریخی دشمنیاں، غلط فہمیوں اور اختلافات کی جڑیں ہیں جو تعاون کے لیے کی جانے والی کوششوں کو اکثر متاثر کرتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک ایک منصفانہ اور بامقصد مکالمہ بہترین طریقے سے نہیں کیا جاتا، دونوں متنازعہ فرقوں کے درمیان ایک پرامن ہم آہنگی تک پہنچنا اور اسے برقرار رکھنا مشکل ہے۔

فرقہ وارانہ مکالمہ کی اصطلاح کا مفہوم اور نوعیت
"فرقہ وارانہ مکالمہ" کی اصطلاح کو وسیع تر مفہوم میں استعمال کیا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس ضمن میں اسکالرز مختلف متبادل اصطلاحات استعمال کرتے ہیں جیسے "بین المذہبی مکالمہ"، "مذہبی فرقہ وارانہ مکالمہ "، "مذہبی مکالمہ" وغیرہ ۔ تاہم یہ تمام اصطلاحات بنیادی طور پر ایک ہی نوعیت اور مقاصدرکھتی ہیں۔

فرقہ وارانہ مکالمہ در اصل کسی مسئلے پر بات چیت کے ذریعے اتفاق رائے پیدا کرنا کے عمل کو کہتے ہیں۔ یہ اصطلاح مختلف مذہبی اور فرقہ وارانہ نظریات رکھنے والے افراد کے درمیان باہمی اور تعمیری تعامل کو بیان کرتی ہے، جس کا مقصد سمجھ اور اعتماد پیدا کرنا ہے تاکہ کشیدگی اور تشدد سے بچا جا سکے۔ یہ عمل رکاوٹوں اور دقیانوسی تصورات کو ختم کرنے میں مدد دیتا ہے جو بداعتمادی، شبہات اور تعصب کا باعث بنتی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں، فرقہ وارانہ مکالمہ کا مقصد مختلف نظریات یا عقائد رکھنے والے لوگوں کو باہمی افہام وتفہیم اور احترام کی طرف لانا ہے، جو انہیں اپنے اختلافات کے باوجود امن سے جینے اور آپس میں تعاون کرنے کی اجازت دیتا ہے۔

اس کے علاوہ، مکالمہ اہم فرقوں کو ایک دوسرے کے ذیلی فرقوں اور مقامی نوعیت کو تسلیم کرنے کی ترغیب بھی دیتاہےجو کہ مسئلے کی اصل جڑ ہے۔ اسلام العمد کے مظابق، " مذہبی مکاتب فکر کے درمیان مکالمے کا دائرہ جسے فروغ دینا ضروری ہے ، اس میں ایک جھگڑے سے پاک گفتگو ہی وہ واحد درست طریقہ ہے جس سے اسلامی فرقوں کے درمیان مفاہمت ہو سکتی ہے، اور یہ مکالمہ اسلامی اُمہ کی تقسیم کو روکتا ہے۔"

فرقہ وارانہ مکالمہ کی اصطلاح سے عام طور پر کچھ غلط فہمیاں بھی جڑی ہوئی ہیں، اس لیے اب تک اس اعتماد سازی کے اقدام کا صحیح طریقے سے اطلاق نہیں کیا گیا۔ یہ عمومی طور پر سمجھا جاتا ہے کہ فرقہ وارانہ مکالمہ کا مقصد ایک مشترکہ عقیدہ تک پہنچنا ہے۔ لیکن حقیقت میں یہ اختلافات کو دور کرنے کے بارے میں ہے، کسی مسئلے پر بات چیت کے ذریعے اتفاق رائے پیدا کرنا۔ یہ کسی کے عقیدہ کی تبلیغ کرنے یا دوسرے کو اس میں تبدیل کرنے کا طریقہ نہیں ہے؛ بلکہ اس مکالمہ کے عمل میں ہر فریق اپنے عقیدہ پر قائم رہتا ہے، اور دوسرے کے عقیدہ کو آزادانہ طور پر عمل کرنے کا حق تسلیم کرتا ہے اور عزت دیتا ہے۔ مزید یہ کہ یہ کسی کے عقائد پر حملہ کرنے یا انہیں غلط ثابت کرنے کی اجازت نہیں دیتا؛ بلکہ یہ باہمی سمجھ اور اعتماد کو بڑھانے کے بارے میں ہے۔

کامیاب مکالمہ کے لیے یہ ضروری ہے کہ شیعہ اور سنی فرقوں کے درمیان اختلافات اور مشترکات کو فقہی، فکری، جمہوری اور سیاسی نقطہ نظر سے سمجھا اور تجزیہ کیا جائے۔ مکالمہ کے عمل کے دوران ان مسائل پر مرکوز کرنا چاہیے جو اختلاف کے بجائے ہم آہنگی پیدا کرتے ہوں، تاکہ دشمنی سے بچا جا سکے۔ چونکہ مکالمہ کا مقصد مذہبی گروہوں کے درمیان اختلافات اور مماثلتوں کی بہتر تفہیم بڑھانا ہے، اس لیے ایک رسمی مباحثہ مکالمہ کے عمل سے باہر ہونا چاہیے تاکہ دورانِ مکالمہ اختلافات کو حل کیا جا سکے۔ مکالمہ کے دوران اختلافات کا بار بار پیش آنا لوگوں کے عقیدے کی بنیاد پر ہےاور اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا ۔ لیکن اس کا مسلسل عمل اس کی کامیابی کو بڑھا سکتا ہے۔

مزید برآں ، فرقہ وارانہ مکالمہ کسی عقیدے کو دوسرے پر فوقیت دینے کی کوشش کا ذریعہ نہیں ہےاور نہ ہی تنقید یا دشمنانہ دلائل کا فورم ہےبلکہ مکالمے کا مقصد، جیسا کہ ،اسٹیفن رابنسن کہتا ہے، "نہ حملہ کرنا ہے اور نہ دفاع کرنا ۔ اور نہ ہی اس کے آخر میں کوئی فاتح ہو گا ۔"

سوال یہ ہے کہ فرقہ وارانہ مکالمہ کس طرح ہونا چاہیے؟ اس ضمن میں اسکالرز کی رائے یہ ہے کہ مکالمہ کے عمل کے دوران متنازعہ بیانات کا استعمال کرنا بالکل غیر مناسب ہے۔ یہ سچ ہے کہ بہت سے مخالف نظریات کے منصوبوں میں استعمال ہونے والی شدت پسند اور اشتعال انگیز زبان کو فرقہ وارانہ مکالمے میں استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ مکالمہ کو فکری سطح پر ہونا چاہیے، اور ابتدا میں عوام کو اس میں شامل کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ لہٰذا، فرقہ وارانہ مکالمہ کا مقصد دونوں متنازعہ فریقوں کو ایک دوسرے کو بہتر سمجھنے کا موقع فراہم کرنا ہے، تاکہ وہ ایک دوسرے کے عقائد کے بارے میں براہ راست معلومات حاصل کر سکیں؛ نہ کہ پروپیگنڈا اور دقیانوسی تصورات پر انحصار کریں۔ مجموعی طور پر، یہ مسائل اور مسائل کی نشاندہی کرتا ہے ،جو کہ اکثر کشیدگی کا سبب بنتے ہیں ،اور پھر انہیں حل کرنے کے طریقے تلاش کرتا ہے۔

ہمیں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اتحاد کو فرقوں کے درمیان برقرار رکھنے کے لیے اختلافات کو ختم کرنے کی بجائے، اختلافات کو برداشت کریں یہی ایک بہتر ین طریقہ ہے جس سے مختلف فرقے ایک دوسرے کے قریب آ سکتےہیں ۔ اس کے لیے دونوں فرقو ں کو 'اتفاق نہ کرنے پر اتفاق کرنا' سیکھنا ہوگا تاکہ باہمی تعلقات کو خوشگوار بنایا جاسکے۔

( مصنف وفاقی جامعہ اردو میں تاریخ کے استاد ہیں)