ہوم << یروشلم کی فتح - ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ

یروشلم کی فتح - ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ

بئر سبع کے بعد اتحادیوں کا اگلا نشانہ یروشلم تھا ۔ ۱۷ نومبر کو جنرل ایلن بی کی افواج نے یروشلم کی طرف پیش قدمی کی اور ہیبرون ، بیت اللحم اور نبی سموئیل کو کھونے کے بعد ۹ دسمبر ۱۹۱۷ء کو یروشلم بھی ایک بار پھر مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل گیا تھا۔ جنرل ایلن بی کی فوجوں نے ۳۰ دسمبر ۱۹۱۷ ء تک یروشلم اور اس کے اردگرد کا سارا علاقہ فتح کر لیا ۔ اس فوج میں زیادہ تعداد آسٹریلیا نیوزی لینڈ اور برصغیر کے انڈین دستوں کی تھی جس میں بڑی تعداد میں انڈین مسلمان بھی شامل تھے۔ ترک افواج کے جنرل فواد علی پاشا اور جواد تشوبانلی نے ۳۰ دسمبر ۱۹۱۷ ء کو ہتھیار ڈال دیے۔

بیکر کرس Baker Cris نےاپنی کتاب The long , long Trail میں لکھا ہے کہ”گیارہ دسمبر ۱۹۱۷ء کو جنرل ایلن بی یروشلم میں موجود مقدس مقامات کے احترام میں فاتحانہ اندازمیں پیدل جافا گیٹ ( باب الخلیل ) کے ذریعے یروشلم میں داخل ہوا ۔ ساڑھے چھ سو سال کے بعد وہ پہلا عیسائی جنرل تھا جس نے یروشلم فتح کیا تھا ۔ نیوزی لینڈ آسٹریلیا اور برصغیر کے فوجی دستوں نے اسے فاتحانہ سلامی پیش کی ۔ جنہوں نے نو دسمبر کو یروشلم کو فتح کیاتھا۔ “

بعض برٹش اخبارات نے جنرل ایلن بی کے یروشلم میں داخلے کا جرمنی کے حکمران قیصر ولھم دوئم Wilhelm II کی آمد سے موازنہ کیا جب ۱۸۹۸ ء میں قیصر جرمنی سفید گھوڑے پر جافا گیٹ سے یروشلم شہر میں داخل ہوا تھا۔ لارڈ جنرل آرچیبالڈ پی ویول Archibald Percival Wavell جو بعد میں ۱۹۴۳ء میں انڈیا کا وائسرائے بھی رہا ۔ اس جنگ میں جنرل ایلن بی کا سٹاف آفسر اور بریکیڈئیر تھا وہ اپنی یاد داشتوں میں لکھتا ہے کہ ”برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ لائیڈڈیوڈ نے یروشلم کی فتح کو برطانیہ کی عوام کے لئے کرسمس کا تحفہ "a Christmas present for the British people" قرار دیا تھا ۔ اور ترک فوجوں کے لئے اس مقدس شہر کا کھونا ایک بہت بڑا نقصان اور صدمہ تھا جو پہلے ہی اپنے دو اہم ترین مقدس شہر مکہ اور بغداد ہار چکے تھے۔ “

گیارہ دسمبر ۱۹۱۷ء بروز منگل کو صبح دس بجے پرانے یروشلم کے جیوز کوارٹرز میں واقع ٹاور آف ڈیوڈ کے سامنے یروشلم کے عثمانی مئیر حسین سلیم الحسینی نے یروشلم کے دروازوں کی چابیاں جنرل ایلن بی کو پیش کیں۔ اس تقریب کی بڑی بڑی تصاویر آج بھی اس ٹاور کے مین گیٹ کی زینت ہیں اور سیر کے لئے آنے والوں کو اس تاریخی لمحے کی داستان سناتی نظر آتی ہیں۔ ایک دن جب ہم ٹاور آف ڈیوڈ کی سیر کے لئے گئے تو ان ذلت آمیز لمحوں کی داستان ان تصاویر کی صورت میں دیکھ کر میری آنکھوں کے سامنے ڈھاکہ کے پلٹن میدان کی وہ توہین آمیز تصویر آگئی جو میں نے کچھ عرصہ پہلے ایک اخبار میں دیکھی تھی جس میں جنرل نیازی جنرل اروڑہ کے سامنے ہتھیار ڈال رہا تھا ۔ برٹش اخبارات نے مئیر یروشلم حسینی کے جنرل ایلن بی کو یروشلم کی چابیاں پیش کرنے والے لمحات کا حضرت عمر ؓ کے اس واقعہ سے موازنہ کیا جب ٦۳۹ء میں فتح فلسطین کے بعد حضرت عمر ؓ فلسطین تشریف لائے تھے، اور حاکم یروشلم صفرونيوس نے جبل زیتون پر گولڈن گیٹ کے سامنے انہیں یروشلم کی چابیاں پیش کی تھیں۔ اور یہ سرخیاں لگائیں کہ ”آج حساب برابر ہو گیا “۔

اسی ٹاور آف ڈیوڈ کے چوک میں جنرل بی ایلن کا نصب مجسمہ بھی اس تاریخی دن کی گواہی دیتا نظر آتاہے جب ساڑھے چھ سو سال کے بعد مسلمانوں نے القدس کو ایک بار پھر کھو دیا تھا ۔اور صدیوں تک القدس کہلانے والا شہر دوبارہ یروشلم بن گیا تھا ۔ اس فتح کا جشن پورے یورپ اور امریکہ میں منایا گیا ۔ اسے ساری عیسائی دنیا کے لئے کرسمس کا تحفہ سمجھا گیا ۔اور اس فتح کو صلیبی جنگوں کا خاتمہ قرار دیا ۔ اخبارات اور پریس نے کئی دن تک شہ سرخیوں کی صورت میں یروشلم کی فتح کے ایک ایک لمحہ کو رپورٹ کیا ۔ لندن کے کئی اخبارات نے جنرل ایلن بی کو برطانوی شہنشاہ شیر دل رچرڈ کا ہم پلہ قرار دیتے ہوئے اس کی تصویر کو رچرڈ کی تصویر کے ساتھ شائع کیا اور اس کی تعریفوں کے پل باندھتے ہوئے لکھا کہ جنرل ایلن بی نے شیر دل رچرڈ کے مشن کو مکمل کیا ہے۔ ایک اخبار نے رچرڈ شیر دل اور جنرل ایلن بی کی مشترکہ تصویر فرنٹ پیج پر شائع کی، جس میں رچرڈ جبل زیتون پر کھڑا ہے اور سارا یروشلم اس کے قدموں کے تلے ہے اور وہ نیچے یروشلم کی طرف دیکھتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ ”آج میرا خواب پوراہوگیا اور صلیبی جنگوں کا اختتام ہو گیا “۔ کچھ اخبارات نے تو یہاں تک لکھا کہ جو کام رچرڈ شیر دل سے نہ ہو سکا وہ آج جنرل ایلن بی نے کر دکھایا ۔

جواہریہ واصف اپنے ایک مضمون The Storyteller of Jerusalem میں بیان کرتی ہے کہ ” ایلن بی کے ہاتھوں یروشلم کی فتح کےدن سارے یورپ اور امریکہ کے اخباروں نے ایک ہی طرح کی ملتی جلتی شہ سرخی لگائی کہ The Last Crusade آج صلیبی جنگ کاخاتمہ ہوگیا۔“ امریکن تاریخ دان اینڈریو کری Andrew Curry نے اپنی کتاب The First Holy War میں لکھا کہ The last Crusade. My dream comes true! - امریکن اخبار ”ہیرالڈ “ نے شہ سرخی لگائی: Jerusalem is rescued by British after 673 years of Moslum rule . حاتم بیزان Hatem Bazian نے الجزیرہ کی ایک رپورٹ Revisiting the British conquest of Jerusalem The day the British entered Jerusalem in 1917, Palestine’s fate was sealed میں لکھا ہے کہ On this historic occasion, Allenby reportedly declared that “the wars of the crusades are now complete”. Allenby’s statement is a powerful reminder that the British entry into Jerusalem was a continuation of and a “successful” conclusion to the Crusades. بیکر کرس نے مزید لکھا ہے کہ ” مئی ۱۹۱۸ء کو جنرل ایلن بی حائم وائزمین اور یروشلم کے چیف ربی ابراہیم آئزک کوک Abraham Isaac Kook سے ملا اور انہیں اعلان بالفور پر عمل درآمد کی پوری یقین دہانی کرائی۔“

۱۹۲۲ء میں جنرل ایلن بی کے حکم پر ٹاور آف ڈیوڈ کے سامنے جافا گیٹ پر قائم یروشلم ٹاور کو مسمار کر دیا اور اس میں نصب کلاک کو یروشلم کی فتح کی یادگار کے طور پر لندن منتقل کر دیا گیا ۔ پہلے یہ کچھ عرصہ لندن میوزیم میں زیر نمائش رہا اور پھر اس فتح کی یاد میں لندن میں پوسٹ آفس اور ٹاؤن ہال کے سامنے واقع جنرل ایلن بی اسکوائر میں ایک ٹاور بنا کر کلاک کو اس میں لگایا گیا۔ لیکن ۱۹۳۴ ء اس ٹاور کو بھی مسمار کر کے کلاک کو بگ بین ٹاور Big Ben Clock Tower میں نصب کر دیا گیا جہاں آج بھی ہر گھنٹے کے بعد اس کی گھنٹی کی آواز اہل لندن کو یروشلم کی فتح کادن یاد دلاتی ہے۔ تیرہ فٹ اونچا یہ کلاک ٹاور سلطان عبدالحمید ثانی نے اپنی حکومت کی سلور جو بلی کی یاد میں جاگا گیٹ پر بنوایا تھا اور یہ ۱۹۰۹ء میں سات سال کے عرصے میں مکمل ہوا ۔ سلطان نے ایسے سو ٹاور پوری سلطنت عثمانیہ میں بنوائے تھے ۔ جن میں سے سات فلسطین میں قائم کئے گئے۔ گو کہ یہ چیز خاصی متنازع ہے اور یورپی اور برٹش تاریخ دان اس سے سے اختلاف کرتے ہیں ۔ لیکن عرب ہمیشہ سے یہ دعویٰ کرتے آئے ہیں کہ یوروشلم ٹاور کو مسمار کر کے اس کا کلاک لندن لے جایا گیا تھا ۔

اسرائیلی گورنمنٹ نے بئر سبع اور یروشلم میں جنرل ایلن کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے یادگاریں قائم کی ہیں جہاں کئی چوکوں میں ان کے مجسمے لگائے گئے ہیں۔ یروشلم کی ایلن بی کے ہاتھوں فتح کو یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ ساتھ عرب نیشنل ازم کا شکار مقامی فلسطینیوں اور عربوں نے بھی اسے ترکوں سے نجات کے دن کے طور پر خوب منایا ۔جو ترکو ں کو غاصب اور ظالم سمجھتے تھے ۔ خاص طور پر یروشلم کی فتح میں ہندوستان کے مسلمان فوجیوں کا کردار کسی طور پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ آصف محمود نے لکھتے ہیں: ”11 دسمبر 1917 کو جب یروشلم مسلمانوں سے چھن گیا اور جنرل ایلن بی ایک فاتح کی حیثیت سے داخل ہوا تو فاتحین کے ساتھ کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو ہندوستان سے تشریف لے گئے تھے اور نعرہ تکبیر بلند فرما رہے تھے اور کچھ وہ تھے جو ہندوستان سے تشریف نہیں لے گئے تھے وہیں آس پاس کے علاقوں کے عرب تھے اور ’الثورۃ العربیہ الکبری‘ کا پرچم تھامے ہوئے تھے۔ وہی چار رنگوں والا پرچم جس کا اوپر ذکر کیا جا چکا ہے۔ جزوی تبدیلیوں کے ساتھ عرب بغاوت کا یہی پرچم آج بھی مصر، اردن، سوڈان، کویت، امارات، شام، لیبیا اور یمن کا قومی پرچم ہے۔فلسطین کا پرچم بھی اسی پرچم کی ایک شکل ہے۔ اسی پرچم تلے خود مسلمانوں نے مسلمانوں کی سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ کیا۔ اسی پرچم تلے خود مسلمانوں نے القدس مسلمانوں سے چھین کر برطانوی فوج کے حولے کیا۔ اسی پرچم تلے خود مسلمانوں نے دشمن کو یروشلم میں گھسنے کا موقع دیا اور آج اسی پرچم تلے مسلمان صہیونیوں کے مظالم کے خلاف بے بسی سے سراپا احتجاج ہیں۔“

ایلن بی کی فوج میں موجود یہودی سپاہیوں نے مقامی یہودیوں کے ساتھ ملکر اپنی فتح کا جشن پرانے یروشلم کے محلے مراکو کواٹرز میں موجود دیوار گریہ کے سامنے جا کر منایا ۔ یروشلم اور جیریکو کی فتح کے ساتھ ہی اب سارا فلسطین انگریزوں کے قبضے میں آ چکا تھا ۔ پہلی جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد ۱۹۲۲ء میں لیگ آف نیشنز نے برطانیہ کو اس علاقے کی حکمرانی سونپ دی ۔ جسے فلسطینی برطانوی مینڈیٹ Mandatory Palestine کہا جاتا ہے. یہ مینڈیٹ ۱۹۴۸ء میں اسرائیل کے قیام تک قائم رہا ۔

دمشق کی فتح
اردن کی طرف سے عرب فوجیں ( شریفین آرمی ) شہزادہ فیصل اور لارنس کی قیادت میں اور فلسطین اور مصر کی جانب سے مصر کی برٹش فوج جنرل ایڈورڈ ایلن بی کی سربراہی میں دمشق کی طرف بڑھے ۔ ایلن بی نے جنگ مجدد Battle of Megidd میں ترکوں کو شکست دے کر 25 ستمبر 1918ء کو دمشق فتح کر لیا ۔ اس جنگ میں پچھتر ہزار ترک سپاہیوں نے ہتھیار ڈالے ۔ اسی دن شہزادہ فیصل اور تھامس لارنس بھی دمشق پہنچ گئے ۔ دمشق کی فیصلہ کن فتح کے ساتھ ہی مشرق وسطیٰ میں ترکوں کی قسمت کا فیصلہ ہوگیا ۔ عرب کی سرزمین ان کے ہاتھ سے ہمیشہ کے لئے نکل گئی

اکتوبر ۱۹۱۸ء تک مدینہ کے سوا سارا عرب اتحادیوں کی جھولی میں گر چکا تھا ۔ عثمانی فوجوں نے شکست تسلیم کر لی اور ہتھیار ڈال دیے ۔ انور پاشا جمال پاشا اور طلعت پاشا ترکی کو اس جنگ میں جھونکنے اور شکست کے ذمہ دار ٹھہرائے گئے ۔ یہی تینوں آرمینا میں قتل عام کے بھی ذمہ دار تھے۔ ترکی عوام میں اپنے خلاف بڑھتی نفرت دیکھ کر جنگ کے خاتمے پر تینوں گرفتاری کے خوف سے ترکی سے فرار ہو گئے۔ ان کی غیر موجودگی میں ان پر مقدمہ چلایا گیا اور اور انہیں سزائے موت سنائی گئی، لیکن جلاوطنی میں تینوں اپنے انجام کو پہنچے اور قتل کیے گئے۔ طلعت پاشا اورجمال پاشاآرمینائی انقلاب پرستوں کے ہاتھوں موت کی گھاٹ اترے جبکہ انور پاشا تاجکستان میں ریڈ آرمی کے حملے میں ہلاک ہوا ۔

(جاری ہے )

(یہ مضمون میری نئی آنے والی کتاب “ اہل وفا کی بستی “ کا حصہ ہے جو فلسطین اور اسرائیل کے سفر کی یاد داشتوں پر مشتمل ہے )