برٹش امپائر کی سربراہی میں برصغیر کی تباہی اور آج تک جاری فکر انحطاط کا کچا چٹھا سی ایس ایس جیسے امتحان کی صورت آج بھی رواں دواں ہے، جس میں انگریزی کو فوقیت دی جاتی ہے، بلکہ یوں کہنا بجا ہوگا کہ مذکورہ زبان ہی معیار قابلیت اور افسر شاہی بننے کی کنجی ہے ۔
غلامی در غلامی کی سوچ آج بھی اس نظام کے تحت نمو پارہی ہے ۔ خود مختاری اور اپنے تئیں کچھ کرنے ، اپنے وسائل اور اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ کرنا وقت کے ساتھ ناپید ہورہا ہے۔ وجہ سیدھی ہے آج بھی وہی نصاب اور فکر پڑھائی جارہی ہے جو برٹش امپائر نے برصغیر کو غلام بنانے کے لیے وضع کی تھی ۔ ہماری نسل کے لیے اس سے بڑھ کر اور کیا قیامت ہوگی کہ جھنوں نے ہمیں صدیوں غلام بنائے رکھا ۔ ہمارے وسائل بے دھڑک ہڑپ کیے اور ایک ایسے نظام کے تحت حکومت کی جس میں برصغیر میں لاکھوں لوگ قحط کے شکار ہوئے اور موت کی وادی میں جا گرے ۔
تاریخ شاہد ہے کہ برطانوی دور حکومت میں دسیوں بار قحط و بھوک کی صورت حال پیدا گئی مزید یہ کہ کسانوں کو جبرا مختلف ناموں سے ٹیکس اور حکومتی مد میں متعدد مالی لوٹ کھسوٹ کا سامنا رہا ۔ جس سے بچے کچھے مالدار افراد بھی غربت اور افلاس کی نذر ہوگئے ۔ مگر تاج برطانیہ اپنی لوٹ مار اور ظلم کے پہاڑ توڑتا رہا۔ تاج برطانیہ کے سامنے لاکھوں لوگ بری طرح متاثر ہوئے لاشوں سے آبادیاں بھر گئیں یہاں تک کہ لوگوں نے مردوں کا گوشت پوست کھایا ، گھاس پھونس کھا کر جان بچائی لیکن مجال ہے کسی طور تاج برطانیہ کے کانوں میں جوں رینگتی، واسرائے ہند کو کچھ رحم آتا ۔
ایسا طرز حکومت کر کے جانے والے آج بھی ہمارے نصاب ہائے تعلیم سے غائب ہیں ، ان کی پھیلائی تباہی گویا مٹانے کی سعی ہورہی ہے۔ کہیں بھی ان لٹیروں کا اتا پتا نہیں کہ کون تھے جنھوں نے برصغیر کی زمین جسے سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا، کو تہ و بالا کیا اور یہاں کی نسلوں کو تاریکیوں کے ایسے سفر پہ روانہ کردیا جہاں سے نکلنا بھی شاید صدیوں کا متقاضی سفر ہو ۔ مگر ہمارا نصاب خاموش ہے ان کرداروں کے متعلق، ہے نا ظلم و زیادتی ؟ آج عشروں بعد بھی برطانوی استعمار کو پڑھایا نہیں جاتا نہ کبھی اس ظلم کے متعلق مکالمہ ہوتا دیکھتے ہیں ۔ جامعات میں پہنچنے والے طلبہ تک اس طرز حکمرانی سے نابلد دکھائی دیتے ہیں بچاری ان پڑھ عوام کیا جانے گی ۔
آج جن بدترین حالات ہمارے سامنے ہیں اور جو سیاست دان اور افسر شاہی ہمارے اوپر مسلط ہے اس میں برطانیہ کی داستان خونچکاں کا حصہ ضرور ہے ۔ آزادی کے بعد ہمارے لیے وہی لوگ میسر آئے معدودے کردار چھوڑ کر باقی ماندہ وہی ملےجو پہلے ہی استعماری دور میں مزے لے چکے تھے کہیں نہ کہیں اس نظام جابرانہ کے بینفشری رہ چکے تھے اس لیے بظاہر برطانیہ تو چلا گیا مگر وہ تربیت یافتہ چور اچکے ہمارے سروں پہ بدستور حاوی رہے جن کی پرورش اسی دور میں ہوئی تھی جس دور میں بر صغیر میں لوٹ مار کا تاج برطانیہ کی سربراہی میں بازار گرم تھا ۔ اسی لیے نہ ڈھنگ کی حکومتیں آ سکیں اور عمدا آئین و قانون میں ایسے جھول رکھ دیے گئے جن سے بلاواسطہ ان کے مفادات کی محافظت ہو، اور عام آدمی ملک و قوم کے معاملات سے پرے ہی رہے۔
اس کی ایک اہم کڑی قومی زبان اردو کی ہے، جس کو آج تک قومی زبان ہونے کے باوجود وہ درجہ نہیں ملا،جو ملنا چاہیے تھا ۔ ملک کے قیام کو اسی سال ہونے کو ہیں، لیکن کیا کیجیے ہمارے دستوری امور کو ملک کے دیگر شعبہ جات کو جہاں پہ وہی رعونت اور آقا اور غلام والا رویہ موجود ہے جو پہلے ہواکرتا تھا، قانون ایسا گنجلک اور غیر واضح کہ عام تو عام شہری، بڑے بڑے بھی اس دستوری کتھا کو مجہول اور مبہم قرار دے چکے ہیں مطلب صاف ہے قانون جیسے اساسی مسئلے پہ بھی ہم ایک ملک نہیں بن پائے چہ جائیکہ ہم دوسرے شعبوں میں اپنے آپ کو ایک مستحکم اور آزاد قوم بنا پائیں ، غرض وہی نظام ہمارے ملک کو روبہ زوال کرنے میں طاق ہے جس نے برصغیر میں صدیوں کڑروں افراد پہ زمین تنگ کیے رکھی ۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ استعماری قوتوں کا دبدبہ آج بھی ہنوز ہماری رگوں میں دوڑتا ہے ۔ یہی عنصر ہماری فکری کوتاہ بینی اور دوسروں پر انحصاریت کا موجب بنا ہوا ہے ۔ جس کی مختلف النوع شکلیں ہمیں قومی رویوں میں جابجا نظر آتیں ہیں ۔ بڑی اور مقتدر اقوام کے بارے ہمارے حکمران نہایت نیچ اور ہیچ بن جاتے ہیں۔ ان کے آگے قومی ترجیحات کے بجائے اپنے مفادات کو اولیت دیتے ہیں اس پہ مستزاد یہ کہ ان سے ساز باز کرنا اور ان کے ہر جائز ناجائز مطالبے پہ سر تسلیم خم کرنا ،قومی وقار اور اپنی بقا کا ضامن گردانتے ہیں معیشت جیسے اہم شعبے میں ہماری تنگدستی اس بات پہ واضح ثبوت ہے کہ ہم دوسروں کی کاسہ لیسی اور چاپلوسی کرنے کو اپنے لیے باعث مسرت اور موجب عافیت جانتے ہیں ۔
جب حکمران ایسے ہوں جن کو عوام پہ اعتماد نہ ہو ، اقتدار کے حصول اور اس کے دوام کے لیے دھاندلی کو اپنی بقا جانتے ہوں تو اس مملکت کا کیا بنے گا وہاں کی عوام کیسے ایک پائیدار معیشت اور بہتر طرز زندگی دیکھ سکے گی ۔ اس کے لیے عوامی حمایت یافتہ حکمران ناگزیر سمجھے جاتے ہیں جن کا کل بھروسہ عوام کی طاقت اور ان کا ووٹ ہو اور جو چور دروازے وا کر کے آئیں ان سے ملکی سالمیت اور ترقی و پیش رفت کی امید لگانا ہی عبث ہے ۔ تبھی ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے تمام نصابات بھی ان آقاؤں کے اشاروں پہ مرتب ہورہے ہیں جو صدیوں برصغیر کی لوٹ مار میں مگن رہے نہ صرف یہاں سے وسائل منتقل کیے بلکہ ایسا نظام بھی چھوڑ گئے جس کے بل بوتے مزکورہ خطہ دیگر اقوام کے مقابل ناقابل بیان حد تک غیر مستحکم ہوا اور اس کی معیشت دوبارہ انہی لوگوں کے تر نگیں آگئی جنھوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کریہاں سے اپنی نسلوں کے لیے اثاثے بنائے مگر مغلوب خطے کے لوگوں کو ترقی کی شاہراہ سے کوسوں پیچھے دکھیل دیا اور یوں ایک کمزور اور شکستہ نظام دے گئے جو اب تک لڑکھڑارہا ہے نہ جانے یہ شکنجہ کب ڈھیلا ہو اور اس خطے کے عوام ایک پروقار نظام میں اپنی زندگی گزار سکیں
تبصرہ لکھیے