ہوم << شور - طارق بلوچ صحرائی

شور - طارق بلوچ صحرائی

انصاف اور ایثار خاموشی کے منصب ہیں اور ظلم کیلئے شور کی تلوار کا ہونا ضروری ہے۔ جب آپ دکھ درد میں صبر کی قبا خاموشی سے اوڑھ لیتے ہیں تو دانائی کا رزق عطا کر دیا جاتا ہے اور دانا شخص ہی اللہ کی حکمت کو جان سکتا ہے اور خاموشی حکمت کی پہلی نشانی ہے۔ اب ہر طرف شوروغل، ہنگامے اور چیخ و پکار ہے۔ شاید تہذیبیں زوال کی سیاہی اوڑھ چکی ہیں۔ شور جہالت اور زوال کا آغاز ہے۔ فطرت کو خاموشی پسند ہے مگر باہر کا شور میری روح کے شفاف خدوخال پر خراشیں ڈال دیتا ہے۔ نرم کونپلیں خاموشی سے پھوٹتی ہیں اور پھول بنا کسی آواز کے کھلتے ہیں۔ بادِ صبا چپ چاپ پھولوں سے سرگوشیاں کرتے ہوئے رواں دواں رہتی ہے۔ روح کے سارے ساز خامشی کے رُباب ہی سے جلوہ افروز ہوتے ہیں۔ ڈھولک کا سناٹا صرف وہی کنوارے ہاتھ سُن سکتے ہیں جو مہندی رچانے کی آس لیے بیٹھے تھے کہ اُن کے بالوں میں چاندی آ گئی۔ شور انسان کو سلائے رکھتا ہے اور خاموشی اُسے جگا دیتی ہے۔ یہ کائنات بھی راز ہے۔ سرگوشی اس بھید کا بچپن اور خاموشی اس کی جوانی ہے۔ خاموشی کائنات کی تال اور لے کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ فطرت کو شور پسند نہیں۔ پنچھی فطرت کے سفیر ہوتے ہیں اس لیے کوئل کبھی نہیں دھاڑتی. میرا جتنا کم سوتا تھا اُس سے بھی کم کھاتا تھا . وہ کہتا تھا غذا زندہ رہنے کی دوائی کا نام ہے اور دوائی کی مقدار ہمیشہ کم ہی ہوتی ہے۔ وہ ہمیشہ خاموش رہتا تھا، اُس کے مطابق بات صرف وہی کرو جو آنے والے وقت کے لیے خیر کا باعث بن جائے، وگرنہ دوسری ہر بات صرف شور ہے۔ نصیحت صرف اُسے کرو جو بات سننے کا ہنر جانتا ہو وگرنہ آپ کی بات کی اہمیت صرف اتنی ہی ہے جیسے مسخروں کے شہر میں کسی دانشور کا مزار۔

دادا کہتا تھا ہم نے گاؤں سے شہر آ کر غلطی کی۔ باہر کا شور آپ کو آپ کے اندر کی آواز کو سننے نہیں دیتا۔ شور روح کی شفاف جھیل کو گدلا کر دیتا ہے اور دل کا کنول کملانے لگتا ہے۔ کہنے لگا شور کے بھیڑیے سے بچو اس کی خوراک شعور اور شہر ہیں۔ آپ نے کبھی اُن بانجھ انگلیوں کا دُکھ دیکھا ہے جو ایسی تصویر بنانا چاہتی ہیں جن کے خدوخال زمانے کے شور کی بھیڑیں گم ہو چکے تھے۔ شورش شہر کے غبار میں چہرے کے خدوخال گم ہونے لگتے ہیں اور خدوخال سے ہی زندگی ایک تصویر کی حسرت لیے رائیگانی کے لمبے سفر میں کھو جاتی ہے۔ دادا کہتا تھا زندگی کی نفسانفسی میں عمر کا سوت اٹ جائے تو خاموش رات کی سیاہی میں پوہ پھٹنے سے پہلے چرخا بنانے والے کے آگے رو لیا کرو کات بن جایا کرتی ہے۔

نہ جانے کیوں یہ شور میرا پیچھا نہیں چھوڑتا شہروں کے ہنگاموں سے بھاگ کریں۔ بلوچستان کے بنجر، سنگلاخ پہاڑوں کی طرف نکل گیا۔ بلوچ زندہ ہی دو صورتوں میں رہ سکتے ہیں کہانی سنتے ہوئے یا کہانی سناتے ہوئے انہیں اپنے اسلاف کی خود داری، جرأت اور شجاعت کی داستانیں بڑی بھلی لگتی ہیں۔ وہ داستانیں سنتے سناتے داستانوں میں رہنے لگتے ہیں اور بالآخر خود داستان بن جاتے ہیں وہاں میں آبادی سے دور ویران پہاڑ پر بنے ایک چھوٹے سے گھر میں گیا جہاں اب اکیلی عورت رہتی ہے جو دنیا کے دکھوں کو نصف صدی سے جھیل رہی تھی اُسکی رحل جان اُس کے جواں جگر گوشے کے انتظار کا صحیفہ رکھا تھا جو کئی سالوں سے گھر واپس نہیں لوٹا تھا۔ اُس کے گھر کے سناٹے میں بھی بلا کا شور تھا۔ اُس کی چپ میں بھی ایک شکایت تھی حلق میں اٹکتے آنسوؤں کے ساتھ میں نے اُسے تسلی دی میری جھوٹی تسلی کو سُن کر وہ لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں بولی مجھے کہانی سنانے والا میری کہانی سننے والا کئی ساون سے گھر نہیں لوٹا زندگی میں پہلی بار وہ بنا کر نہیں گیا تھا۔ اُس کے کپڑے میلے ہو چکے ہوں گے اُس کے پاس تو دوسرا سوٹ بھی نہیں تھا وہ مجھے داستانیں سناتے سناتے خود بھی داستان بن گیا ہے۔ پتر مامتا اور محبت کو دفن نہیں کیا جا سکتا بس اپنی زندگی کو ہی دیوار میں چننا پڑتا ہے۔ ہجر اور موت دو جڑواں نہیں ہیں فرق صرف انتظار کی جان کنی کا ہے۔ پتر جبر کے اس موسم میں کتنا حبس ہے پتر ’’خداؤں‘‘ کی اس بھیڑ میں ہم خاکیوں کا دم گھٹنے لگا ہے۔ ’’اسماعیل‘‘ ذبح ہوتے جا رہے ہیں کہیں مینڈھا نظر نہیں آتا پتر ہمارے پاس نیبوں والا حوصلہ نہیں ہے۔ یہ جو تم میری آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقوں کو دیکھ رہے ہو یہ حلقے نہیں یہ وصل کے مردہ خوابوں کی قبریں ہیں۔ یہ حالات کے کفنائے ہوئے لوگوں کے مزار ہیں ہم بلوچ ماؤں کے لبوں پر ایک ہی دعا ہے کسی ’’یعقوب‘‘ کا کوئی ’’یوسف ‘‘نہ بچھڑے۔ پتر میرا پتر اگر تجھے کہیں ملے جس نے نیلے رنگ کا سوٹ پہنچا ہو گا اُس نے کالے رنگ کی چپل پہنی ہو گی اُسے کہنا اس سفاک اور بے فیض زمانے میں جینا تو نہیں بنتا مگر اولاد کو ماں باپ کی زندگی تک ضرور زندہ رہنا چاہیے تاکہ اُن کی ماؤں کے کلیجے نہ پھٹیں۔ بوڑھے ماں باپ کو اُن کی قبروں میں اُن کے جوان بیٹے ہی اتارتے اچھے لگتے ہیں۔ رب کسی کو موت دے دے مگر اولاد کا ہجر نہ دے۔ میں اُس ماں کے آنسوؤں کو اپنی سسکیوں کے شور سے پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا اسی لیے وہاں سے فوراً بھاگ آیا۔

رمستان نے اس پُرفضا مقام کو سکون اور محبت کی آغوش میں لے رکھا تھا۔ فضا میں بھینی بھینی خوشبو ان دیکھے خوابوں کی داستان سنا رہی تھی۔ فضا میں المیزون کے جنگلوں والا سکوت تھا۔ دھوپ چھاؤں کی سرگوشیوں کے بعد دور سے بارش کی دستک سنائی دینے لگ گئی تھی۔ دور مغرب میں بُدھا کے خدوخال جیسا پہاڑ دکھائی دے رہا تھا۔ وقت کے جھریوں والے مقدس چہرے نے میرے کان میں سرگوشی کی۔ جب پتھروں پر زوال آتا ہے تو اُن کے بت بنا لیے جاتے ہیں اور جب قوموں پر زوال آتا ہے تو اُن کے دل پتھر کے بن جاتے ہیں اور معاشرے نجومیوں فال نکالنے والوں، فتویٰ فدوشوں، خوشامدیوں، طنز اور ہجو کرنے والوں سے بھر جاتے ہیں۔ میں اپنے کالج کے زمانے دوست کے پاس بیٹھا ہوں اُس کا گاؤں پہاڑوں کے درمیان ایک چھوٹی سی وادی میں واقع ہے۔ اُس کے گاؤں کا راستہ بہت دشوار گزار ہے۔ یہاں کوئی پکی سڑک دور دور تک نہیں ہے۔ کئی گھنٹوں کی پیدل مسافت کے بعد یہ گاؤں آتا ہے۔ یہاں ہر طرف فطرت کی حکمرانی ہے۔ سادگی اور خاموشی اس گاؤں کی خاصیت ہے سارے گاؤں والے ایک خاندان کی طرح رہتے ہیں۔ ان کی خوشیاں اور دُکھ سانجھے ہیں یہاں کسی کو بھی تنہائی کا سانپ نہیں ڈستا۔ مجھے دادا کی بات آج سمجھ میں آئی تھی کہتے تھے کہ راستہ جتنا مشکل،ناہموار اور دشوار گزار اور ناہموار ہو گا منزل اُتنی ہی خوبصورت ہو گی۔ یہاں کے لوگ جانتے تھے جو بھیجو گے وہی لوٹ کر واپس آئے گا اسی لیے سب لوگ دوسروں کیلئے آسانیاں پیدا کرنے لگے رہتے تھے۔ دوسروں کو دبے گئے دُکھوں کا مداوا ’’چیل گوشت‘‘ کے صدقے سے نہیں کرتے تھے۔ یہاں گاؤں میں کوئی دکان نہیں تھی لوگ ضروری سامان دوسرے گاؤں سے لاتے تھے۔ ان کے بڑے بوڑھے سمجھا گئے تھے جہاں خرید و فروخت ہوتی ہے وہاں برکت نہیں ہوتی۔ مادہ پرستی کو فروغ ملتا ہے جو انسانیت کیلئے زہر ہے۔

شہروں کے بازار شور بانٹتے ہیں یہاں ہر وقت خرید و فروخت اور منافع کی آندھی چلتی رہتی ہے۔ زندگی شروع ہی خرید و فروخت، نفع نقصان کے زنداں سے نکلنے کے بعد ہوتی ہے۔ شہروں کی فضا اس قدر آلودہ ہو چکی ہے کہ اب رات کو آسمان پر ستارے نظر ہی نہیں آتے۔ یہاں کے ستارے بھی اپنے زائچوں سے خوفزدہ ہیں۔ شور کی نحوست سے وقت سے برکت اُڑ جاتی ہے۔شہروں کے شور میں جنم لینے والے بس حس، سفاک اور بے رنگ ہو جاتے ہیں اور فطرت کو ملبوس ہی قوس قزح کے رنگوں میں ہے۔ یہاں کے لوگ بے حسی کے خول سے باہر نکل ہی نہیں پاتے چاہے انہیں شیشے کے جام میں اخلاص کا لہو ہی کیوں نہ پیش کیا جائے۔ انہیں چیخ و پکار سے کم سنائی ہی نہیں دیتا۔ یہاں تک کہ اُنہیں غزہ کے عورتوں اور بچوں کی چیخیں اور مدد کیلئے پکار سنائی نہیں دیتی۔ انہیں شہیدوں کا لہو دکھائی نہیں دیتا۔ انہیں سوال کی اذیت کا ادراک ہی نہیں ہوتا کسی کی عزت نفس بچا کر اُس کی حاجت پوری کرنا ہی انسانیت ہے۔

گاؤں میں کم آمدنی کے باوجود بھی سب لوگ خوش تھے اور سیر ہو کر کھاتے تھے یہاں آ کر مجھے معلوم ہوا کہ صاحب فہم و فراست کیوں برکت اور رزق حلال کے متمنی ہوتے ہیں۔ کثرت میں سیری کی ضمانت نہیں البتہ اُس کا حساب دینا پڑے گا۔ برکت میں حاجت پوری ہونے کی اور سیری کی ضمانت ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کثرت کا نظام ہے اس نظام میں تعلیم بھی مہذب ڈاکو پیدا کرتی ہے۔ گاؤں میں فطرت رقص کرتی ہے اور جھرمے مسکراتے ہیں۔ یہاں آپ کو اپنے اندر کی آواز سنائی دیتی ہے۔ یہ الہامی آواز آپ کو آپ سے اور رب سے ملاتی ہے مجھے یہاں آ کر آگہی ہوئی شہروں میں لوگوں نے خود کو زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے اور اُسکی چابی اپنی ہی جیب میں رکھ کر شور مچا رہے ہیں۔ یہاں ہر شخص غربت سے ڈرتا ہے۔ غربت سے خوفزدہ ہونا سب سے بڑی غربت ہے۔ گاؤں میں لوگوں کی پہچان گھر کے نمبروں سے خاندان کے بڑے بزرگوں کے ناموں سے ہوتی ہے۔ یہاں اب بھی ڈاکیے کا انتظار کیا جاتا ہے۔ لوگ اب بھی یہاں خطوں کا انتظار کرتے ہیں خط صرف پیغام ہی نہیں یہ ایک تہذیب کا نام ہے۔ مشرقی تہذیب کا دستر خواں خطوں کی رکابیوں سے سجا ہوا ہے۔ خطوط نام نہاد فتویٰ گروں کے شور شرابے میں دانشوروں کی آوازوں کو گم نہیں ہونے دیتے۔ خطوں نے ہی غالب کو زندہ رکھا ہوا ہے۔

کئی مہینے فطرت کی خامشی کے ساتھ گزارنے کے بعد میں نے شہر واپس آنے کا سوچا تو میرا دوست بہت اداس ہو گیا۔ کہنے لگا واپس مت جاؤ انسان کو ایک ہی تو زندگی ملتی ہے وہ بھی تم شہر کے ہنگاموں کی نذر کرنا چاہتے ہو جو تم کھاتے ہو وہی بن جاتے ہو شہروں میں نہ خوراک خالص ہے نہ ہوا نہ فضا پھر تم خالص کیسے رہ سکتے ہو۔
مگر مجھے واپس جانا ہے اپنے گھر اپنے شہر میں۔ میں نے کہا:
کہنے لگا
امام جنبل سے سوال کیا گیا کہ قرآن مخلوق ہے یا غیر مخلوق۔ درباری مُلاں کہتے تھے کہ قرآن مخلوق ہے۔ خلیفہ ان درباری ملاؤں کی بات کو صحیح سمجھتا تھا۔ امام حنبل نے کہا قرآن نہ مخلوق ہے نہ غیر مخلوق ، یہ اللہ رب العزت کی کتاب ہے جو مخلوق کی راہنمائی کیلئے اتاری گئی ہے۔ خلیفہ کو اُن کا جواب پسند نہ آیا جس کی وجہ سے وہ قید و بند اور تشدد کا شکار ہوئے۔ پورے ملک میں اس موضوع پر بحث مباحثے ہو رہے تھے۔ ہر آدمی کا اپنا اپنا جواب تھا۔
میں سمجھا نہیں، میں نے کہا:
بولا میرے دوست یاد رکھنا
دنیا میں جتنا شور ہے وہ اُن جوابات کا ہے جن کے سوال ابھی تخلیق ہی نہیں کیے گئے۔جب میں گاؤں سے شہر کی طرف روانہ ہو رہا تھا تو گاؤں والوں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
میرا دوست مجھے چھوڑنے بہت دور تک آیا جب تک میں اُسے نظر آتا رہا وہ بولتا رہا مجھے روکتا رہا مجھ سے نہ جانے کی التجا کرتا رہا اور اپنا ہاتھ ہلاتا رہا۔
اُس کے آخری الفاظ جو مجھے سنائی دیئے وہ کہہ رہا تھا۔
میرے دوست، میرے بھائی
شور کی طرف مت جاؤ کیونکہ ’’یہ جو خامشی ہے یہ تعمیر ہے، یہ تخلیق ہے، یہ سارا شور تو فنا کا ہے۔‘‘