پاکستان میں فیک نیوز کیسے اور کیوں پھیلتی ہے یہ سمجھنا چنداں مشکل نہیں۔ گزشتہ روز میں نے کراچی کے ایک بڑے پرائیویٹ اسپتال سے وابستہ ماہر متعدی امراض یا انفیکشس ڈزیزز ایکسپرٹ سے جب یہ سوال کیا کہ کراچی کے چڑیا گھر میں موجود ہتھنیوں کو ٹی بی کیسے ہوئی تو ان کا جواب تھا، "ہم آپ کو یہ نہیں بتا سکتے".
لیکن کیوں؟ "ہم آپ کو یہ بھی نہیں بتا سکتے"، یہ تھا ان کا جواب۔ وہ تو بھلا ہو انڈس اسپتال سے وابستہ معروف ماہر ڈاکٹر نسیم صلاح الدین کا جن سے گزشتہ 20 سال سے نیازمندی ہے، جنہوں نے بتایا کہ ممکنہ طور پر ہتھنیوں کو ٹی بی کی بیماری ان کے رکھوالوں سے لگی جو کہ خود بھی ٹی بی کا شکار تھے۔ لیکن ایسا میرے ساتھ پہلی دفعہ نہیں ہو رہا۔ دو سال قبل کراچی کے پمز اسپتال میں ایچ آئی وی انفیکشنز کا شکار نوجوانوں کے متعلق ٹویٹ کرنے والی ڈاکٹر کو اس وقت وفاقی وزارت صحت حکام کے غیض و غضب کا سامنا کرنا پڑا جب انہوں نے نوجوان لڑکوں میں ایچ ائی وی پھیلنے کے حوالے سے لوگوں کو آگاہ کرنے کی کوشش کی۔
ہوا کچھ یوں کہ ان کی ٹویٹ کے بعد جب میں نے ان سے یہ پوچھا کہ اسلام آباد میں ہر مہینے کتنے لوگ ایچ آئی وی پوزیٹو ہو رہے ہیں تو انہوں نے بتایا کہ تقریبا 50 لوگ ہر مہینے ایچ آئی وی پوزیٹو ہوتے ہیں جن میں سے اکثریت نوجوان لڑکوں کی ہے جو کہ ہم جنس پرست یا گیز ہوتے ہیں۔ اب گیز Gays کے متعلق کچھ کہنا تو اس ملک میں سب سے بڑا جرم ہے۔ چونکہ میرا تو شاید کچھ بگاڑ نہیں سکتے تھے، خاتون ڈاکٹر کو وزارت صحت میں بلایا گیا، ڈرایا دھمکایا گیا، اور کہا گیا کہ ائندہ اگر وقار بھٹی یا کسی رپورٹر سے ایچ آئی وی کے متعلق بات کی تو نشان عبرت بنا دیا جائے گا۔ اگلے سال میں نے ایچ آئی وی کے اعداد و شمار کے حوالے سے نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام سے ڈیٹا حاصل کرنے کی کوشش کی تو مجھے کہا گیا کہ "ہم نہیں بتائیں گے".
میں نے پوچھا کہ کیوں نہیں بتائیں گے؟ تو کہنے لگے ، "یہ بھی نہیں بتائیں گے". اگلے روز میں نے وفاقی سیکرٹری صحت کو میسج کیا کہ ملک میں پچھلے سال 30 ہزار ایچ آئی وی کے نئے کیس سامنے آئے ہیں وجوہات کیا ہیں ؟ تو انہوں نے مہربانی کر کے نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کو بار بار تنبیہہ کر کے اصل اعداد و شمار نکلوا کر مجھے بتائے۔ لیکن ایسا صرف ایچ ائی وی اور ایڈز کے حوالے سے ہی نہیں ہوتا . گزشتہ سال میں نے اسلام اباد کے سب سے بڑے اور مہنگے اسپتال کے چیف ایگزیکٹو آفیسر سے پوچھا کہ اس سال فلو کے کتنے کیسز سامنے آئے ہیں تو ان کا جواب تھا کہ ، "میں نہیں بتاؤں گا" اور کیوں نہیں بتاؤں گا یہ بھی نہیں بتاؤں گا۔
یہ تو پرائیویٹ اور سرکاری صحت کے اداروں کا حال ہے اب سنیے کہ افواج پاکستان کے ماتحت صحت کے ادارے کیا کرتے ہیں۔
پاکستان میں اٹامک انرجی کمیشن کے تحت چلنے والے کینسر کا علاج کرنے والے کئی اسپتال ہیں۔ میں نے اکثر ان سے کینسر کے اعداد و شمار حاصل کرنے کی کوشش کی تو وہ ہر دفعہ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید میں ان سے پاکستان میں ایٹم بموں کی تعداد پوچھ رہا ہوں ، میں جب ان سے سوال کرتا کہ اپ کے پاس ہر سال بریسٹ کینسر کے کتنے کیس اتے ہیں تو جواب ہوتا تھا ، "اس کے لیے آپ متعلقہ حکام سے رابطہ کریں" یعنی پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے ذمہ داران سے اور وہ ہمیشہ یہ اعداد و شمار دینے سے انکار کر دیتے۔
میرا اپنا قول ہے کہ "پاکستان میں بیماریوں پر کنٹرول, بیماریوں کے اعداد و شمار کو چھپا کر کیا جاتا ہے۔" میں ہر جگہ یہ رونا روتا ہوں اور مجھے پتہ ہے کیا جواب دیا جاتا ہے؟ نیوز رپورٹرز کو ڈیٹا انٹرپریٹیشن نہیں آتی، اس لیے وہ اکثر ڈیٹا کو مس انٹرپریٹ کرتے ہیں، اس لیے ہم ان کو یہ ڈیٹا نہیں دیتے۔ برسبیل تذکرہ، یہ لوگ دوسرے اداروں کے پی ایچ ڈی حضرات تک کو بھی یہ ڈیٹا نہیں دیتے، بلکہ شاید وہ اپنے گھر والوں کو بھی کوئی ڈیٹا نہیں دیتے۔ اور پھر پھیلتی ہے فیک نیوز۔ جس کا جو دل چاہتا ہے وہ اخبار میں لکھتا ہے، ٹی وی پر کہتا ہے، اور سوشل میڈیا پر شتر بے مہار ہو جاتا ہے کیونکہ ہمارے ڈاکٹر، اداروں سے وابستہ سائنسدان، ریسرچرز یہ سمجھتے ہیں کہ اگر انہوں نے ڈیٹا یا کوئی خبر بتا دی تو یہ ایسا ہی ہے جیسے انہوں نے الہامی راز یا ملک کے "نیوکلیئر سینٹری فیوجز" کی تعداد اور اقسام آشکار کر دیں۔
میرا ان لوگوں کو مخلصانہ مشورہ ہے کہ پاکستان کے موجودہ حالات میں اچھی یا بری ہر طرح کی خبریں شیئر کریں، مجھے بتائیں یا نہ بتائیں. لیکن خدا کا واسطہ ہے ڈیٹا شیئر کریں، اپنے اوپر والوں کی "حرام زدگیاں" آشکار کریں اور لوگوں کو سچ بتائیں۔ شہادت حق دیں ورنہ دنیا کے ساتھ ساتھ بہت جلد آخرت میں بھی درے پڑنے والے ہیں۔
تبصرہ لکھیے