ہوم << نیلی جھیل ، دعا اور پرندے - فاطمہ شیروانی

نیلی جھیل ، دعا اور پرندے - فاطمہ شیروانی

مجھے پہاڑوں ,دریاوں اور جھیلوں سے صرف محبت نہیں بلکہ ایک خاص قسم کی عقیدت ہے۔میرا یہ بھی ماننا ہے کہ ہر روح کے مقدر میں پہاڑوں پر جانا نہیں لکھا ہوتا. یہ کچھ خاص قسم کی روحیں ہوتی ہیں جنھیں پہاڑوں کی پکار پر لبیک کہنا ہی ہوتا ہے۔پہاڑ بلاتے ہیں اور ہمارے من مندر میں گھنٹیاں سی بجنے لگتی ہیں۔پنجروں میں بند آوارہ گرد روحیں پھڑپھڑانے لگتی ہیں اور پھر ایک لمبی سی اڑان بھر کے پہاڑوں کے دامن میں جا بیٹھتی ہیں۔

ایسی ہی ایک پکار کچھ روز پہلے مجھے بھی سنائی دی۔کنول بہزاد نقارہ بجاتے ہوئے من جوگی کو اڑنے کی دعوت دے رہی تھیں۔یہ کنول بہزاد بھی عجیب ہیں، بس ہاتھ آگے بڑھاتی ہیں اور اپنے ساتھ اڑائے پھرتی ہیں، کبھی اس نگر تو کبھی اس نگر۔اب کی بار کنول کے ہاتھ میں پانیوں سے بھرے کچھ خواب تھے، اور کنول کا کہنا تھا کہ آؤ میرے ساتھ ان پانیوں میں اپنے اپنے خوابوں کے سکے ڈال دو، کچھ پانیوں میں ڈال دینا اور کچھ ہوا میں اچھال دینا ، پرندے تھام لیں گے اور جھیلوں کے پاس اڑتے پرندوں کو معمولی مت سمجھنا۔یہ خیر بانٹتے ہیں ۔تمہارے حصے میں جو آئے وہ لے لینا۔

خیر کنول کی پکار پر میں نے لبیک کہہ دیا لیکن لمحے بھر کو خیال باد صبا جیسی دوست کا آیا. مجھے معلوم تھا کہ میری طرح جھیلیں اس کی بھی کمزوری ہیں۔چشم تصور سے دیکھا یہ خبر سن کر اس کی آوارہ گرد روح نے بھی اپنے ہلکے سے پر کھول لیے ہیں. لیکن پھر کچھ سوچ کر وہ پروں کو سمیٹ لیتی۔اس نے پروں کو کھولنے اور پھر سمیٹنے کا سلسلہ جاری رکھا، اور بالآخر ہماری آوارہ گرد روحوں نے جب اڑان بھری تو سب سے خوبصورت پرواز اسی کی تھی۔

ہمارا یہ قافلہ نہایت ہی حسین رنگوں پر مشتمل تھا کہیں فائزہ کی فوٹوگرافی کے رنگ تھے تو کہیں وفا کی میٹھی سی مسکان کے رنگ تھے. ہمارے قافلے کی روح رواں کنول بہزاد کی ہنسی اور قہقہوں کے رنگ ,ناصرہ اور ان کی بیٹیوں کے خلوص کے رنگ, ڈاکٹرثمینہ اور عنبرین کی محبت کے رنگ اور سب سے بڑھ کر دعا کی دوستی کے رنگ، جو اس سفر میں میرے ہمسفر بنے۔

ہماری منزل میرپور آزاد کشمیر میں موجود منگلا جھیل تھی۔لیکن اسے منگلا جھیل کیوں کہتے ہیں؟ اسے تو نیلی جھیل کہنا چاہیے. ہاں بس آج سے میں اسے نیلی جھیل کہوں گی۔نیلی جھیل کے کناروں پر پرندوں کا رقص جاری تھا۔میں نے لمحے بھر کو آنکھیں بند کر کے دیکھا ،میری روح بھی ان پرندوں کے ساتھ محورقص تھی۔کیا اتنا خوبصورت نظارہ کسی نے دیکھا ہو گا.

تاحد نگاہ تک پھیلا نیلا آسمان، آبی پرندوں کے غول کے غول ,جھیل کے شفاف پانیوں میں چمکتے موتی۔ان پانیوں میں میں نے اور دعا نے کچھ پتھر پھینکے، اور جواب میں ان پانیوں نے مجھے اپنے رنگوں سے بھگو دیا . ہم پانیوں کی اس شرارت پر کتنی ہی دیر تک ہنستی رہیں۔یہ ہنسی اس پورے سفر میں ہماری ہمسفر رہی۔اب کی بار واپسی کا سفر بوجھل نہیں تھا۔ہم نے ایک الوداعی نظر نیلی جھیل اور اڑتے پرندوں پر ڈالی، دوبارہ آنے کے خواب اپنی مٹھیوں میں بھر کر ہم سب نے واپسی کی اڑان بھر لی۔

Comments

Avatar photo

فاطمہ شیروانی

فاطمہ شیروانی معروف لکھاری اور افسانہ نگار ہیں۔ درس و تدریس کے شبعے سے منسلک ہیں۔ لکھنے کا باقاعدہ آغاز رسائل میں کہانیاں لکھنے سے ہوا۔ روزنامہ جنگ کے ادارتی اور خواتین صفحے پر کئی سال تک لکھا۔ مضامین کا مجموعہ تیرے قرب کی خوشبو، افسانوں پر مشتمل کتاب وینٹی لیٹر پر پڑی یادیں، اور رتی گلی کے نام اور اے وادی کمراٹ کے نام سے دو سفرنامے شائع ہو چکے ہیں۔ ان دنوں پبلشنگ کے میدان میں یاسر پبلیکیشنز کا علم اٹھاٸے کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہی ہیں۔

Click here to post a comment