ہوم << تحریک ندوہ کی عصری معنویت؛ دساتیر ندوہ کی روشنی میں - ڈاکٹر محمد عادل خان

تحریک ندوہ کی عصری معنویت؛ دساتیر ندوہ کی روشنی میں - ڈاکٹر محمد عادل خان

دنیا تیزی سے بدل رہی ہے، نظریات کی جنگ شدت اختیار کر چکی ہے، تہذیبی تصادم عروج پر ہے، اور علمی دنیا میں ہر روز نئی فکری لہریں ابھر رہی ہیں۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارے علمی ادارے، بالخصوص ندوۃ العلماء، اس تیزرفتار تغیر پذیر دنیا کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں؟ کیا وہ خواب جو بانیانِ ندوہ نے دیکھا تھا، وہ آج کی حقیقت میں بدل چکا ہے یا ہم محض ماضی کی داستانوں پر فخر کر کے وقت گزار رہے ہیں؟

ندوہ کی بنیاد جس فکر پر رکھی گئی تھی، اس کی روح اتحادِ امت، علمی رواداری، اور جدید و قدیم علوم کا حسین امتزاج تھی۔ یہ ادارہ محض ایک مدرسہ نہیں تھا بلکہ ایک تحریک تھی؛ ایسی تحریک جو تنگ نظری اور تعصب کے بجائے وسعتِ فکر، کشادہ دلی اور عملیت کو اپنا شعار بنائے ہوئے تھی۔ افسوس کہ وقت کے ساتھ ہم تحریک کو ادارہ بنا بیٹھے اور مقصد کو محض رسم میں بدل دیا۔

آج اگر ہم ندوہ کی عصری معنویت پر غور کریں تو پہلا سوال یہی اٹھتا ہے کہ ندوہ کے قیام کا مقصد کیا تھا اور کیا ہم اس پر قائم ہیں؟ بانیانِ ندوہ چاہتے تھے کہ یہاں سے وہ علماء تیار ہوں جو نہ صرف اسلامی علوم میں مہارت رکھتے ہوں بلکہ دنیاوی مسائل کا ادراک بھی رکھتے ہوں، جو مسجد کے منبر سے لے کر عالمی فورمز تک اسلام کی نمائندگی کر سکیں، جو دلائل سے بات کریں، جو امت کو جوڑیں، جو امت کے مسائل کو اپنا مسئلہ سمجھیں، اور جو علم کو صرف رٹنے کی چیز نہ سمجھیں بلکہ عمل کی بنیاد بنائیں۔

ندوہ کے بانیان نے نصاب کی اصلاح کے ضمن میں یہ بنیادی نظریہ پیش کیا تھا کہ نصاب کوئی جامد چیز نہیں بلکہ ایک تغیر پذیر عمل ہے، جس میں بہتر سے بہترین کی گنجائش ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ ان کا ماننا تھا کہ ہر دور کے بدلتے ہوئے حالات اور تقاضے نصاب کی تشکیل و ترتیب میں نئی سوچ اور اجتہادی بصیرت کا تقاضا کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ندوہ کے ابتدائی دور میں نصاب سازی کا عمل محض روایت پرستی پر مبنی نہیں تھا بلکہ اس میں وقت کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسی جامعیت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تھی جو دین و دنیا کے مابین ایک متوازن پل کا کام کرے۔ افسوس کہ وقت گزرنے کے ساتھ یہ فکری لچک رفتہ رفتہ کم ہوتی چلی گئی اور نصاب میں وہ ارتقائی تسلسل باقی نہ رہ سکا، جس کی طرف بانیانِ ندوہ نے اشارہ کیا تھا۔

مگر افسوس! آج ہم نے علم کو محض سند کے حصول کا ذریعہ بنا دیا ہے۔ سوچنے، سوال کرنے، تحقیق کرنے کا جذبہ ماند پڑ گیا ہے۔ ہم نے اختلافِ رائے کو بغض سمجھ لیا ہے اور سوال کرنے والے کو گستاخ قرار دینا شروع کر دیا ہے۔ حالانکہ تحریکِ ندوہ کی روح یہی تھی کہ سوال اٹھاؤ، سوچو، دلیل دو اور دلیل لو۔

آج کا ندوہ کیسا ہونا چاہیے؟ اگر ہم واقعی ندوہ کے مقاصد کو زندہ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے اپنے نصاب پر نظر ثانی کرنی ہوگی۔ ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ صرف قدیم نصاب پر اکتفا کرنا دانشمندی نہیں۔ جدید سائنس، ٹیکنالوجی، بین الاقوامی تعلقات، عالمی معیشت، اور جدید فلسفہ جیسے موضوعات کو نصاب کا حصہ بنانا ہوگا۔ کیا وجہ ہے کہ ہم ابھی تک جدید دنیا کی زبانوں جیسے انگریزی، چینی، فرانسیسی، اور ہسپانوی سے دور ہیں؟ کیا ہمیں نہیں معلوم کہ علم کے دروازے زبانوں کے ذریعے کھلتے ہیں؟ اگر ہم اسلام کا پیغام عالمی سطح پر پہنچانا چاہتے ہیں تو ہمیں عالمی زبانوں سے آشنا ہونا ہوگا۔

اسی طرح مذاہبِ عالم کی مذہبی زبانوں اور ان کے متون کا مطالعہ بھی ضروری ہے۔ اگر ہم بین المذاہب مکالمہ میں مؤثر کردار ادا کرنا چاہتے ہیں تو بائبل، توریت، وید، اور بدھ مت کے مذہبی متون کو سمجھنا ہوگا۔ محض جذباتی تقریروں سے ہم عالمی سطح پر اسلام کا مقدمہ نہیں جیت سکتے۔ ہمیں علمی تیاری کرنی ہوگی، دلائل کے ساتھ گفتگو کرنی ہوگی، اور اپنے مخالف کو دلیل سے قائل کرنا ہوگا نہ کہ طعن و تشنیع سے۔

آج امت جن مسائل کا شکار ہے، اس میں علما کی رہنمائی کی شدید ضرورت ہے۔ مگر رہنمائی وہی کر سکتا ہے جو خود زمانے کی نبض پہچانتا ہو۔ ندوہ کے فارغین کو محض مسجد کے امام یا مدرس بننے کے خول سے نکل کر، سماجی کارکن، معیشت دان، سیاست دان، اور علمی محقق بھی بننا ہوگا۔ ہمیں وہ نسل تیار کرنی ہوگی جو اسلام کو ایک مکمل نظامِ حیات کی حیثیت سے دنیا کے سامنے پیش کر سکے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم وہی کردار ادا کریں جو ماضی میں ہمارے اسلاف نے کیا تھا۔ اب وقت ہے کہ ہم عمل کو الفاظ پر فوقیت دیں۔ ہم نے بہت تقریریں سن لیں، بہت جلسے کر لیے، اب میدانِ عمل میں اترنے کا وقت ہے۔

اگر ندوہ کی تحریک کو پھر سے زندہ کرنا ہے تو سب سے پہلے ہمیں اپنے نصاب کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہوگا۔ ایسا نصاب ترتیب دینا ہوگا جو دینی علوم کے ساتھ عصری علوم کا بھی حسین امتزاج ہو۔ ہمیں جدید سائنسی تحقیقات، ٹیکنالوجی، عالمی معیشت، اور بین الاقوامی تعلقات جیسے مضامین کو نصاب میں شامل کرنا ہوگا تاکہ ہمارے طلبہ صرف ماضی کے قصے سنانے والے نہ بنیں بلکہ عصری مسائل کا حل پیش کرنے والے بنیں۔ اس کے ساتھ ساتھ عالمی زبانوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دینی ہوگی کیونکہ جب تک ہم انگریزی، چینی، فرانسیسی اور دیگر بین الاقوامی زبانوں سے ناآشنا رہیں گے، دنیا سے اپنا موقف مؤثر انداز میں نہیں پہنچا سکیں گے۔ اسی طرح مذاہبِ عالم کی مذہبی زبانوں اور ان کے بنیادی متون کا مطالعہ ضروری ہے تاکہ بین المذاہب مکالمے میں ہم صرف جذباتی باتیں نہ کریں بلکہ علمی بنیادوں پر گفتگو کر سکیں۔

تحقیقی مراکز کا قیام ندوہ کی ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے، جہاں امت کے موجودہ مسائل پر گہرائی سے تحقیق کی جائے اور ایسے ٹھوس حل تجویز کیے جائیں جو عملیت پر مبنی ہوں۔ قیادت کی تربیت بھی ہماری ترجیحات میں ہونی چاہیے تاکہ ندوہ کے فارغین محض خطیب یا مدرس نہ بنیں بلکہ امت کو جوڑنے والے حقیقی رہنما بن سکیں، جو سماجی، سیاسی اور معاشی میدانوں میں مؤثر کردار ادا کر سکیں۔ اس کے ساتھ اخلاقی اور فکری تربیت پر بھی بھرپور توجہ دینی ہوگی تاکہ طلبہ میں جرأت، حوصلہ، وسعتِ نظر، اور اختلافِ رائے کا احترام پیدا ہو۔ انہیں یہ سکھانا ہوگا کہ اختلاف دشمنی نہیں بلکہ ترقی کی راہ ہموار کرتا ہے۔

ہمیں عالمی سطح پر مؤثر نمائندگی کے لیے بھی تیاری کرنی ہوگی تاکہ بین الاقوامی فورمز پر اسلام کا مقدمہ دلائل اور حکمت کے ساتھ پیش کیا جا سکے۔ یہ سب تبھی ممکن ہے جب ہم زبانی دعوؤں سے نکل کر عملی میدان میں اتریں اور تحریکِ ندوہ کو اس کے اصل مقصد کے ساتھ جوڑ کر پھر سے زندہ کریں۔

اور یہ تمام مقاصد اس وقت ہی پورے ہو سکتے ہیں جب ندوہ اپنا دستور مکمل طور پر نافذ کرے، ندوی برادری اور اہل دانش کو ساتھ لے کر چلے، وقت کے تقاضوں پر کھلے دل سے مذاکرات کرے، اور طلبہ و اساتذہ کو سوال کرنے کا حق دیا جائے۔ ضروری ہے کہ عوامی سطح پر ایسے نکات پر غور و فکر کا سلسلہ شروع ہو جو ہماری قوم کو ترقی کی راہ دکھا سکیں اور ندوہ کو اس کی اصل تحریک اور مقصد سے جوڑ سکیں۔ جب تک ہم اپنے فیصلوں میں شفافیت، فکری آزادی، اور اجتماعی مشورے کو بنیاد نہیں بنائیں گے، محض دعوؤں اور تقریروں سے تبدیلی ممکن نہیں ہوگی۔

Comments

Avatar photo

ڈاکٹر محمد عادل خان

ڈاکٹر محمد عادل خان کل ہند طلبہ مدارس فورم کے صدر ہیں۔ دارالعلوم ندوة العلماء کے فارغ التحصیل ہیں۔ دارالعلوم دیوبند اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بھی تعلق رہا، پھر جامعہ ہمدرد نئی دہلی سے Bums کیا۔ ان نسبتوں سے خود کو ندوی، قاسمی، علیگ اور ہمدردین کہتے۔ ایم ایس شعبہ علم جراحت (یونانی) میں پی جی اسکالر ہیں۔

Click here to post a comment