ہوم << پنجاب یونیورسٹی کتاب میلہ - محمد عرفان ندیم

پنجاب یونیورسٹی کتاب میلہ - محمد عرفان ندیم

متنبی عربی شاعری کا اہم نام ہے ، اس کا اصل نام احمد بن حسین تھالیکن وہ ادب کی تاریخ میں متنبی کے نام سے زندہ ہے۔ وہ 915ء میں کوفہ میں پیدا ہوااورعرب کے مختلف خطوں میں شاعری کے رنگ بکھیرتا ہوا 965ء میں کوفہ میں ہی وفات پا گیا ۔ متنبی عربی ادب کا عظیم شاعر تھا جس نے اپنی فصاحت و بلاغت سے عربی شاعری کو نئی بلندیوں تک پہنچایا۔ اس نے اپنی شاعری میں بہادری، عزتِ نفس، علم، حکمت اور انسانی عظمت جیسے موضوعات کو خاص انداز میں پیش کیا۔ اس کی شاعری کی خصوصیات میں الفاظ کا شاندار انتخاب، گہری فکر اور مؤثر اندازِ بیان تھا ۔وہ اپنی زندگی میں مختلف بادشاہوں کے درباروں سے وابستہ رہا، ایک دفعہ اس نے قبیلہ اسد کے سردار فضل بن ضبہ کی ہجو میں کچھ اشعار کہے جس سے فضل کو شدید غصہ آیا۔فضل نے اپنے آدمی بھیجے اور متنبی کو اس کے بیٹے سمیت گھیرلیا ، متنبی نے فرار ہونے کا ارادہ کیاتو اس کے غلام نے اسے عار دلائی کہ آپ اپنی شاعری میں بہاردی کے بڑے دعوے کرتے تھے لیکن اب آپ پیٹھ پھیر کر بھاگ رہے ہیں۔متنبی بہت شرمندہ ہوا اور لڑنے کا فیصلہ کیا ،دوسری طرف لشکر طاقتوراور اسلحے سے لیس تھا چناچہ متنبی بیٹے سمیت اس لڑائی میں مارا گیا۔

متنبی خود تو مر گیا لیکن اس کے اشعار اور مصرعے آج بھی زندہ ہیں، مثلا اس نے کتاب کے حوالے سے کہا :’’وخیر جلیس فی الزمان کتاب‘‘ یعنی زمانے میں بہترین ہم نشین کتاب ہے۔لوگ مرجاتے ہیں ، بادشاہتیں ختم ہو جاتی ہیں ، تہذیبیں مٹ جاتی ہیں ، ملکوں کے جغرافیے بدل جاتے ہیں اور قومیں عروج و زوال کا شکار جا تی ہیں مگر کتاب ہمیشہ زندہ رہتی ہے ۔متنبی کو اس دنیا سے گئے ہزار سال گزر چکے مگر اس کی زبان اور قلم سے نکلا یہ ون مصرعہ آج بھی زندہ ہے اور یہ ہمیشہ زندہ رہے گا۔متنبی نے کتاب کو ہمنشین اور ہم سفر کے ساتھ تشبیہ دی ہے اوریہ حقیقت ہے کہ ایک اچھی کتاب ایسے دوست کی مانند ہوتی ہے جوآپ کو کبھی تنہا نہیں ہونے دیتی ہے۔ کتاب علم و حکمت کا خزانہ ہی نہیں بلکہ ذہن و روح کی غذا بھی ہے۔ یہ انسان کے فکری افق کو وسیع کرتی ہے، سوچ کے نئے زاویے عطا کرتی ہے اور ذہنی جمود کو توڑ کر تخیل کو پرواز بخشتی ہے۔ آپ کے خیالات جب کتابوں کی وساطت سے دنیا بھر کے مفکروں، ادیبوں اور فلسفیوں کے افکار سے ٹکراتے ہیں تو اس سے فکر میں پختگی اور وسعت پیدا ہوتی ہے۔ کتاب کے مطالعہ سے خیالات کی تازگی برقرار رہتی ہے اور یہ انسان کو زندگی کے مسائل کو سمجھنے اور حل کرنے کی صلاحیت عطا کرتی ہے۔ کتابوں کی صحبت انسان کو زمان و مکان کی قید سے آزاد کر دیتی ہے۔ ایک اچھی کتاب پڑھتے وقت انسان زمانے کی قید سے نکل کر ماضی، حال اور مستقبل میں بیک وقت سفر کر رہا ہوتا ہے۔ وہ کبھی ماضی کے بادشاہوں کے دربار میں ہوتا ہے، کبھی مفکرین کی محفلوں میں اور کبھی مستقبل کی نئی دنیا کے خواب دیکھ رہا ہوتا ہے۔

کتاب کا مطالعہ ایک ایسا آئینہ ہے جو ہمیں اپنی ذات کے مختلف پہلوؤں سے روشناس کراتا ہے۔ یہ ہمیں ہماری کمزوریوں کا ادراک اور خوبیوں کا شعور عطا کرتا ہے۔ جب ہم مختلف شخصیات کے تجربات اور افکار کو پڑھتے ہیں تو ہمیں اپنی زندگی میں درپیش مسائل کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ مطالعہ انسان کو تحمل، برداشت اور وسعتِ نظری عطا کرتا ہے جو آج کے تیز رفتار اور حبس زدہ موسم میں میں بے حد ضروری ہیں۔دورجدید میں جب سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل دنیا نے انسان کو سطحی علم کا عادی بنا دیا ہے کتابیں ہی وہ ذریعہ ہیں جو ہمیں گہرائی اور سنجیدگی کے ساتھ سوچنے پر آمادہ کرتی ہیں۔ یہ ہماری توجہ کو ارتکاز عطا کرتی ہیں اور ہمیں خیالوں کی پراگندگی سے نکال کر ایک واضح سمت عطا کرتی ہیں۔ علم کی روشنی سے منور ذہن ہی معاشرے کو نئی راہوں پر گامزن کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو قومیں کتابوں سے محبت کرتی ہیں وہی ترقی کی منازل طے کرتی ہیں۔مطالعہ کے بغیر زندگی بالکل ایسے ہی ہے جیسے بہار کے بغیر باغ یا روشنی کے بغیر چراغ۔ کتابوں سے دوستی نہ صرف وقت کا بہترین استعمال ہے بلکہ یہ ہمارے خیالات اور افکار کو بلندی عطا کرتی ہے۔ لازم ہے کہ ہم اور ہمارا سماج مطالعہ کو اپنے روز مرہ معمول کا حصہ بنائیں کہ قوموں اور ملکوں کے لیے یہی اصول ترقی کا زینہ اور کامیابی کی کنجی ہے۔

کتاب دوستی کی اسی روایت کو پروان چڑھانے کے لیے پنجاب یونیورسٹی لاہور میں پچھلے تین دن سے کتاب میلہ جاری تھا، یہ میلہ تین دن تک جاری رہا جس میں ہزاروں طلباء ، اساتذہ، محققین، والدین اور علم دوست افراد نے شرکت کی۔ پنجاب یونیورسٹی انتظامیہ بلا شبہ مبارکباد کی مستحق ہے جس نے نہ صرف اس ایونٹ کو منظم انداز میں ترتیب دیا بلکہ کتابوں سے محبت کرنے والوں کے لیے ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کیا جہاں علم و آگہی کے موتی بکھرے ہوئے تھے۔ یہ کتاب میلہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پنجاب یونیورسٹی اپنی تعلیمی اور علمی روایت کو نہ صرف زندہ رکھے ہوئے ہے بلکہ اسے وقت کے تقاضوں کے مطابق جدید رنگ بھی دے رہی ہے۔ انتظامیہ کی بہترین منصوبہ بندی اور موثر انتظامات نے اس ایونٹ کو بحسن و خوبی پایہ تکمیل تک پہنچایااور ہر عمر اور ہر طبقے کے افراد نے کتابوں کے ساتھ اپنا تعلق مزید مضبوط کیا۔یونیورسٹی انتظامیہ کی کاوشیں اس بات کی مظہر ہیں کہ وہ نوجوان نسل کو علم کی اہمیت سے روشناس کرانے اور مطالعے کے شوق کو پروان چڑھانے کے لیے سنجیدہ اور مخلص ہے۔ انتظامیہ کی محنت، لگن اور بہترین حکمت عملی نے یہ ثابت کر دیا کہ اگر تعلیمی ادارے اپنے منصب کو سمجھیں اور علم کے فروغ کے لیے خلوص نیت سے کام کریں تو نہ صرف طلباء بلکہ معاشرہ بھی اس کے ثمرات سے مستفید ہوسکتا ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے اس کتاب میلے کے ذریعے علم و ادب کے فروغ، نوجوان نسل میں مطالعے کے شوق کو بڑھانے اور معاشرتی ہم آہنگی کے فروغ کے لیے جو کردار ادا کیا ہے وہ قابلِ تعریف اور لائقِ تحسین ہے۔ ایسے علمی و ثقافتی میلوں کا تسلسل نہ صرف تعلیمی ترقی کا ضامن ہے بلکہ یہ قوموں کی فکری بلندی اور تہذیبی ورثے کے احیاء کا ذریعہ بھی ہے۔ پنجاب یونیورسٹی انتظامیہ اس شاندار کاوش پرمبارکباد کی مستحق ہے اورہمیں امید ہے کہ وہ مستقبل میں بھی علم و دانش کے فروغ کے لیے ایسے شاندار ایونٹس کا انعقاد جاری رکھے گی۔