ایک دوڑ لگی ہوئی ہے، پیسہ، پیسہ، پیسہ۔۔۔!! میں نے اتنے لاکھ کما لیے، آؤ تمھیں بھی لاکھوں کمانا سکھاؤں، میں نے اتنے لاکھ کی گاڑی لے لی، تم ابھی تک سرکاری ملازمت سے چمٹے ہوئے ہو، میں نے فلاں کام میں اتنے لاکھ کا نقصان اٹھایا لیکن یہ میرے لیے کوئی حیثیت نہیں رکھتا، میں نے ملازمت چھوڑ دی تو دیکھو میں آج کہاں ہوں۔!
فیس بک کھول لو تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ دنیا پہ آج سے پہلے نہ کسی نے لاکھوں کمائے، نہ ہی کسی نے آج سے پہلے صفر سے اٹھ کے معاشی خودمختاری اور غربت سے امارت کا سفر طے کیا۔ اللّٰہ کریم آپ سب کے رزق میں دن دوگنا اور رات چوگنا خیر اوربرکت عطا فرمائے۔ لیکن۔ معذرت کے ساتھ کہوں گی کہ آپ سب موٹیویشن نہیں پھیلا رہے، فرسٹریشن پھیلا رہے ہیں۔
آج کا نوجوان قناعت، حاصل پہ اطمینان اور استغنا (آسان الفاظ میں استغنا کسی دوسرے کے پاس دولت اور آسائشات کے انبار دیکھتے ہوئے بھی اس سے مکمل بےنیازی اختیار کرنے کو کہتے ہیں دل مطمئن ہو کہ اللّٰہ اسے مزید دے، میں اپنے حال میں راضی ہوں)جیسی اصطلاحات سے پہلے ہی نابلد ہے، اس پہ مستزاد سوشل میڈیا پہ دن رات پیسے کی اس چکاچوند نے نوجوان لڑکوں کو پیسے کی ایک لاحاصل دوڑ میں اور نوجوان لڑکیوں کو ہل من مزید کی ایسی آگ میں دن رات بھسم کرنا شروع کر دیا ہے کہ دنیا کی ہر نعمت موجود ہوتے ہوئے بھی دلوں میں شکرگزاری کا احساس تک پیدا نہیں ہوتا۔ ابھی عثمان بھائی کی وال پہ ایک ویڈیو دیکھی، ایک لڑکا عام لوگوں سے سوال کر رہا ہے کہ میں آپ کو دس ملین ڈالر دوں تو آپ قبول کریں گے، سب نے ہنسی خوشی ہاں میں جواب دیا، اگلا سوال۔تھا کہ یہ رقم اس شرط پہ ملے گی کہ آپ صبح سو کے اٹھیں گے نہیں تو ہر ایک نے انکار کر دیا، انہی نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ صبح صحت اور تندرستی کی حالت میں اپنے پیروں پہ اٹھ کھڑے ہونا، دس ملین ڈالر سے بھی قیمتی دولت ہے۔۔!!
میرے عزیزو۔!
میں یہ نہیں کہتی کہ اپنے حالات بدلنے کےلیے کوشش نہ کریں۔ بالکل کریں لیکن صرف پیسہ، صرف آسائشات، صرف دولت مند بننے کو اپنا مقصدِ حیات ہرگز مت بنائیں۔ آپ کو اللّٰہ کریم نے صحت عطا کی ہے، روز کھانے کو مل رہا ہے، گھر میں کوئی موذی بیماری نہیں ہے، آپ اپنے بچوں کے لیے رزق کمانے کی قابلیت اور طاقت رکھتے ہیں، آپ کے بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ آپ موسم کے مطابق ٹھنڈا اور گرم لباس زیبِ تن کرنے کے قابل ہیں، قسم بخدا۔۔۔! ان سب نعمتوں کا کوئی بدل ہے ہی نہیں، ہو ہی نہیں سکتا۔ نہ ہی ہم ان سب کا شکر ادا کرنے کے قابل ہیں۔ "معیارِ زندگی" نامی بلا کو اپنے حواسوں پہ مت سوار ہونے دیں۔
اور آپ سب سے، جنہیں اللّٰہ کریم نے صفر سے بہت اوپر پہنچا دیا ہے، یقین مانیں کہ آپ جیسے بےشمار لوگ اس دنیا میں ہیں، جو کچھ نہیں تھے اور آج بہت کچھ ہیں۔ یہ نظامِ کائنات ہمیشہ سے ایسے ہی چلتا آیا ہے، اس کے بعد بھی ایسا ہی رہے گا۔ یہاں کسی کے سر پہ بیٹھے بٹھائے اقتدار کا ہما بیٹھ جاتا ہے اور کوئی دو ہزار پانچ کے زلزلے جیسی کسی آفت یا کسی موذی مرض یا کسی بھی وجہ سے اپنی بنی بنائی راجدھانی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ آپ کا اللہ کریم نے ہاتھ پکڑ لیا ہے، اللہ کریم اس سے آگے بھی اپنا فضل و کرم شاملِ حال رکھے۔ لوگوں کو موٹیویٹ کیجیے لیکن خدارا فرسٹریشن پھیلانے سے احتراز برتیے۔ اس دنیا میں دولت مند ترین، غریب ترین اور متوسط طبقہ ہمیشہ سے تھا اور ہمیشہ رہے گا. اصل دولت مند وہ ہے جسے ربِّ کائنات نے حاصل پہ اطمینان اور استغنا عطا فرما دیا ہے۔ وما علینا الّا البلٰغ۔۔
تبصرہ لکھیے